زندگی و موت کے فیصلے کرنے والے روبوٹس
کوئی ایک ہتھیار ساز ملک بھی پیچھے ہٹ جائے تو باقی ممالک بھی کوئی ٹھوس وعدہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں
میزائلوں سے تحفظ کے امریکی سسٹم پیٹریاٹ ، اسرائیلی سسٹم آئرن ڈوم ، چین کے بلو فش اے ٹو ڈرون ، ٹینکوں کو میزائلوں اور راکٹوں سے بچانے والے روسی سسٹم ایرینا ، اسرائیلی سسٹم ٹرافی اور جرمن سسٹم اماپ ایڈز میں کیا قدرِ مشترک ہے۔
مصنوعی ذہانت سے مسلح یہ سب ہتھیار بنا کسی انسانی مداخلت ازخود کسی ہدف کو سونگھ کے ، محسوس کر کے یا دیکھ کے اسے تباہ یا ہلاک کرنے یا زندہ رکھنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔آپ انہیں خود مختار ہتھیار یا قاتل روبوٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔
دو ہزار بیس میں لیبیا میں ترک ساختہ کرگو ڈرون نے ازخود ایک انسانی ہدف کو نشانہ بنایا۔یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جب کسی خودکار ہتھیار نے خود ہی ہدف کا تعین کر کے اسے ختم کر دیا۔مئی دو ہزار اکیس میں اسرائیل نے مصنوعی ذہانت سے لیس خودمختار ڈرونز کے ایک اسکواڈرن کو غزہ پر بمباری کے لیے استعمال کیا۔یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
اس وقت مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہدف کی شناخت اور اس کے خلاف کارروائی کا ازخود فیصلہ کرنے والے ہتھیاروں کی تحقیق و تیاری پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری امریکا ، چین ، روس ، برطانیہ ، اسرائیل ، جنوبی کوریا ، آسٹریلیا ، بھارت اور ترکی میں ہو رہی ہے۔
ایسے خودمختار ہتھیاروں کے حامی طبقے کی دلیل یہ ہے کہ ان کے استعمال سے فوجی افرادی قوت خواہ مخواہ کے جانی نقصان سے بچ سکتی ہے۔
یہ چونکہ پروگرامڈ ہتھیار ہیں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے آس پاس اور ہدف کا بہتر اندازہ لگا کے انسانی غلطی سے پاک نشانہ باندھ سکتے ہیں۔چنانچہ میدانِ جنگ میں حادثاتی اموات کا تناسب کم کر سکتے ہیں۔
ایسے ہتھیار اپنے الگورتھم سسٹم کی تجزیاتی صلاحیت کی مدد سے دشمن کی جانب سے آنے والے میزائلوں یا دیگر ایمونیشن کو زیادہ مستعدی اور درستی کے ساتھ اپنے فوجیوں اور اثاثوں کو نشانہ بنانے سے روک سکتے ہیں۔
مگر ان ہتھیاروں کی تیاری کے مخالفین کہتے ہیں کہ ان کے استعمال کو جنگی اخلاقیات کے تابع کرنے کے لیے فی الحال کوئی علاقائی یا بین الاقوامی ضابطہ یا معاہدہ نہیں۔اگر یہ کسی بھی ہدف کے خلاف ازخود کارروائی کرتے ہوئے آپے سے باہر ہو جائیں اور یوں کسی حادثے یا بیگناہ انسانوں کی موت کا سبب بن جائیں تو ان ہتھیاروں پر جنگی جرائم کی فرد عائد نہیں ہو سکتی۔ تو پھر ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا۔
یہ ہتھیار بنانے والا، اسے نصب کرنے یا میدان ِ جنگ میں پہنچانے والا یا وہ اعلی فوجی و سویلین قیادت جس نے یہ ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا یا اجازت دی ؟
اس بابت خود مختار ہتھیار بنانے اور انہیں استعمال کرنے والے ممالک حسبِ معمول منقسم ہیں۔مثلاً روس ان کے استعمال کے شرائط و ضابطے عالمی سطح پر وضع کرنے کا کھلا مخالف ہے۔
امریکا اور برطانیہ فی الحال ان ہتھیاروں کو کسی بین الاقوامی کنونشن یا سمجھوتے کے تابع کرنے کو قبل از مرگ واویلا بتا رہے ہیں۔چین اگرچہ خود مختار ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے حق میں ہے تاہم ان سے متعلق تحقیق روکنے کے حق میں نہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ ایسے کسی بھی جامع معاہدے سے پہلے پہلے وہ اس میدان میں بھی مغربی اسلحہ سازوں کو جتنا پیچھے چھوڑ سکے چھوڑ دے۔
بھارت کو اگرچہ اس طرح کے ہتھیاروں کی تیاری کی عالمی دوڑ اور ان کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے تو دوسری جانب وہ ان ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے پر تیزی سے کام بھی کر رہا ہے۔
ایسے ہتھیاروں کی تیاری ، تنصیب اور استعمال کی سب سے زیادہ مخالفت تیسری دنیا کی جانب سے ہو رہی ہے۔اور اس کی قیادت وسطی امریکا کا ملک کوسٹاریکا کر رہا ہے۔
وہاں انیس سو اڑتالیس میں فوج کا ادارہ ہی ختم کر دیا گیا۔تب سے اب تک کسی ہمسائے سے جنگ نہیں ہوئی اور خانہ جنگیوں کے شکار خطے میں کوسٹاریکا ایک مستحکم جزیرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
گزرے فروری میں تیس ترقی پذیر ممالک نے ان ہتھیاروں کے استعمال و تیاری پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا۔اور اس بابت کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری و استعمال پر پابندی کے بین الاقوامی کنونشن کی طرز پر خود مختار ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے ایک جامع عالمی معاہدے کی فوری تیاری پر زور دیا۔
کانفرنس میں شریک جنوبی افریقہ نے ایسے ہتھیاروں کے لیے بنیادی ضوابط کی تشکیل کا تو مطالبہ کیا البتہ مکمل پابندی کی حمائیت سے اجتناب برتا۔ اگرچہ یورپی پارلیمنٹ بھی ایسے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف ایک قرار داد منظور کر چکی ہے۔مگر ان سب مطالبات کے موثر ہونے کی راہ میں ایک نفسیاتی و مفاداتی رکاوٹ ہے۔
جو ممالک یہ ہتھیار بنا رہے ہیں وہ مکمل پابندی کے بالکل حق میں نہیں۔ جن ممالک نے ابھی یہ ہتھیار نہیں بنائے مگر ان کے پاس اس بارے میں مناسب تکنیکی و سائنسی صلاحیت ہے وہ اس لیے مکمل پابندی کے حق میں نہیں کہ اگر ہتھیار ساز ممالک ایسی پابندیاں قبول کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ہم کیوں رضاکارانہ طور پر ان پابندیوں کو قبول کر کے اپنے ہاتھ بندھوالیں اور دفاع کے ایک موثر ذریعے سے خود کو محروم رکھیں۔
ویسے بھی تخفیفِ اسلحہ یا کسی بھی مخصوص وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی تیاری مکمل طور پر روکنے کے معاہدوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ باہمی اعتماد کا سنگین فقدان رہا ہے۔اسی لیے اس بابت مذاکرات سالہاسال جاری رہتے ہیں۔
کوئی ایک ہتھیار ساز ملک بھی پیچھے ہٹ جائے تو باقی ممالک بھی کوئی ٹھوس وعدہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کیا ضمانت ہے کہ حریف نے بظاہر ہتھیاروں کی تیاری روکنے کی حامی بھر لی ہو مگر درپردہ تیاری جاری ہو۔
رکاوٹوں کا سبب کچھ بھی ہو۔مگر انسانوں کی زندگی و موت کے فیصلے کسی انسان کے بجائے کوئی مشین کرے تو انسانی جان کی اس سے زیادہ تذلیل فی الحال کیا ہو سکتی ہے ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کیلیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)