بڑی باجی

ان کی ذاتی زندگی کی تو انہوں نے اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے وقف رکھا



رفعت اکبری باجی سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ان کے والدین انڈیا (بہار) سے ہجرت کر کے کراچی آئے تھے، آپ 1951ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔

بہادر یار جنگ اسکول سے میٹرک کیا اور جامعہ کراچی سے ایم اے (اکنامکس) کی سند حاصل کی بعدازاں انہوں نے بی ایڈجامعہ ملیہ سے کیا اور محکمہ ایجوکیشن میں بطور شماریاتی آفسر تعینات ہوئیں۔ یہاں انہوں نے عرصہ دراز تک اپنی ذمہ داریاں بڑی خوش اسلوبی سے نبھائیںمثلا وقت پر آنا، وقت پر کام مکمل کرنا، چھٹی نہ کرنا، سب سے خوش اسلوبی سے پیش آنا، آگئے بڑھ کر لوگوں کی مدد کرنا، ساتھیوں سے مکمل تعاون کرنا، اپنی ذاتی زندگی کو کبھی انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات پر فوقیت نہ دی۔

ان کے آفس میں ایک مالی بابا کام کرتے تھے وہ غیر شادی شدہ تھے اور اکیلے مسجد میں رہتے۔ جب وہ ریٹائر ہوئے تو باجی ان کو ہر مہینے ان کے وظیفے کے پیسے نکلوا کر دیتیں۔ مالی بابا اپنی پنشن کے کچھ پیسے خود رکھتے اور باقی باجی کے پاس رکھواتے کہ میں پیسے جمع کر کے اپنے لوگوں میں واپس جانا چاہتا ہوں جو کہ قیام پاکستان کے وقت ان سے بچھڑ گئے تھے۔

باجی ان کو ان کے عزیز رشتے داروں سے ملوانے میں لگ گئیں جس کے لیے انہوں نے انصار برنی سے رابطہ کیا اور مالی بابا کو وہاں لے کر گئیں۔ انصار برنی نے بابا کے تمام کوائف حاصل کر کے کہا کہ وہ ان کے ہندوستان میں رشتے داروں کو ڈھونڈیں گے وہ بابا کو رکشے میں بیٹھا کر پاسپورٹ آفس لے کر گئیں ان کا پاسپورٹ بنوایا بالاخر ان کے عزیز رشتے داروں کا پتہ چل گیا مگر افسوس صد افسوس ویزہ لگنے ہی والا تھا کہ مالی بابا انتقال کر گئے۔

بابا تو اپنوں کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ فکر بھی دے گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اپنوں کو اپنوں سے ہی دور کر رہی ہے اور اس ہجرت کے نتیجے میں ادھر ادھر ہونے والے تازیست اپنوں کو دیکھنے تک کے لیے ترس رہے ہیں۔ باجی کو مالی با با کے انتقال کا بہت دکھ ہوا ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق جو لڑکے ان کی خدمت کرتے تھے باجی نے ان کی جمع شدہ رقم میں سے ان کو ان کا حصہ دیا اور باقی پیسے جس مسجدمیں وہ رہتے تھے وہاں دیدیے۔

ایجوکیشن آفس سے ان کا تبادلہ بطور انچارج خاتون پاکستان میں ہو گیا جو اس وقت ایک این جی او کے سپرد تھا۔ اس وقت جب این جی او نے اسلامی تعلیمات پاکستانی معاشرت کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کی تو بطور ذمہ داراسکول رفعت اکبری ان کے خلاف ڈٹ گئیں اور تمام اساتذہ، طالبات اور والدین کے ساتھ مل کر ان اقدامات کے خلاف ہڑتال کی، یہ تمام خبریں جب میڈیا اور اعلی حکام تک گئیں تو وہ سارے اقدامات واپس ہوئے جو پاکستانی تہذیب اور معاشرے کے خلاف تھے یہ رفعت باجی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔

بطور انچارج وہ مزید دو اسکولوں میں تعینات رہیں اور وہاں بھی انہوں نے اساتذہ اور طالبات کے حقوق کی پاسداری کی۔ انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے اساتذہ کے لیے ان اسکولوں کے اسٹاف رومز میں کرسیوں اور پنکھوں کا انتظام کیا، جن مضامین کے اساتذہ موجود نہیں تھے انہوں نے اپنے طور پر اسکول فنڈ سے ان کی تنخواہوں کا انتظام کر کے انھیں رکھا تاکہ طالبات کا حرج نہ ہو وہ ان اسکولوں کے مسائل کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتیں۔

انہیں اس تعلیمی نظام میں جہاں جہاں بھی خامی نظر آتی۔ ان اسکولوں میں سائنس لیب اور بچوں کے لیے پینے کے پانی کا انتظام باجی نے کیا، ان مدرسوں میں عملی (پریکٹیکل) تعلیم کے اساتذہ کی کمی ہوتی تو اپنی بہنوں (جو سائنس کے شعبے سے متعلق ہیں) سے کہتیںکہ آ کر میرے بچوں کو پریکٹیکل کروا دو۔

اب بات کی جائے ان کی ذاتی زندگی کی تو انہوں نے اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے وقف رکھا، کم عمری سے ہی اپنی والدہ کے ساتھ بھائی بہنوں کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کرتیں۔ صبح سے اٹھ کر اسکول جانے سے پہلے والدہ کے ساتھ ناشتہ بنواتیں، چھوٹے بھائی بہنوں کو اسکول کے لیے تیار کرواتیں اور پھر اسکول جاتیں۔ اسکول سے آنے کے بعد وہ والدہ کے ساتھ گھر کے تمام کام کرواتیں اور بھائی بہنوں کو پڑھاتیںان کو وقت پر سلاتیں، وقت پر اٹھاتیں الغرض وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ہر کام میں اپنی والدہ کا بھرپور ساتھ دیتیں۔

زندگی کے ہر مقام پر وہ صرف اپنوں کی ہی نہیں غیروں کی بھی رہنمائی کرتیں، دوستوں رشتے داروں کی خوشی و غم میں لازمی شریک ہوتیں، سب کی خبر گیری رکھتیں۔ پڑوسیوں کا ان کی نظر میں خاص مقام تھا خوشی و غم میں شرکت کے علاوہ عید، رمضان پر آس پاس کے گھروں میں بڑے اہتمام سے پکوان بھی بھجواتیں۔

ان کی شخصیت کا ایک خاصہ یہ تھا کہ وہ بڑی خاموشی سے ایسے افراد کی مدد کرتیں جو ان کے خیال میں مدد کے مستحق تھے، بعض اوقات کچھ افراد اپنی بیٹی کی شادی میں تعاون چاہتے تو وہ اپنی تنخواہ سے کمیٹی ڈالتیں اور جب وہ پوری ہو جاتی تو وہ اس گھرانے کو رقم دے دیتیں۔

انہیں گھر سجانے اور سنوارنے کا خاص شوق تھا، شادی سے پہلے اپنے ماں باپ کے گھر میں کتابوں کی الماری، برتن اور گھریلو استعمال کی اشیاء بڑے شوق سے لاتی تھیں وہ اپنی تنخواہ اپنے اوپر خرچ نہیں کرتیں وہ جاب کے ساتھ ٹیوشن سینٹر بھی چلاتیں اور غریب طلباء جو فیس نہیں دے سکتے تھے اور پڑھنے کے شوقین تھے ان کی فیس معاف کر دیتیں۔

شادی کے بعد انہوں نے اپنے سسرالی عزیز رشتے داروںکو ایک خاص اہمیت دے کر ایک مثالی گھر بنایا وہ اپنے شوہر کے قرابت داروں کو اپنے سگے بھائی بہنوں سے بڑھ کر سمجھتیں۔ 2017ء سے جنوری 2023ء تک باجی نے اپنے شوہر کی خدمت میں کوئی کمی نہ چھوڑی ان کے ٹائم پر بال کٹوانا، شیو بنوانا، وقت پر دوائیںدینا جب وہ اٹھ جائیں تو ان کے کھانے پینے کا دھیان رکھنا۔

شوہر کے ذہنی مفلوج ہونے کے باوجود ان سے اپنی ہر بات شیئر کرنا، کہیں آنے جانے کے وقت کا ان کو بتانا اور اگر وہ منع کر دیںتو اس کا احترام کرنا جب کہ وہ باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ باجی اپنے شوہر کی ذاتی اشیاء کا اس وقت میں بھی بھرپور خیال رکھتیں۔

باجی بھی شوگر اور بلڈپریشر کے عارضے کے ساتھ ساتھ اب دل کے مرض میں بھی مبتلا ہو چلی تھیں مگر انہوں نے کبھی بھی اپنی بیماری کو اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دیا۔ باجی کی اولاد نہ تھی ان کے گھر میں ان کے شوہر اور ان کے بھائی بہن سب بہت بوڑھے ہوچلے تھے۔ پچھلے دنوں جب وہ بیمار ہوئیں اور ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑے گا تو انہوں نے اپنی بیماری کی حالت میں بھی اپنے گھر کے اہم کام کیے- خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہسپتال میں داخلے کے دوسرے روز ہی باجی رفعت اکبری انتقال کر گئیں۔ وہ اپنے نام کی طرح اسم بامسمی تھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔