بابالال سرے کا قتل
حاجی صاحب نے کہا کہ مجھے میرے بیٹے نے خبردی کہ لال سرے کو کسی نے مار دیاہے
چمکنی تھانے کی حدود میں نامعلوم قاتلوں نے ایک شخص کو چھریاں مار کر قتل کردیا ہے اور پولیس نے حسب معمول تفتیش شروع کردی ہے، نہ جانے کب تک تفتیش چلے اورحقیقت معلوم ہو لیکن ہمیں اس سے ملتاجلتا ایک واقعہ یاد آرہاہے جس کا عنوان ہم نے ''لال سرے کا قتل'' رکھا ہوا ہے۔
لال سرے کے قتل سے بیس سال پہلے جب ہمارا بچپن تھا، ہمارے گائوں میں ایک نوجوان کی خوبصورتی کی وجہ سے مشہوری ہوگئی اور علاقے کے ایک بدمعاش نے اس سے دوستی کرنے کی کوشش کی ، پھر اس بدمعاش کو کسی قتل میں پکڑ لیا گیا تو اس کے اسی دوست اورساتھی کی گواہی سے اسے پھانسی کی سزا ہوگئی، اس وقت وہ نوجوان بھی پکا بدمعاش بن گیا تھا اور عین عروج کے وقت و ہ اچانک غائب ہوگیا، عرصے تک پتہ نہیں چلا تو لوگوں نے سمجھ لیا کہ اسے بھی کسی نے مار ڈالا ہوگا ، ہمارے گائوں کی اصطلاح کے مطابق اسے کسی نے ''بویا'' ہوگا۔
اس کی بیوی بھی تھی اور شیرخوار بچہ بھی، وہ شیرخوار بچہ جوان ہوکر بچوں کا باپ بنا لیکن پورے بیس سال بعد اچانک لال سرے کی خبر آگئی، راولپنڈی سے ایک حاجی صاحب نے پنڈی کے شناختی کارڈ آفس کے پرانے اندراجات سے پتہ لگایا تھا وہ غائب شدہ شخص راولپنڈی کے ایک کشمیری قبرستان میں بابالال سرے کے نام سے اب قتل ہوا ہے۔
اس کے لواحقین نے ہم کو بھی ساتھ لے لیا، پہنچے تو ایک قبرستان میں اس حاجی صاحب نے ہمیں اس کی قبردکھائی جو اس کشمیری قبرستان کا متولی اور بابا لال سرا تھا ، ساتھ ہی قبرستان میں اس کی نہایت لگژری رہائش گاہ بھی تھی اور اسی رہائش گاہ میں نامعلوم قاتلوں نے اسے چھریوں کے وار کرکے قتل کیا تھا، اس کا شناختی کارڈ اور تصویریں بھی ملیں، رشتہ داروں نے پہچان لیا، واقعی یہ لال سرا بابا وہی شخص تھا جو بیس سال پہلے اپنے شیرخوار بچے اور بیوی کو چھوڑ کر غائب ہوگیا تھا۔
اس خبر لانے والے حاجی صاحب کاگھراسی قبرستان سے متصل تھا، قبرستان کا نام کشمیری قبرستان تھا اوراس میں ایک مزار بھی تھا ، قبرستان کا اصل متولی کوئی اور تھا جو لندن میں رہتاتھا اوراس نے اپنی جگہ بابالال سرے کو اپنا قائم مقام بنا کر چھوڑا تھا ، بابالال سرا قبرستان اور اس مزار کی دیکھ بھال بھی کرتاتھا، مزار کی آمدن کے علاوہ وہ کفن دفن کے ٹھیکے بھی لیتاتھا جب کوئی مردہ قبرستان میں دفن ہوتا تھا تو بابالال سرا کفن دفن کاسارا کام ٹھیکے پر لے لیتا تھا، اس غرض کے لیے اس نے کچھ آدمی بھی رکھے ہوئے تھے، یہ آج سے کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے.
اس وقت وہ کفن دفن کاٹھیکہ تین ہزار روپے میں لیتاتھا، مطلب یہ مزار کی آمدنی اورکفن دفن کے اس کام میں اسے کافی کچھ مل جاتاتھا ،چنانچہ اس کی لگژری رہائش گاہ بہت ساری چیزوں سے بھری ہوئی تھیں ٹیپ ریکارڈر، کیسٹس، ٹی وی، فریج، گیس کی سہولت سے مزین لگژری باورچی خانہ ،گویا قبرستان کے بیچوں بیچ اس نے اپنی ایک جنت آباد کی تھی ، تصویروں میں مکمل کلین شیو اورسرکے سرخ بال ان ہی بالوں کی وجہ سے وہ بابا لال سرا مشہورتھا۔
حاجی صاحب نے کہا کہ مجھے میرے بیٹے نے خبردی کہ لال سرے کو کسی نے مار دیاہے، اس سارے عرصے میں حاجی صاحب کے مطابق وہ اکثر پشاورشہر بھی جاتا رہتا تھا، گویا اپنے گائوں اورگھر کے پاس سے گزرتا رہاتھا،لیکن نہ اس نے کبھی بیوی کی خبر لی نہ بچے کی۔ یہاں تک کہ قبرستان کے لیے پتھر کی سلیں بھی مانکی شریف سے لے جایا کرتاتھا جو ہمار ے گائوں کے قریب ہے، جب ہم گئے تو قبرستان میں پتھر کی سلوں کا بہت بڑا اسٹاک بھی پڑا تھا جو حاجی صاحب کے مطابق تین چار لاکھ کا مال تھا ، خیر مال تو سارا بیٹے کو مل گیا لیکن قاتلوں کا پتہ نہیں چلا کہ آخر بابالال سرے کو کس نے مارا۔
عام نظریہ یہ قائم کیا گیا تھا کہ معاملہ ڈکیتی کاہے لیکن یہ بات ہمارے حلق سے نہیں اتری، اگر مارنے والے ڈاکو تھے تو اتنا سارا قیمتی اور لگژری سامان کیوں نہیں لے گئے تھے بلکہ سب سے زیادہ سوچنے والی بات یہ تھی کہ اسے ایک دو نہیں آٹھ دس وارکرکے قتل کیاگیاتھا جو شدید غصہ نکالنے کامظہر ہے، ڈاکو ہوتے تو ایک دو وار کرکے چھوڑ دیتے کہ مارنے کے لیے ایک وار بھی کافی تھا لیکن اتنے وار؟ پھر اس کی فیشن ایبل رہائش گاہ ،خوبصورت چہرے اور سرکے بال رنگنے سے بھی اندازہ لگتا تھا کہ بابا لال سرا کچھ اور بھی کاروبار کرتا ہوگا۔