موت کے سوداگروں کا کھیل

عالمی بساط پردو خوں خوار جانورامن کو تار تار کررہے ہیں اور صاف نظرآرہا ہے کہ سرخ ریچھ پھر سے انگڑائی لے رہا ہے


Rafi Allah Mian April 26, 2014
دنیا میں اس وقت جگہ جگہ امریکی اور روسی ایجنٹس تباہی مچا رہے ہیں۔ جس کی تازہ ترین اور لرزہ خیز مثال یوکرین کی ہے۔ فوٹو فائل

پچیس سالہ ہزیمت کہو یا سرما خوبی، بہرحال زخمی ریچھ نے پلٹ کرکاری وار کردیا تو ہم متحدہ امریکہ کو پیچ وتاب کھاتے ہوئے دیکھ سکتے ، محسوس کرسکتے تھے۔ معاملہ بظاہرشام کا تھا لیکن ایران کے ہونٹوں پر صبح صادق کی کرن جھلملارہی تھی۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ کیری کی تلملاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی 'آخر ہم ایران کوکب بتاسکیں گے کہ امریکہ ایک بہت طاقت ور وفاق ہے'اوباما کی فکرمندی بڑھ گئی: 'میں تو ایک اور جنگ کا مینڈیٹ لے کر آیا ہوں، میرا کیا بنے گا!'

بات چیت جاری تھی کہ روس نے بڑے نازک موقع پر وار کیا ہے۔'سر' نائن الیون کے بعد ہم نے کتنی کامیابی سے اپنی مرضی کی عالمی بساط ترتیب دی ۔ اس سے قبل کے پاکستان، بھارت اور ایران شنگھائی تعاون تنظیم جوائن کرلیں، افغانستان پر ہمیں اپنی گرفت مضبوط کرنی ہوگی۔ نیٹو فورسز کے جزوی انخلا کے بعد مشکلات میں تھوڑا سا اور اضافہ ہوگا۔ تو ہم وسطی ایشیا کی مشکلات میں اضافہ کردیں گے۔ اس کے عوام ایک ایسی ڈکٹیٹر شپ تلے دبے ہوئے ہیں جو انھیں جلد پرتشدد احتجاج پر ابھارے گی۔ مسلم گروپس کو دبایا گیا ہے' وہ بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مصر، تیونس، لیبیا، شام اوراب یوکرین میں حزب اختلاف کی جس طرح پشت پناہی ہم کررہے ہیں وہ ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور قازقستان میں ناممکن نہیں ہے۔

روس اگرچہ وہاں دہشت گرد تنظیموں کو پال رہا ہے۔ چند تنظیموں تک ہماری بھی رسائی ہے اور اس کے لیے ہمیں سعودی حکومت کا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مذکورہ ریجن میں کیا ہم اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو پس پشت ڈال سکتے ہیں؟
'ٹھیک ہے لیکن محدود وقت کے لیے ہنگاموں اور بغاوتوں کی آڑ میں ہم حریف کو یہ سمجھاسکتے ہیں کہ وہ عالمی طاقت کی کھینچی ہوئی خاص لکیر کو کسی صورت پار نہیں کرسکتے۔

عالمی بساط پر اس وقت دو بڑے خوں خوار جانور قبائے امن کو تار تار کررہے ہیں اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سرخ ریچھ پھر سے انگڑائی لے کر بیدار ہوچکا ہے اور وہ اپنے پرانے طورطریقے بھلاکر جدید دور کے استحصالی ہتھ کنڈے اپناچکا ہے یعنی ماضی کی طرح ممالک پر چڑھائیاں نہیں کررہا بلکہ حلیفوں کی مدد کے نام پر بہ نفس نفیس اسی طرح 'سازوسامان' کے ساتھ پہنچ جاتا ہے جس طرح امریکہ ہر طرح کے قوانین کو پامال کرکے دوسروں کے علاقوں میں جا گھستا ہے۔

دنیا میں اس وقت جگہ جگہ امریکی اور روسی ایجنٹس تباہی مچا رہے ہیں۔ جس کی تازہ ترین اور لرزہ خیز مثال یوکرین کی ہے۔ فرانس، جرمنی اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ وہاں مذاکرات کی میز سجاکر بیٹھ گئے تھے اور ولیم ہیگ باقاعدہ دھمکارہے تھے کہ حکومت کو حساب دینا ہوگا۔ روس اور یورپ کے درمیان تجارتی تنازعے سے امریکہ نے فائدہ اٹھایا اور یوکرین میں شورش کی ابتداکردی۔ آج اس چھوٹے سے ملک کا بھی بٹوارہ ہوچکا ہے اور نہ جانے کتنے عرصے بعد اس غیر حقیقی بٹوارے کا اختتام وقوع پذیر ہوتا ہے کوئی نہیں جانتا، مگر فی الوقت تو روس کی پیش قدمی جاری ہے۔

مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیا تک بہت سارے ممالک میں اس وقت امریکی، روسی اور اسرائیلی ادارے اپنے جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نت نئے خوں ریز طریقہ ہائے تباہ کاری کی مثالیں پیش کررہے ہیں۔ ان خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک القاعدہ تنظیم بھی ہے۔ یہ اس وقت بیروت اور نائجیریا کو گھیرے ہوئے ہے۔ عبداللہ عزام بریگیڈ اور بوکوحرم تنظیمیں خود کش کار بم دھماکوں اور دیگر اقسام کے حملوں میں عوامی مقامات کو نشانہ بناکر تباہی پھیلارہی ہیں۔ امریکی خفیہ اداروں نے خودکش حملوں کو ایک انڈسٹری کی طرح پروان چڑھایا اور اس شعبے میں اتنی تندہی سے وسیع سطح پر سرمایہ کاری کی کہ آج تک کسی کو یہ سوچنے کی بھی فرصت نہیں ملی کہ اس 'علت' نے دنیا بھر میں اتنی تیزرفتاری سے مقبولیت کیسے حاصل کرلی اور وارداتوں میں اتنی مماثلت کیسے پائی جارہی ہے؟ یہ ایک چین آف سپلائی ہے جس میں بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے مقاصد کے تحت شامل ہیں۔ ان خودکش حملوں میں زیادہ تر عوام یا پھر پولیس فورس کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں شہروں کے سول تناظر کو تاراج کرکے اس کی آڑ میں اپنے خاص اہداف تک رسائی یا سپلائی چین کو حفاظت فراہم کی جاتی ہے۔ اس چین میں زیرزمین دنیا کے کھلاڑی پورے عروج پر نظر آرہے ہیں اور اسی لیے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں نے زبردست زور پکڑا ہے۔

اس خوں ریز کھیل میں کراچی سمیت دنیا بھر کے ساحلی شہروں نے بنیادی حیثیت حاصل کی ہے۔ زیرزمین دنیا سے وابستہ موت کے سوداگروں نے کراچی کو اسلحے کا ڈھیر بنادیا ہے۔ پورٹ قاسم اور سرکریک کے متنازعہ بارڈر کی مکمل نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ تجارتی جہازوں سے لایا جانے والا اسلحہ و بارود کھلے سمندر سے لانچوں کے ذریعے بہ آسانی مطلوبہ مقامات پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپلائی چین ایک ہی ہے جو ہرجگہ ایک ہی جیسا بارود پہنچارہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ایجنسیاں سب سے طاقت ور ہیں۔ ساحلی شہروں پر ان کا کمانڈ مستحکم ہے' سوائے شام ' جہاں ایک اہم ساحل پر روسی نقش قدم بڑے مستحکم ہیں تاہم امریکہ بھی اسرائیل اور اردن کے ذریعے پوری آزادی کے ساتھ متحرک ہے اور اسی باعث وہاں زبردست تباہی پھیلی ہوئی ہے۔

نیویارکر ڈاٹ کام کے ایڈیٹر نکولس تھامسن کے مطابق باغی اپوزیشن کو مسلح کرنے کے اس کھیل کا آغاز امریکی انتظامیہ نے اپریل دوہزار تیرہ میں کیا تھا اور سی آئی اے کو اس کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اگرچہ اس کا باضابطہ اعلان دو ماہ بعد اوباما کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی مشیربینجمن رھوڈز نے کیا۔ روسی اور امریکی و سعودی ایجنٹوں نے ایک دوسرے پر کھل کر وار کیے۔ اس دوران ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیار بھی آزمائے گئے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے تاہم اس کا فائدہ امریکہ نے اٹھایا۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ امریکہ کے ذریعے یہ کیمیائی ہتھیار اب یوکرین نہ پہنچ جائیں۔

بات فلسطین کی ہو، عراق، افغانستان، شام یا پھر پاکستان کی ۔ ہر جانب خون ناحق اپنے پوری رفتار کے ساتھ اس کرہ عرض پر اپنی موجودگی میں اضافہ کررہا ہے۔ اگر ان پرتشدد کارروائیوں میں غیر ریاستی ادارے ملوث ہوتے تو اِس کو ختم کرنا کوئی مشکل کام ہرگز نہیں تھا۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ساری دہشتگردی کے پیچھے دنیا کی طاقتور ریاستیں موجود ہیں چاہے پھر ذکر امریکہ کا کیا جائے یا پھر اسرائیل اور روس کا۔اس ساری صورتحال کے بعد دعا تو یہی کرنی چاہیے کہ دنیا بہت جلد سکون کے اُن لمحات سے محظوظ ہوں جس کو بچھڑے کئی سال ہوچکے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔