کشمیر پر پاکستانی موقف کی عالمی پذیرائی بھارت ناکام

بھارت میں جی 20 ممالک کا اجلاس... اہم ممالک کا بائیکاٹ


ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : محمود قریشی

جی 20 سمٹ کی میزبانی بھارت کے پاس ہے جو رواں سال ستمبر میں ہونا ہے۔ اس سے پہلے مختلف موضوعات پر، مختلف سطح کے اجلاس ہورہے ہیں جن میں سے ایک مقبوضہ کشمیر میں جی 20سیاحت کے ورکنگ گروپ کا اجلاس ہے جو متنازعہ ہوگیا۔

اس کی وجہ پاکستان کی جارحانہ سفارتکاری ہے جس نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ ثابت کے کرنے کی بھارتی کوشش کو خاک میں ملا دیا۔ چین، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور مصر نے پاکستان کی درخواست اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

اس طرح عالمی سطح پر کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور بھارت کے ناجائز قبضے کے حوالے سے دنیا نے ہمارے اصولی موقف کو تسلیم کیا۔ ایک طرف یہ معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کی کوششوں سے سعودی عرب،ایران تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔ سی پیک منصوبے پر بھی کام کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے۔

چین کی طاقت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور امریکا اسے اپنے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے۔ اس خطے میں بھارت اس کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے اور وہ اس کے ذریعے یہاں کا ماحول خراب کر رہا ہے۔

پاکستان پر آئی ایم ایف کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''جی 20 میٹنگ اور عالمی منظرنامہ'' کے موضوع پر مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جاوید حسین
(سابق سفارتکار )

جی 20 ترقی یافتہ ممالک کا گروپ ہے جن کی معیشت 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ جی 20 سمٹ ستمبر میں نئی دہلی میں ہونا ہے۔ اس سے پہلے مختلف میٹنگز ہو رہی ہیں اور اب تک 3 ہوچکی ہیں۔ ہماری درخواست پر چین، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور مصر نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جی 20 میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔

یہ ہماری سفارتی کامیابی ہے جو معمولی نہیں۔ بھارت تو جی 20کا رکن ہے، اس وقت کانفرنس کی میزبانی اس کے پاس ہے ،اس کی معیشت 3736 بلین ڈالر ہے جبکہ ہماری صرف 376بلین ڈالر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری آواز مزید مضبوط ہو تو خود کو معاشی طور پر بہترکرنا ہوگا۔ عالمی سیاست بچوں کا کھیل نہیں، جنگ، امن اور سکیورٹی کے معاملات جذبات یا دوستی سے نہیں بلکہ معیشت، ٹیکنالوجی اور فورسز سے حل ہوتے ہیں۔

ہمیں خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ افسوس ہے کہ ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا، ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا، اس سے ہی معاشی استحکام آئے گا۔ سرد جنگ میں امریکا ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا، 90 کی دہائی میں اکیلی سپر پاور تھا اور کوئی اسے چیلنج کرنے والا نہیں تھا۔ اس کی سٹرٹیجی تھی کہ کسی ملک کو اتنا مضبوط نہیں ہونے دینا کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکے، اس کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔

اس صدی میں چین نے امریکا کے سپر پاور ہونے کو چیلنج کر دیا ہے۔ امریکا چین کشیدگی کے اثرات اس خطے پر پڑ رہے ہیں، چین کا دفاعی بجٹ 292 بلین ڈالر جبکہ امریکا کا 800 بلین ڈالر ہے، اگلی دہائی میں چین کا دفاعی بجٹ امریکا سے زیادہ ہوگا۔ امریکا، چین کی معاشی و ٹیکنالوجیکل گروتھ کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے، اس پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، اس کے باجود چین کی معیشت مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

سی پیک منصوبہ ہماری معاشی ترقی کیلئے اہم ہے، پاکستان کو چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ موجودہ حکومت نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، قومی مفاد کے منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ملک کی ترقی اور سکیورٹی کو دوسروں پر نہیں چھوڑنا چاہیے،ہمیں دوسروں پر انحصار کے بجائے خود کو معاشی و ٹیکنالوجی کے میدان میں مضبوط کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر محبوب حسین
( چیئرمین شعبہ تاریخ،جامعہ پنجاب)

جی20 ممالک کے پاس دنیا کی 85 فیصد صنعتی پیداوار ہے لہٰذا یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا کے مالی معاملات اور صنعت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جی 20 سمٹ ابھی ہونا ہے، یہ مختلف اجلاس ہیں جو گجرات اور مغربی بنگال میں ہوچکے ہیں،اب چونکہ مقبوضہ کشمیر میں اجلاس رکھا گیا تھا تو یہ ہائی لائٹ ہوگیا۔

یہ سیاحت کے ورکنگ گروپ کا اجلاس تھا جسے بھارت نے میزبانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کرنے کی کوشش کی مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کا کریڈٹ ہماری وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ کو جاتا ہے جنہوں نے دنیا کو خطوط لکھے اور میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ ہمیں مزید جارحانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مارچ میں بھارت میں جی 20 وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوسکا۔

جی 20 گروپ روس اور امریکا کے تناؤ کی وجہ سے تنازعات کا شکار ہے، بھارت نے بھی اُس اجلاس میں کھل کر امریکا کی حمایت نہیں کی۔ پاکستان کا جھکاؤ چین، وسطی ایشیائی ممالک کی طرف ہے، اب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کو شامل کرنے کے بجائے اپنے مسائل کو علاقائی سطح پر مشترکہ تعاون سے حل کریں۔

دنیا میں علاقائی سطح پر گروپنگ ہو رہی ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے علاقائی ممالک کے ساتھ الائنس کو فروغ دینا ہے۔سعودی عرب ایران کے ساتھ جبکہ چین بھارت کے ساتھ ٹریڈ کر رہا ہے، ہمیں چین و دیگرممالک کے ساتھ تجارت کو تیز کرنا ہوگا۔ امریکا آئی ایم ایف کے ذریعے ہم پر دباؤ بڑھا رہا ہے لیکن یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان اب اس کے متبادل کی طرف جا رہا ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے، بہتر پالیسیاں بنا کر ان کا تسلسل یقینی بنایا جائے اور ملک کو سیاسی، معاشی و دیگر حوالے سے استحکام دیا جائے۔

ہمارے ہاں تعلیم کو نظر انداز کیا گیا ہے، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ لانگ ٹرم تعلیمی پالیسی بنائیں، تجارتی پالیسی بنائی جائے اور ملک کی سمت درست کی جائے۔ ایسا نظام بنانا چاہیے کہ ملکی مفاد کے منصوبوں میں رکاوٹ نہ آئے، اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)

جی 20 بیس بڑی طاقتوں کا گروپ ہے جس میں 19 ممالک اور 20 واں رکن یورپی یونین ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس اس کی صدارت ہے لہٰذا رواں برس جی 20 سمٹ بھارت کی سربراہی میں ہوگا۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور 5 اگست 2019ء کو کشمیر کے حوالے سے اپنے غیر قانونی اقدام پر اپنی امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔

اس نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر، لوگوں کو گھروں میں محصور کرکے وہاں جی 20کی ایک کانفرنس رکھ کر کشمیر کو بھارت کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ کشمیر کا علاقہ اقوام متحدہ کے مطابق متنازعہ ہے لہٰذا جی 20کی کوئی بھی کانفرنس کسی متنازعہ علاقہ میں نہیں رکھی جاسکتی۔

ایک اور ڈویلپمنٹ بھی اہم ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی پوری قیادت چاہے وہ بھارت کے حق میں ہے یا پاکستان کے، سب نے ہی مقبوضہ کشمیر میں جی 20 میٹنگ کے انعقاد کی مخالفت کی۔چین عالمی سیاست میں کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے، اس کے بائیکاٹ اور اثر کی وجہ سے سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور مصر نے بھی بائیکاٹ کیا۔ چین خود کو مسئلہ کشمیر میں فریق سمجھتا ہے، بھارت نے آرٹیکل 370 سے لداخ کی حیثیت کو بھی تبدیل کیا جو چین کو قابل قبول نہیں۔ مسئلہ کشمیر پر ہمارا اور چین کا موقف ایک ہے۔

چین نے سعودی عرب اور ایران کو ایک میز پر بٹھا دیا، ان کے درمیان تعلقات بحال کروا دیے۔ دنیا معاشی مفادات کے تابع ہے، عالمی تعلقات میں جذبات سے زیادہ معاشی معاملات دیکھتے جاتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے آسٹریلیا کا دورہ کیا اور وہاں بڑے تجارتی معاہدے کیے۔

جب میڈیا نے بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھایا تو آسٹریلوی وزیراعظم نے کہا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ترجیحات مختلف ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔

سی پیک منصوبہ انتہائی اہم ہے، اس میں دونوں ممالک کے مفادات ہیں۔ اسے دنیا نے پاکستان کیلئے گیم چینجر قرار دیا۔ 10 برس پہلے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بڑے جوش کے ساتھ یہ منصوبہ شروع کیا، اس میں 9 تجارتی زونز بننے تھے، یہاں بڑی انڈسٹری منتقل ہونی تھی مگر افسوس کہ اس پر کام نہیں ہوا بلکہ تحریک انصاف کی حکومت نے روک دیا۔

بنگلہ دیش میں دو جماعتیں ہی برسر اقتدار آتی ہیں لیکن وہاں منصوبوں کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں بھی قومی مفاد کے منصوبوں پر حکومتوں کی تبدیلی کا اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ ارجنٹینا کی معیشت تباہ ہوگئی، وہ ڈیفالٹ کر گیا مگر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر جی 20 کا رکن بن گیا۔

اس وقت ہم صرف چند ممالک کے جی 20 کانفرنس کے بائیکاٹ پر خوش ہو رہے ہیں، ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط کرکے جی 20 کا رکن بننا ہوگا۔ اس کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے،ا س کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ پاکستان میں امریکا کا اثر و رسوخ بہت ہے، چین یا کوئی اور ملک ہمیں فوری طور پر اس قابل نہیں کر سکتا کہ ہم امریکا کے تسلسل سے باہر نکل سکیں، ہمیں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنی ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔