یتیم ہاتھی بچوں کی شفیق ماں

ریشل ہاتھی کے ان یتیم بچوں کی مکمل نگہ داشت کرتی ہے جو اپنی مائوں سے محروم ہوچکے ہوں


Mirza Zafar Baig April 27, 2014
ریشل مرٹن نے اپنی زندگی ہاتھیوٓں میں بچانے کے لیے وقف کردی ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: ہوسکتا ہے ہمارے قارئین کو یہ بات عجیب لگے کہ ریشل مرٹن نامی ایک دبلی پتلی انگریز عورت ہاتھیوں کی دیوانی ہے۔ وہ ان سے اتنا پیار کرتی ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی زیمبیا میں یتیم ہاتھیوں کی پرورش اور نگہ داشت کے لیے وقف کردی ہے۔

وہ مائوں سے محروم ہونے والے ہاتھی بچوں کی دیکھ بھال اس جذبے سے کرتی ہے جیسے وہ اس کے اپنے بچے ہوں۔ ریشل ہاتھی کے ان یتیم بچوں کی مکمل نگہ داشت کرتی ہے جو اپنی مائوں سے محروم ہوچکے ہوں اور انہیں صحت یاب ہونے تک اپنے پاس ہی رکھتی ہے۔ چیمس فورڈ میں پیدا ہونے والی ریشل مرٹن نے بیالوجی میں گریجویشن کیا جس کے بعد جانوروں سے پیار اسے اس سمت میں لے گیا۔ اس وقت ریشل مرٹن افریقی جنگلات میں خطرناک ریسکیو آپریشنز بھی کرتی ہے اور اس کی نگرانی میں جنوبی افریقہ میں Lilayi Elephant Nursery کام کررہی ہے جو اپنی نوعیت کا ہاتھیوں کا واحد یتیم خانہ ہے۔



ریشل مرٹن گھنے اور وسیع جنگل میں بڑے اعتماد کے ساتھ ان عظیم الجثہ ہاتھیوں کے ساتھ گزارتی ہے جن کے ساتھ رہنے کا تصور عام حالات میں کیا بھی نہیں جاسکتا۔ اس کے ساتھ دن رات چھے بھاری بھرکم ہاتھی رہتے ہیں جن کا مجموعی وزن 500 اسٹون یعنی 3175.15کلوگرام بنتا ہے، مگر دبلی پتلی 33 سالہ ریشل مرٹن ان سب کے ساتھ بڑے پیار اور اعتماد کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے چہرے سے ذرا بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ان بھاری بھرکم جانوروں سے خوف زدہ ہے، وہ ان سے کیوں ڈرے گی؟ وہ ان کے لیے ایک پیار کرنے والی ماں کی طرح ہے اور وہ سب اسے دیکھتے ہی بے قرار ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ پہلے انہیں پیار کرے۔ اپنی ''ماں'' کو دیکھتے ہی وہ سب اپنی اپنی سونڈ اٹھاکر اسے تعظیم دیتے ہیں، پھر اس کے گرد اپنی سونڈیں لپیٹ دیتے ہیں۔

ریشل مرٹن نے یونیورسٹی سے فراغت کے بعد برطانیہ چھوڑ دیا اور اپنی زندگی زیمبیا کے ان یتیم ہاتھیوں کے لیے وقف کردی جن کی مائوں کو پوچر ان کے ہاتھی دانت یا گوشت کے لیے ہلاک کردیتے ہیں۔پوچر ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ہاتھی دانت یا گوشت کے لیے ہاتھیوں کو اور سینگ کے لیے گینڈوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ریشل مرٹن موت کے منہ میں جانے والے ان یتیم ہاتھیوں کے بچوں کی نگہ داشت کرکے انہیں صحت یاب کرکے نئی زندگی دیتی ہے۔ ان ہاتھیوں کی خدمت کے لیے وہ چوبیس گھنٹے تیار رہتی ہے اور صرف ایک فون کال پر ہر طرح کے خطرناک مقامات تک پہنچ جاتی ہے۔ چاہے وہ پہاڑی مقامات ہوں، دلدل والے جنگلات یا گھنی جھاڑیاں، وہ ان میں پھنسے ہوئے ننھے منے ہاتھیوں کو بحفاظت نکال لاتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ان ننھے منے ہاتھیوں کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہے۔



ریشل مرٹن کا کہنا ہے:''مجھے ہمیشہ سے جانوروں سے محبت رہی ہے۔ مجھے ان بے زبانوں سے اس لیے بھی محبت ہے کہ یہ اپنی زبان سے، اپنی باتوں سے اور اپنی گفتگو سے دوسروں کا دل نہیں دُکھاتے۔ میں نے ان کی خاطر خود کو بالکل بدل ڈالا ہے۔ کبھی میں آرام پسند زندگی کی عادی تھی، مگر اب میں نے خود کو جنگل کے ماحول میں ڈھال لیا ہے۔ میں اپنے فیشن ایبل اور اونچی ہیل والے سفید سینڈل اپنے گھر ایسکس میں چھوڑ آئی ہوں۔ ان کے بجائے میرے پیروں میں بھدے لانگ بوٹ ہوتے ہیں جو مجھے اچھے لگتے ہیں، کیوں کہ میں ان میں آرام محسوس کرتی ہوں۔''

واضح رہے کہ ریشل 2008میں زیمبیا آئی تھی۔ اس سے پہلے اس نے دنیا بھر میں جانوروں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ مختلف اداروں اور پراجیکٹس میں کام کیا تھا۔ اس وقت وہ Lilayi Elephant Nursery کی منتظم ہے، یہ جنوبی افریقہ میں اپنی نوعیت کا لاوارث ہاتھیوں کا واحد یتیم خانہ ہے۔ یہ ایک اینٹی پوچنگ آرگنائزیشن ''گیم رینجرز انٹرنیشنل'' کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے جس کا تعلق انٹرنیشنل فنڈ فار اینیمل ویلفیئر سے ہے۔ Lilayi Elephant Nursery نامی ہاتھیوں کا یہ یتیم خانہ زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا کے قریب قائم ہے اور یہ اس ملک میں بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے جہاں ہاتھی دانت کی خریدوفروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس ادارے نے یہاں مذکورہ بالا تجارت کی روک تھام کے لیے کافی کام کیا ہے اور مسلسل کررہا ہے۔



جب بالغ ہتھنیاں اپنے قیمتی دانت کے لیے ہلاک کردی جاتی ہیں تو ان کے دودھ پیتے بچے سب سے پہلے اپنی ماں کے دودھ سے محروم ہوجاتے ہیں، جب کہ اس کی انہیں اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہاتھی کا بچہ دو سے تین سال تک اپنی ماں کا دودھ پیتا ہے۔ ہاتھی کے بچے اس عمر میں خوف زدہ بھی ہوتے ہیں اور کم زور بھی، وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اسی لیے وہ اپنے غول کے ساتھ رہتے ہیں، اگر اکیلے گھومیں پھریں تو شیر انہیں آسانی سے شکار کرسکتے ہیں۔ انسان کی مدد اور معاونت ایسے ننھے منے ہاتھیوں کی بقا اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ اگر ریشل جیسے جانوروں سے محبت کرنے والے انسان ان کی مدد نہ کریں تو یتیم ہوتے ہی یہ مرجائیں۔

ریشل مرٹن نے رائل ہالووے کالج سے تعلیم حاصل کی تھی جو سرے نامی کائونٹی میں Egham کے علاقے میں واقع ہے۔ بلاشبہہ ریشل وہ باہمت خاتون ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی یتیم ہاتھیوں کی مدد کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے۔ ایک بار جھیل وکٹوریا پر دو ننھے منے ہاتھی پہنچ کر کچھ اس طرح پھنس گئے کہ ان کے جھیل میں گرکر مرجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ یہ اطلاع ملتے ہی ریشل صرف ایک مائیکرو لائٹ میں وہاں پہنچی اور اس نے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں بچوں کو بچالیا اور بہ حفاظت اپنے یتیم خانے لے آئی۔



یتیم ہاتھیوں کی یہ پناہ گاہ 2012 میں قائم ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ریشل جنگل میں مشکل اور کٹھن حالات میں رہتی تھی کہ اس کے پاس نہ جدید سہولتیں تھیں اور نہ کسی بھی طرح کی آسانیاں، وہ کئی ماہ تک ہر طرح کی سہولت سے محروم اس جنگل میں رہتی رہی اور ہر طرح کی پریشانیاں برداشت کرتی رہی، مگر اپنے بنیادی مقصد ''یتیم ہاتھیوں کے تحفظ'' پر ڈٹی رہی۔ اسے شروع سے ننھے منے ہاتھیوں سے پیار تھا، مگر ان کی مدد کا جذبہ اس وقت زور پکڑ گیا جب اسے دو سالہ ننھی منی ہتھنی Suni ملی، جس پر کلہاڑی سے اس وقت حملہ کیا گیا تھا جب اس کی ماں کو اس کے دانتوں سے محروم کیا جارہا تھا۔ آج ریشل اور اس کے زیمبیئن ساتھی ان نوجوان ہاتھیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جنہیں خوف ناک قسم کے زخم آئے ہوں۔

بے چاری Suniکی ٹانگ میں زخم آیا تھا اور وہ چلتے میں لنگڑاتی تھی، چناں چہ گیم رینجرز انٹرنیشنل نے اس کے لیے ایک خصوصی دھاتی جوتا بنوایا جس کی مدد سے وہ آسانی سے چل سکتی ہے۔ اس کے علاوہSuni کو مزید پریشانیوں سے بچانے کے لیے اس کا علاج آکیوپنکچر سے کیا جاتا ہے۔Lilayi Elephant Nursery میں اس وقت جو جانور رہ رہے ہیں، ان میں ایک نوجوان ہاتھی Zambezi بھی شامل ہے۔



وہ یہاں تک کیسے پہنچا، اس کی کہانی بھی بڑی دل چسپ ہے۔ سفاری میں رہنے والے ایک ملازم نے ایک روز دیکھا کہ اس کے سوئمنگ پول میں کوئی چھپاک سے کودا ہے، غور کرنے پر پتا چلا کہ وہ ایک ماہ کا بے بی ہاتھی تھا۔ وہ اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا اور پیاسا تھا، جب اس نے سوئمنگ پول سے پانی پینے کی کوشش کی تو اس میں گر گیا۔

یتیم ہاتھیوں کے اس یتیم خانے میں رہنے والے ہاتھی جب بالکل صحت یاب ہوجاتے ہیں تو انہیں زیمبیا کے Kafue National Park میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ پارک خاصے بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں ننھے ہاتھیوں کی حفاظت کا مکمل انتظام ہے۔ اس علاقے میں انہیں پوری حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا ہے، مگر بعد میں انہیں آزادی مل جاتی ہے، لیکن اس آزادی کی کیفیت میں بھی وہ صرف غول کی شکل میں گھوم پھر سکتے ہیں، اکیلے کہیں نہیں جاتے۔



اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہاتھی دانت کی تجارت جاری ہے جس کی وجہ سے ہر سال بے شمار ہاتھی موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں ریشل جیسے جانوروں سے پیار کرنے والے ہی اس شان دار جانور کو تباہی سے بچاسکتے ہیں، ورنہ ہاتھی دانت کی تجارت کا جنون انہیں جلد ہی دنیا سے مٹادے گا۔ ریشل ہاتھیوں کی دوست اور ہمدرد ہے، اسے اس جانور سے بے پناہ پیار ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے۔ کاش! ریشل جیسے کچھ اور لوگ ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے آگے آئیں اور زمین کے اس ''عظیم زیور'' کو مٹنے سے بچالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں