روس پھر اُبھرنے لگا۔۔۔۔

روس نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا ہے کہ اسے کمزور نہ سمجھا جائے۔


Rizwan Tahir Mubeen April 27, 2014
سرد جنگ کے بعد امریکا، روس تعلقات کے نشیب وفراز پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل

چند ماہ قبل یوکرینی صدر وکٹر یانوکووچ نے اپنی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے یورپ کے بہ جائے روس کو ترجیح دی۔ ان کا یہ فیصلہ وہاں ایک ایسے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جس نے یوکرین کو دولخت کر ڈالا۔

یوکرینی صدر کی روس نوازی کے خلاف لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے روس کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے، جس کے نتیجے میں صدر وکٹر یانوکووچ کو استعفا دے کر روس جلا وطن ہونا پڑا۔ دوسری طرف یوکرین کا روسی زبان بولنے والا کریمیا کا علاقہ بدستور سابق صدر وکٹر یانوکووچ اور روس کا ہم نوا تھا، چناں چہ یانوکووچ کے استعفے کے بعد روس نے کریمیا میں اپنی فوجیں داخل کیں اور بنا کوئی گولی چلائے بہ آسانی کریمیا کا کنٹرول سنبھال لیا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کی جانب سے یہ فوجی طاقت کا دوسرا مظاہرہ تھا۔ پہلی فوجی کارروائی 2008ء میں جارجیا میں کی گئی، اگرچہ جارجیا میں اسے بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا پڑا تھا، تاہم یہاں بہت آسانی سے بنا کوئی گولی چلائے اس نے کریمیا کو اپنی تحویل میں لے لیا اور پھر 16 مارچ 2014ء کے ایک ریفرنڈم کے بعد اسے باقاعدہ روس کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ روس کی ان دونوں فوجی کارروائیوں نے ایک بار پھر سرد جنگ کے زمانے کی یاد دلا دی ہے، کیوں کہ دونوں واقعات میں روس نے امریکا اور یورپ کی مخالفت کے باوجود کارروائی کی ہے۔

سوویت یونین بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں عالمی افق پر نمودار ہوا۔ یہ برطانوی نوآبادیات کا زمانہ تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین، برطانیہ اور امریکا کا اتحادی رہا، لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی سرحدیں اور طاقت تیزی سے سمٹیں اور سوویت یونین کی عالمی حیثیت واضح ہو گئی۔ اس کی یہ اہمیت متوازی عالمی طاقت امریکا سے اس کے ٹکرائو کا سبب بنی۔ اس کے بعد طویل عرصے تک دنیا کے اکثر ممالک ان ہی دونوں میں سے کسی نہ کسی طاقت سے نتھی نظر آئے۔



1980ء کی دہائی میں دنیا سے سوویت یونین کا اثر سمٹنا شروع ہوا۔ غلط معاشی اور سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں اس کے حصے بخرے ہوگئے، یعنی امریکا فتح یاب ہوگیا، تو نہ صرف اس کی روس سے تنائو کی کیفیت ختم ہوئی، بلکہ باہمی تعاون کے مختلف سمجھوتے بھی طے پائے۔ سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد امریکا اور روس کے تعلقات نے اتار چڑھائو کے کئی ادوار دیکھے۔ مندرجہ ذیل میں ہم اس نشیب وفراز کا مرحلے وار جائزہ لیتے ہیں۔

روس کے لیے امریکی مدد:سوویت یونین کے انہدام کے فوراً بعد امریکا نے اپنی سابق حریف ریاست کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ معاشی مسائل سے دوچار روس سے باہمی معاہدوں کے علاوہ دیگر بہت سے طریقوں سے بھی امداد کی۔ اس سلسلے میں 26 جنوری 1992ء کو روسی صدر بورس یلسن نے امریکا کا دورہ کیا۔

٭3 جنوری 1993ء کو جارج بش سنیئر اور روسی صدر بورس یلسن نے ''اسٹارٹ دوم'' معاہدے پر دستخط کیے۔ بل کلنٹن نے بھی روس کی امداد کے سلسلے میں بورس یلسن کے ساتھ ایک بیٹھک کی۔ اسی زمانے میں امریکا نے ماسکو کے لیے 1.8 بلین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔

٭3 فروری 1994ء کو پہلا روس امریکا مشترکہ خلائی مشن روانہ کیا گیا۔

٭9 مئی 1995ء کو بل کلنٹن نے ماسکو میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی پچاسویں سال گرہ کے موقع پر ملاقات کی۔ یہ وہی دوسری عالمی جنگ تھی، جس کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سرد جنگ کا آغاز ہوا۔



٭ 20 اپریل 1996ء کو دونوں ممالک کے صدور نے جوہری تحفظ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

٭ 1997ء میں روس نے فرانس میں منعقدہ نیٹو کانفرنس میں شرکت کی، 27 مئی 1997ء کو ''نیٹو رشیا فائونڈنگ ایکٹ'' پر روس اور نیٹو نے دستخط کیے۔

٭22 جون 1997ء کو روس G8 میں شامل ہوا۔

٭ستمبر 1998ء میں بورس یلسن اور بل کلنٹن میزائل تجربات کے حوالے سے معلومات کے تبادلے پر متفق ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی دونوں سربراہان مملکت کی متعدد ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔

کوسوو اور چیچنیا کے تنازعات:سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سابق حریفوں کے مابین پہلا ٹکرائو 1999ء میں کوسوو کی جنگ کے موقع پر سامنے آیا، جب نیٹو نے سربیا کے مقابلے میں کوسوو کی مدد کی اور سربیائی فوجی ٹھکانوں پر بمباری کر کے اسے کوسوو سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ روس نے نیٹو کے اس اقدام کی سخت مذمت کی، مگر عملاً کسی کارروائی سے قاصر رہا۔

اس کے علاوہ چیچنیا کے مسئلے پر بھی امریکا کی جانب سے سابق حریف ریاست سے اختلاف کیا، تاہم کبھی کوئی پریشانی پیدا نہیں کی۔ بیانات کی حد تک دونوں ممالک کے درمیان خاصی کشیدگی ہوئی۔

مسلم اکثریتی علاقہ چیچنیا انیسویں صدی سے روس کے زیر انتظام ہے۔ روس کے علاوہ اس کی سرحدیں آذربائیجان اور جارجیا سے ملتی ہیں۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد چیچنیا نے 1994ء تا 1996ء کی جدوجہد کے بعد کام یابی حاصل کی۔ اس کے بعد یہاں شریعت نافذ کی گئی۔ 1999ء میں چیچنیا کا تنازعہ دوبارہ اس وقت پیدا ہوا، جب چیچن جنگجوؤں نے اپنے پڑوسی جمہوریہ داغستان کو بھی چیچنیا کے ساتھ ملا لیا۔ اس دوران روس نے ماسکو دھماکوں کا ذمہ دار چیچن جاں بازوں کو قرار دیتے ہوئے اگست 1999ء میں چیچنیا پرحملہ کر کے اس پر دوبارہ اپنا تسلط حاصل کر لیا۔



تعاون کی بحالی: سابق حریف ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی جلد ختم ہوگئی اور 2 نومبر 2000ء کو دونوں ممالک نے پہلی بار مشترکہ طور پر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کا کنٹرول سنبھالا۔ پھر امریکا میں پیش آئے 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد روس نے امریکا کی مکمل حمایت کی۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد روس نے نیٹو اور امریکی اہل کاروں اور شہریوں کے لیے کابل میں ایک فوجی اسپتال کھولا۔

یوں محض ایک عشرے کے بعد ایک بار پھر افغانستان میدان جنگ بنا، لیکن ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا روس اور امریکا ایک دوسرے کے حریف نہیں حلیف بنے تھے۔ باہمی تعلقات کا یہ سلسلہ آگے بڑھا اور 28 مئی 2002ء کو ''روس-نیٹو کونسل'' قائم ہوئی۔ 29 اکتوبر 2002ء کو ماسکو میں چیچن جاں بازوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تھیٹر سے قبضہ چھڑانے کے لیے زہریلی گیس استعمال کی گئی، جس میں 40 یرغمال کنندگان اور 130 یرغمالی جان سے گئے۔ بھاری جانی نقصان پر روس شدید تنقید کا نشانہ بنا، مگر برطانیہ اور امریکا نے روسی کارروائی کو جائز قرار دیا۔

2002-03ء میں سرد مہری کے واقعات:2002ء میں امریکا سابق سوویت ریاست سے طے پانے والے اینٹی بلیسٹک میزائل معاہدے سے دست بردار ہو گیا۔ پیوٹن نے اس امریکی اقدام کو ایک غلطی قرار دیا۔ اسی برس روس نے عراق پر امریکی حملے کی سختی سے مخالفت کی اور سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کے خلاف حق استرداد (ویٹو) استعمال کیا۔ ان واقعات کو اگرچہ ہم کشیدگی قرار نہیں دے سکتے، تاہم یہ وہ واقعات تھے جب دونوں ممالک کے درمیان فاصلے نظر آئے۔

جوہری دہشت گردی کے خلاف تعاون:16جولائی 2006ء کو بش اور پیوٹن نے جوہری دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ شمالی کوریا کے مسئلے پر روس اور امریکا کے موقف میں اختلاف رہا، مگر 6 اکتوبر 2006ء کو شمالی کوریا کے پہلے جوہری تجربے پر امریکا کے ساتھ روس نے بھی مذمت کی۔

امریکی دفاعی نظام سے جارجیا کی جنگ تک:روس امریکا کشیدگی کا تیسرا دور 2007-08ء کا ہے، جو امریکا کے یورپ میں میزائل شکن نظام کے اعلان سے جارجیا کی جنگ کے بعد تک جاری رہا۔ یہ دور سرد جنگ کے بعد سب سے زیادہ کشیدگی کا دور تھا، جس میں روس نے سوویت یونین کے بعد پہلی بار خطے میں امریکی مرضی کے خلاف طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ جس طرح 1999ء میں نیٹو فوج نے روس کی مرضی کے خلاف سربیا پر چڑھائی کی اور روس کچھ نہ کر سکا۔ اسی طرح 2008ء میں روس نے جارجیا میں اپنی فوجیں داخل کیں اور امریکی اور یورپی مخالفت کی پروا نہ کی۔ مارچ 2007ء میں امریکا نے پولینڈ میں اینٹی بلیسٹک میزائل نصب کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔



اس کا مقصد امریکا اور یورپ کو ایران اور شمالی کوریا کے جوہری حملے سے تحفظ دینا بتایا گیا۔ روس نے منطقی طور پر اس امریکی اقدام کی مخالفت کی اور اسے خطے میں اپنے مفاد کے خلاف جانا۔ اسی برس پیوٹن نے ایران کا دورہ کیا اور تہران کے جوہری پروگرام کی امداد پر تبادلۂ خیال کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کو ناقابل قبول قرار دیا، جس پر امریکی صدر جارج بش نے واضح طور پر کہا کہ اگر ہم تیسری عالمی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہو گا۔

14فروری 2008ء کو روس نے عندیہ دیا کہ وہ امریکی دفاعی نظام سے کسی بھی کارروائی کا جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسے ہم اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس لیے جوابی اقدام پر مجبور ہوں گے۔تاہم اس امریکی دفاعی نظام سے منسلک ریڈار نصب کرنے کے معاملے پر چیک ریپبلک کی رائے عامہ آڑے آئی۔ رائے شماری میں محض 18 فی صد عوام نے ہی اس کی حمایت کی۔

اگست 2008ء میں روس نے جارجیا پر زمینی اور فضائی حملے کیے، جس کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ تاہم اس کارروائی کے ذریعے ماسکو نے اپنے مفادات حاصل کیے۔ امریکا اور یورپ نے اس کی سخت مذمت کی، امریکا نے جارجیا کی حمایت کے علاوہ اسے امداد بھی دی۔ 25 نومبر 2008ء کو روس نے امریکا کے پہلو میں موجود ملک وینزویلا کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کیں۔ اس واقعے کو واشنگٹن میں سرد جنگ کے زمانے کے روس، کیوبا تعاون کی طرح دیکھا گیا ۔

قربتوں کی بحالی(2009ء تا 2012ء): دو برس کی دوریوں کے بعد یکم اپریل 2009ء کو روس اور امریکا پھر ایک دوسرے کے قریب آئے، جب لندن میں G-20 کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب میدیدو سے ملاقات کی۔ اس کے بعد 6 جولائی 2009ء کو باہمی رابطے اور تعاون بڑھانے کے لیے اوباما میدیدو کمیشن کا اعلان کیا گیا۔ باہمی تعاون کا یہ دور 2012ء تک جاری رہا۔ اس دورمیں باہمی تعاون کے نمایاں واقعات کی تفصیل کچھ یوں رہی:

٭2009ء میں دونوں ممالک کے درمیان ایک فوجی سمجھوتا طے پایا، جس کے بعد روس نے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی رسد کے لیے راستہ دینے کا اعلان کیا۔

٭9 مئی 2010ء کو پہلی بار امریکی سپاہیوں نے ماسکو میں یوم فتح کی پریڈ میں شرکت کی۔

٭9 جون 2010ء کو امریکا، برطانیہ، چین اور فرانس کے ساتھ روس نے بھی ہم آواز ہو کے جوہری پروگرام تک رسائی کا کہا۔

٭2010ء میں دونوں ممالک نے انسداد ہائی جیکنگ کی مشقیں بھی کیں۔

٭31 اکتوبر 2010ء کو افغانستان میں دونوں ممالک کی اسپیشل فورس نے منشیات کے خلاف پہلی مشترکہ کارروائی کی۔

٭2011ء میں روس نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن کا بھی خیر مقدم کیا۔ گذشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک نے نیٹو کے ہم راہ کئی بحری اور فضائی مشقیں بھی کی ہیں۔

٭22 اگست 2012ء میں روس WTO میں شامل ہوا اور امریکا سے تجارت شروع کی۔

حالیہ ٹکرائوکا آغاز:سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کم ہوئے، 1999ء میں کوسوو اور چیچنیا کے معاملات اور 2008ء میں جارجیا کی جنگ نے اس عمل میں تعطل آیا۔ ساتھ ہی امریکا وسطی ایشیا میں اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے کی کوششیں کرتا رہا۔ گاہے بگاہے روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا۔ اسی طرح ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر روس کا نقطۂ نظر امریکا سے مختلف رہا۔ لیبیا میں بحران کے موقع پر صدر قذافی کی فوجی طاقت کو نقصان پہنچانے کے لیے فضائی حملوں کو بھی روس نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔

اس کے بعد 2012ء میں شام میں باغیوں اور حکومت کے درمیان جاری شدید لڑائی میں روس حکومت اور امریکا باغیوں کی حمایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تجزیہ کار روسی حمایت ہی کو شام پر امریکی حملے کے خلاف اب تک کی ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد یوکرین میں مداخلت نے ایک بار پھر روس نے اپنی عالمی اہمیت واضح کردی ہے۔ اس واقعے کے اثرات چاہے کتنے ہی دیر تک عالمی افق پر نمایاں رہیں، تاہم روس نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا ہے کہ اسے کمزور نہ سمجھا جائے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ ایک بار پھر سوویت یونین کے زمانے کی طرح امریکا کا حریف بن جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں