جب میرے خلاف توہینِ عدالت کا کیس چلایا گیا دوسری قسط

کورٹ روم کے باہر صحافیوں اور کیمروں کا ہجوم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ’’آج اُڑیں گے پرزے‘‘ کی خبر ہر طرف پھیل چکی ہے


[email protected]

بہرحال مجھے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے توہینِ عدالت کا نوٹس موصول ہوگیا کہ فلاں تاریخ کو جسٹس راشد عزیز اور جسٹس عبدالقیوم ملک پر مشتمل ڈویژن بنچ کے سامنے پیش ہوجاؤ۔ دونوں ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج تھے، جسٹس راشد عزیز صاحب بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔

عدالتِ عالیہ کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد آس پاس نظر دوڑائی تو مایوسی ہوئی کیونکہ کوئی بھی ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا، کہیں سے کوئی سپورٹ نہ ملی۔ ایک دو قابل وکلاء سے رابطہ کیا مگر کوئی بھی توہینِ عدالت کے ملزم پولیس افسر کے دفاع پر تیار نہ ہوا۔ لہٰذا تاریخ پیشی پر میں بغیر کسی وکیل کے خود ہی ہائیکورٹ پہنچ گیا۔

کورٹ روم کے باہر صحافیوں اور کیمروں کا ہجوم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ''آج اُڑیں گے پرزے'' کی خبر ہر طرف پھیل چکی ہے اور پرزے اُڑنے کا خود نظارہ کرنے اور اسے ملک بھر میں پھیلانے کے خواہشمند کیل کانٹے سے لیس ہوکر آئے ہیں۔ کئی خصوصی ''مہربان'' اور دیگر تماشائی بھی بڑی تعداد میں مجھ سے پہلے پہنچے ہوئے تھے۔

میں کمرۂ عدالت میں داخل ہوا تو کُھسرپُھسر شروع ہوگئی کہ ایس ایس پی کا وکیل کون ہے، کسی نے کہا ساتھ تو کوئی وکیل نہیں آیا، کسی نے کہا وکیل صاحب پہلے ہی عدالت میں بیٹھے ہوںگے۔ کسی نے کہا شاید کسی اور عدالت میں مصروف ہوں اور بعد میں پہنچ جائیں۔

کمرۂ عدالت میں ایک نوجوان وکیل نے میرے لیے کرسی خالی کردی لہٰذا میں وہاں جاکر بیٹھ گیا، جسٹس قیوم ملک نے جب مجھے کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو یہ کہہ کر اٹھادیا کہ توہینِ عدالت کاملزم کرسی پر نہیں بیٹھ سکتا، چنانچہ میں ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ کمرۂ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، کیس کی حساسیت کے پیشِ نظر محترمہ عاصمہ جہانگیر سمیت کئی معروف وکلاء بھی آئے ہوئے تھے۔ دو تین معمولی نوعیت کی ضمانتوں کے بعد توہینِ عدالت کے کیس کی باری آگئی اور میں روسٹرم پر چلا گیا۔

جج صاحبان بڑے غصے اور ناراضگی کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوئے ''مسٹر ایس ایس پی، آپ کا جو بیان اخبار میں چھپا ہے، اس سے آپ توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس جرم پر قید بھی ہوسکتی ہے اور اگر معمولی سی سزا بھی مل جائے تو نوکری ختم ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ نے یہ توہین آمیز بیان کیوں دیا ؟'' میں نے کہا ''سر! مجھے کچھ گزارش کرنے کی اجازت ہے؟'' جج صاحبان نے کہا ''ہاں بولو، کیا کہنا چاہتے ہو۔'' اجازت ملنے پر میں نے بولنا شروع کردیا۔

میں نے اپنا موقف یوں پیش کیا،''عدلیہ کی عزت اور احترام تو میرے خون اور میری رگوں میں ہے، میں اس کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کے ڈیڑھ کروڑ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ جس پولیس کی ذمے داری ہے، میں اس کا سربراہ ہوں اور یہ ذمے داری بطریقِ اَحسن نبھانے کے لیے میرا یہ فرض ہے کہ میں اُن کا حوصلہ بڑھاتا رہوں اور ان کا مورال کسی صورت گرنے نہ دوں ، ہر مہذب معاشرے میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی فرد یا ادارے کی طرف سے ایسی بات نہ کہی جائے یا ایسا عمل نہ کیا جائے جس سے شہریوں کے محافظوں میں بددلی پھیلے یا اُن کے مورال پر اس کا منفی اثر پڑے، کیونکہ اگر پولیس فورس میں بددلی پھیلے گی اور ان کا مورال گِرے گا تو اس کا امن و امان پر فوری اثر پڑے گااور بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوںگے۔ اگر پولیس فورس میں بددلی کا موجب بننے والی کوئی بات کمانڈر کے نوٹس میں آئے تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ازالہ کرے۔ اگر عدالت میں پولیس کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں بات ہوئی تھی تو میں نے اسے عدلیہ ہی کے پاس لے جانے کا عندیہ دیا تھا، میں اس کی شکایت لے کر وزیرِاعلیٰ یا حکومت کے پاس نہیں جارہا تھا بلکہ میں اس کاازالہ چیف جسٹس صاحب سے ہی چاہتا تھا، میں نے یہی کہا تھا کہ ہم محترم چیف جسٹس صاحب کے نوٹس میں لائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ وہ کوئی بہتر حل نکال لیں گے۔''

میں نے اپنی معروضات میں یونیفارم کے تقدس اور احترام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ''کوئی شخص تیس چالیس ہزار روپے کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر یہ یونیفارم ایک نوجوان کو ایسے جذبوں سے سرشار کردیتی ہے کہ وہ دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دے دیتا ہے، اسی لیے مہذب معاشروں میں محافظوں کی یونیفارم کا بے حد احترام کیا جاتا ہے اور اس کی توہین کو انتہائی ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے۔''

میں پندرہ بیس منٹ تک بولتا رہا اور اس دوران عدالت میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ میرا بیان سننے کے بعد جج صاحبان نے چار پانچ دن بعد کی تاریخ دے دی ، کمرۂ عدالت سے باہر نکلے تو محترمہ عاصمہ جہانگیر نے بلند آواز سے کسی دوسرے وکیل کو کیس کی کارروائی کا خلاصہ بتاتے ہوئے کہا، ''ایس ایس پی نے معافی نہیں مانگی'' دوسرے روز انگریزی اخبارات نے بھی یہی سرخی لگائی ـ"Lahore Police Chief did not tender apology" ۔

دوسری تاریخ سے پہلے پھر میرے دوستوں اور بہی خواہوں نے مجھے مشورے دینے شروع کردیے کہ پچھلے سال ڈی آئی جی لاہور کے خلاف بھی توہینِ عدالت کی کارروائی ہوئی تھی، ان سے عدالت ہر روز معافی منگواتی تھی، بہتر ہے معافی مانگیں اور جان چھڑائیں، مگر میں معافی مانگ کر اپنی اور پولیس فورس کی توہین کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا تھا۔

دوسری تاریخ پر میں پھر اسی طرح پریس کے کیمروں میں سے راستہ بناتا اور ان کے سوالوں کو نظر انداز کرتا ہوا کمرۂ عدالت میں داخل ہو گیا، کیس کی باری آئی تو میں روسٹرم پر پہنچ گیا اور پھر ایک بار عدلیہ کی بالادستی اور پولیس یونیفارم کے تقدس کے بارے میں اپنانقطۂ نظر پیش کیا۔

مجھے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے پندرہ منٹ ہوچکے تو جسٹس قیوم ملک نے تلخ لہجے میں کہا ،''آپ ہر دفعہ تقریر سنا کر چلے جاتے ہیں، ہم یہاں آپ کی تقریریں سننے کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے، سیدھی طرح بتائیں معافی مانگنی ہے یا ہم کیس چلائیں۔'' یاد رہے کہ صوبے کا ایڈووکیٹ جنرل عموماً سرکاری ملازمین کی طرف سے پیش ہوتا ہے۔

عدالت میں ان کا موقف پیش کرتا اور سول سرونٹس کا دفاع کرتا ہے، مگر اس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل خواجہ محمد شریف صاحب جو بعد میں ہائیکورٹ کے جج اور پھر چیف جسٹس بھی بنے، مکمل طور پر غیر جانبداربن کر کھڑے رہے کیونکہ وہ elevate ہونے کے خواہشمند تھے، اس لیے عدلیہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔

دونوں جج صاحبان کو بھی غالباً یہی توقّع تھی کہ ایس ایس پی پہلی تاریخ پر ہی غیر مشروط معافی مانگ لے گا مگر جب تیسری تاریخ پر بھی ''مطلوبہ نتائج'' برآمد نہ ہوئے تو جج صاحبان نے قدرے پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''خواجہ صاحب ! آپ ملزم کو صاف صاف بتادیں کہ ایسے کیسوں میں دو طریقے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ ملزم غیر مشروط معافی مانگے اور اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور دوسرا یہ کہ ہم کیس چلائیں گے، جس میں سزا بھی ہوسکتی ہے۔'' اس پر خواجہ شریف صاحب نے قدرے بلند آواز میں مجھے مخاطب کرکے کہا،''چیمہ صاحب بہتر ہے آپ معافی مانگ لیں، پھر ہم معزز جج صاحبان سے گزارش کریں گے کہ وہ رحم دلی کا مظاہرہ فرمائیں اور معاملہ ختم ہوجائے۔''

اس پر میں نے بھی بلند آواز میں کہا ،'' خواجہ صاحب! میں نے فورس کی عزت کی بات کی ہے اب وہ واپس لے کر معافی کیسے مانگ لوں؟ میں سترہ ہزار فورس کا کمانڈر ہوں، کمانڈر سزا قبول کر لیتے ہیںمعافیاں نہیں مانگتے۔'' یہ بات یقیناً جج صاحبان نے بھی سن لی ہوگی، لہٰذا انھوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''مسٹر ایس ایس پی، بہتر ہے کہ آپ کوئی وکیل کریں جو آپ کاکیس مناسب طریقے سے پیش کرے، لگتا ہے آپ کو کیس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔'' میں نے کہا،''سر! مہنگا وکیل کرنا میں affordنہیں کرسکتا، میں نے اپنی گزارشات ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بیان کردی ہیں،یہی میرا موقف ہے۔

اس کے سوا میرا اور کوئی موقف نہیں''۔ عدالت نے مجھے وکیل کرنے کی ہدایت کردی اور ساتھ ہی تین دن کی تاریخ دے دی۔ اب کچھ خیرخواہوں کے علاوہ سینئر پولیس افسروں نے بھی زور دیا کہ عدالت میں دفاع کے لیے کوئی قابل وکیل کرنا ضروری ہے، لہٰذا میں سوچنے لگا کہ وکیل کی فیس کا بندوبست کیسے ہوگا؟ ایک روز میں اسی پریشانی میں تھا کہ آپریٹر نے بزر دی، میں نے فون اُٹھایا تو کہنے لگا سر! ''آئی جی صاحب بات کریں گے۔

آئی جی برکی صاحب نے علیک سلیک کے بعد کہا،'' آپ نے فورس کی عزت کے لیے جو اسٹینڈ لیا ہے، اس سے پورے ادارے کا سر اونچا ہوا ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، فکر نہ کریں، اس کیس کی فیس اور اخراجات محکمہ ادا کرے گا''۔ اس سے مجھے اطمینان ہوگیاکہ چلیں وکیل کی فیس کا مسئلہ تو حل ہوا۔ اب میں نے آخر تک کیس لڑنے اور ہر قسم کے نتائج بھگتنے کا فیصلہ کرلیا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔