خواب جو پورے نہ ہوسکے دوسرا حصہ
قائداعظم کا بھرپور یقین تھا کہ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ تقسیم کے علاوہ مسئلے کا کوئی اور حل نہیں تھا
قائد اعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا '' میں جانتا ہوں کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو ہندوستان کے بٹوارے اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس کے خلاف بہت کچھ کہا جاچکا ہے، لیکن اب اسے قبول کیا جاچکا ہے تو یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمے داری ہے کہ وہ خلوص کے ساتھ اسے قبول کرے اور باوقار انداز میں اس معاہدے کے مطابق روبہ عمل ہو جو اب فیصلہ کن ہے اور جس کی پابندی سب پر لازم ہے، لیکن آپ کو یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، یہاں برپا ہونے والا یہ عظیم انقلاب بے نظیر ہے۔
دونوں برادریوں کے مابین جہاں کہیں ایک برادری اکثریت اور ایک اقلیت ہے، پائے جانے والے جذبات آسانی سے سمجھے جاسکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ کیا جاچکا ہے کیا اس کے برعکس کرنا ممکن بھی تھا؟ تقسیم ہوکر رہنی تھی۔ دونوں اطراف میں، ہندوستان اور پاکستان، لوگوں کے ایسے گروہ موجود ہیں جو شاید اس بات سے اتفاق نہ کریں جو اسے پسند نہ کرتے ہوں، لیکن میرے خیال میں کوئی اور حل موجود نہ تھا اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل کی تاریخ بھی اسی چیزکے حق میں فیصلہ سنائے گی۔
مزید برآں آگے چل کر عملی تجربہ بھی اس بات کو ثابت کردے گا کہ ہندوستان کے آئینی مسئلے کا یہی واحد حل تھا۔ میرے خیال میں تو متحدہ ہندوستان کا کوئی بھی تصورکار گر نہ ہوتا اور اس پر اصرارکا نتیجہ بدترین تباہی کے سوا کچھ اور نہ نکلتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خیال درست ہو، ہوسکتا ہے کہ یہ خیال غلط ہو، ابھی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اسی طرح اس تقسیم کے حوالے سے ہر دو ملکوں میں اقلیتوں کے سوال سے بچ نکلنا ناممکن امر ہے، اب اس سے مفر ممکن نہیں رہا، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اب اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پورے دل و جان سے اس کے عوام، خصوصاً ناداروں کی فلاح و بہبود کے کام میں جت جانا ہوگا۔
اگر آپ نے ماضی اور پچھلی عداوتوں کو بھلا کر باہمی تعاون کے جذبے کے ساتھ کام کیا تو کامیابی آپ کا مقدر ٹھہرے گی۔ اگر آپ ماضی کی روش سے چھٹکارا پاکر اس جذبے کے ساتھ کام کریں کہ ہر فرد چاہے اس کا تعلق کسی بھی برادری سے ہو، ماضی میں اس کا آپ سے کیسا بھی تعلق رہا ہو، اس کے رنگ، نسل اور ذات سے قطع نظر، وہ اول، اوسط اور آخر، مساوی مراعات، حقوق اور فرائض رکھنے والا، اس مملکت کا شہری ہے، اگر آپ اس جذبے سے کام لیں گے تو آپ کی ترقی کی کوئی حد نہ ہوگی۔ میں اس بات پر جتنا زیادہ زور دوں وہ کم ہوگا۔
ہمیں اسی جذبے کے ساتھ کام کا آغاز کرنا چاہیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثریتی و اقلیتی برادری، ہندو برادری اور مسلمان برادری، کیونکہ خود مسلمانوں کے بیچ آپ کو پٹھان، پنجابی، شیعہ، سنی جیسی تفریق دکھائی دیتی ہے، ہندوؤں کے مابین آ پ کو برہمن، ویش، کھتری کے ساتھ ساتھ بنگالی، مدراسی وغیرہ جیسی تفریق نظر آتی ہے، کے تفرقات دم توڑ جائیں گے۔
قائداعظم کا بھرپور یقین تھا کہ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ تقسیم کے علاوہ مسئلے کا کوئی اور حل نہیں تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ایک وفاقی جمہوری پاکستان یہ ثابت کر دے گا کہ ہندوستان سے الگ ہونے کا فیصلہ درست تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بطور ایک وفاقی ملک کے متحد کیوں نہ رہ سکے اور 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیوں بن گیا؟ تقسیم کے مخالف دانشور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
تاہم اگر پاکستان کا آئین آزادی کے فوراً بعد بن گیا ہوتا اور پاکستان ایک وفاقی جمہوری ملک میں تبدیل کردیا گیا ہوتا تو کیا مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر ایک آزاد اور خود مختار کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتا؟ میرا خیال ہے کہ جمہوریت ہوتی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری تسلیم کی جاتی تو ملک کی اکثریتی آبادی کبھی الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔
آج کی صورتحال پر نظر ڈالیں۔ کیا پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تسلیم کیا جا رہا ہے؟ کیا وفاقی اکائیوں کا اعتماد پوری طرح بحال ہے؟ کیا واقعی پاکستان ایک مثالی جمہوری ملک بن گیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ان اہم ترین معاملات پر بھی ہم بانی پاکستان کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔ اب ہم آتے ہیں اس تقریر کے آخری اور اہم حصے پر جس میں قائداعظم نے کہا تھا۔
درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو ہندوستان کے لیے آزادی و خود مختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی شئے تھی، اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے ہی آزادی حاصل کرچکے ہوتے۔ کوئی طاقت کسی دوسرے ملک کو غلام نہیں رکھ سکتی اور خاص طور پر چالیس کروڑ آبادی کے ملک کو غلام نہیں رکھا جاسکتا۔
اگر یہ تفرقے موجود نہ ہوں تو کوئی آپ کو مفتوح نہیں بناسکتا اور اگر ایسا ہوجائے تو کسی کے لیے بھی اپنا اقتدار طویل عرصہ تک برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ لہٰذا ہمیں اس سے لازماً سبق سیکھنا چاہیے۔ آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، اس بات کا امور مملکت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ انگلستان میں کچھ عرصہ پہلے تک صورتحال ہندوستان سے بھی کہیں زیادہ دگرگوں تھی۔
رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ ایک دوسرے کے گلے کاٹتے تھے۔ حتیٰ کہ آج بھی کچھ ریاستیں ایسی موجود ہیں جہاں امتیاز برتا جاتا ہے اور ایک خاص طبقے کے خلاف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے، ہمیں ان دنوں میں آغاز نہیں کرنا پڑ رہا۔ ہم ان دنوں میں آغازکر رہے ہیں جہاں کسی ایک نسل یا برادری اور دوسری کے مابین کوئی تفاوت و امتیاز باقی نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی شہری ہیں۔
انگلستان کے لوگوں نے طویل عرصہ تک درپیش حقائق کا سامنا اور اپنی حکومت کی طرف سے لادا جانے والا بوجھ اٹھایا، انھوں نے قدم قدم انگاروں پر چل کر یہ منزل پائی۔ آج آپ عدل سے کام لیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ رومن کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ موجود ہی نہیں ہیں، جو موجود ہے وہ کوئی اور نہیں صرف ایک شہری ہے۔
برطانیہ عظمیٰ کا مساوی شہری اور وہ سب ایک قوم کے افراد ہیں۔ اب ہمیں اسی شئے کو اپنے لیے نمونہ بنانا ہوگا اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ تو ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں بحیثیت ایک مملکت کے شہری کے۔
(جاری ہے)