ماہرین نجوم نے کہا تھا
ہمیں پکاپکا یقین ہے کہ ہوگا کچھ بھی نہیں، صرف اخباروں اورچینلوں میں خبریں چلتی رہیں گے
جوہوا ہے جو ہورہاہے اور جو ہونے والا ہے، اس کے بارے میں تو ہم کچھ زیادہ نہیں بتا پائیں گے کیوں کہ ''بتانے والے'' بتارہے ہیں بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بتارہے ہیں۔
اب اس نقارخانے میں ہم طوطے کو کیا طوطیائیں گے لیکن جو بات ہم بتا سکتے ہیں، وہ ضروربتائیں گے کہ اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جارہاہے، سوائے ایک شخص کے اور وہ شخص ہمارا وہی ہمدم دیرینہ ہے جس سے ہماری ملاقات آئینے میں ہوا کرتی ہے۔اس سے ہم نے موجودہ اورکچھ تھوڑا ساگزشتہ معاملات کے بارے میں پوچھا تو بولا، ''یہ سب چھوڑو کہ اس طرح تو ہوتا ہے۔
اس طرح کے لوگوں میں ، ملکوں میں اور معاملوں میں۔ ذرا اس بات پر دھیان دو کہ پی ٹی آئی کے بہت سارے چھوٹے بڑے تاروں، ستاروں نے اور سیاروں نے ثابت کردیاہے کہ وہ نہ صرف صادق وامین ہیں بلکہ ساتھ ہی روشن ضمیر بھی ہیں، پیش گو بھی ہیں اورماہرین نجوم، عامل کامل بھی ہیں کیوں کہ جو اب ہوا ہے، اس کے بارے میں وہ بہت پہلے سے بتارہے ہیں، بڑے بڑے منہ تو ایک طرف چھوٹے چھوٹے معاون خصوصی، ترجمان خصوصی اورصاحبان خصوصی بھی مسلسل اس کی خبریں دیتے رہے ہیں ۔
''کال دی جائے گی تو کسی کا ککھ نہیں رہے گا، چاروں اطراف سے عوام کا سمندر امڈ کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے گا ۔ایک کال کی دیر ہے، سونامی تیار ہے، فلاں فلاں کی ایسی کی تیسی کردی جائے گی، امپورٹڈ حکومت کو ایکسپورٹ کردیاجائے گا۔
بڑے بڑے بت توڑ دیے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے، سب تاج اچھالے جائیں گے،اٹھے گا اناالحق کا نعرہ،جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں۔ جب راج کرے گی خلق خدا۔ سڑکوں پر بلڈنگوں پر اور چپے چپے پر۔
جب اہل حکم کے سر اوپر یہ بجلی کڑ کڑ کھڑکے گی
جب محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑ کے گی
جب غلامی سے حقیقی آزادی حاصل کی جائے گی۔ ان دنوں جب بیانات میں حقیقی آزادی کے الفاظ آنے لگے تھے تو ہماری سمجھ میں نہیں آئے تھے بلکہ ہم نے یہ سوال اٹھایا بھی تھا کہ یہ جو ہم چودہ اگست اورآزادی آزادی کر رہے ہیں بلکہ پچھتر سال سے کررہے ہیں، یہ کیاہے ؟ اور یہ جو ابھی ملنے والی حقیقی آزادی ہوگی۔
یہ کیاہوگی؟کیسے حاصل ہوگی؟ لیکن کسی بھی دانا دانشور نے نوٹس نہیں لیا اور معاونین خصوصی برائے اطلاعات بولتے رہے، خبردار کرتے رہے، سونامی ،کال ، حقیقی آزادی؟ اس لیے اب جو بولا گیا تھا وہ ہوگیاہے تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے ،اب بھگتئے، حقیقی آزادی۔
ریڈیو پاکستان پشاور سے ہمارا جنم جنماتر کا ناطہ ہے، اس ''حقیقی آزادی'' کے سلسلے میں اس پر جو گزری یا یوں کہئے کہ ''تحریک حقیقی آزادی '' نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا، اس سے دکھی ہونا فطری تھا، اس لیے دیکھنے چلے گئے لیکن قدم قدم پر حیران ہوتے رہے۔
چاغی کی پہاڑی کا جو ماڈل یہاں بنایاگیا تھا، کیا سب سے بڑا غلامی کا نشان یہی تھا جسے ملیامیٹ کیاگیا؟ کیاحقیقی آزادی خود اپنے آپ کو برباد کرنے کانام ہے لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات وہ گاڑیوں کی خالی باڈیاں تھیں، جن کے انجن ''حقیقی آزادی'' والے لے گئے تھے اور یہ ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آیا کہ ان انجنوں کا کیا قصور تھا اورحقیقی آزادی میں یہ بچارے کہاں کی رکاوٹ تھے۔
خیر وہ تو حقیقی آزادی والے جانیں، ہمیں صرف یہی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے ماہرین نجوم پہلے بتا چکے تھے، اس لیے اب تحقیق کیا ؟ اور تفتیش کیا ؟ سب کچھ سامنے ہی ہے، حقیقی آزادی بھی، ماہرین نجوم بھی اور پیش گوئیاں بھی، اگر دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتا تو کوئی کیاکرسکتا ہے؟ کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی۔
پہلے تو ہمیں پکاپکا یقین ہے کہ ہوگا کچھ بھی نہیں، صرف اخباروں اورچینلوں میں خبریں چلتی رہیں گے، پھر کسی نئی خبر آنے سے یہخبر پرانی ہوجائے گی، لیکن اگر کوئی کچھ کرنا چاہتاہے تو ان کے لیے ہمارا ایک چھوٹا سا مشورہ ہے، یہ جو کچھ یاجتنا کچھ نقصان ہوا ہے۔
یہ ان ''بدبختوں'' کی خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہوا تھا جن کا سارے افسانے میں ذکر تک نہیں ہے اور اب بھرپائی بھی ان کی جیب سے ہوگی اور ''ذمے دار'' بڑے ہنرمندی سے پاک وصاف ہوجائیں گے کیوں کہ ہمارے ہاں کی واشنگ فیکٹریاں ،کوے کو بھی بطخ بناسکتی ہیں۔ اس لیے اگریہاں ہمورابی کا قانون تھوڑا بہت بھی چلایاجائے تو یہ شرپسندی اور شرپسندوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا یعنی نہ قید نہ جرمانہ نہ کچھ اور، بس جو نقصان ہوا ہے، وہ ذمے داروں سے نقدا نقد وصول کیاجائے ۔