نورانی ہالہ اور کیرلین فوٹو گرافی
ارتکاز توجہ کی مشقوں کے اثرات نفس ہی نہیں جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں،
گزشتہ ایک کالم میں ہم نے کیرلین فوٹو گرافی کا تذکرہ کیا تھا، چند قارئین نے اس سلسلے میں مزید روشنی ڈالنے کا کہا ہے۔ Kirlian Photography روسی سائنسدانوں کی ایجاد ہے، اس فوٹو گرافی کے ذریعے وہ روشنی، جو جاندار اجسام سے خارج ہوتی ہے، کی عکاسی ممکن ہوگئی ہے۔
کیرلین فوٹو گرافی پر کچھ ڈاکومنٹریز ڈسکوری چینل پر بھی نشر کی جاچکی ہیں جس میں جاندار اور بے جان اشیا سے خارج ہونے والی روشنی کی وضاحت کی گئی ہے اور انسانوں کے گرد جو نورانی ہالہ (aura) ہے اس کی بھی ویڈیوز پیش کی گئی ہیں۔ ہمارے جسم سے نادیدہ شعاعیں خارج ہوتی ہیں اور یہ شعاعیں حیات سے لبریز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں چوٹ لگتی ہے تو ہم اپنے جسم کو سہلانے لگتے ہیں تاکہ ہاتھ سے بہنے والی قوت حیات چوٹ سے پیدا ہونے والے درد کی تلافی کردے۔
مسمریزم میں ہاتھوں کے پاس کے ذریعے مریض پر تنویمی نیند طاری کی جاتی ہے اور اس کے امراض کو سلب کرلیا جاتا ہے۔ یہ بھی ہاتھ کی شفا بخش قوت کا ایک طریقہ استعمال ہے۔ ہاتھ کے پاسز کے ذریعے مریضوں کا علاج کرنے والے یوگی اور وید ان ہی حیات بخش شعاعوں سے مدد لے رہے ہوتے ہیں۔ انسانی ہالہ نور کی رنگین تصاویر میں ہر رنگ ایک الگ ذہنی اور جذباتی کیفیت سے تعلق رکھتا ہے۔ غصے کی حالت میں ہالہ نور کا رنگ اور ہوتا ہے، شدت مسرت میں کچھ اور۔ یہ تذکرہ بھی ہم پہلے کرچکے ہیں کہ پالی گرافی (آلہ) کے ذریعے ہم پودوں تک کے احساسات و تاثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سوچیے تو، یہ دنیا کتنی پروانۂ عجائب ہے اور اس کے امکانات کتنے بعید از قیاس ہیں۔ حیرت اندر حیرت است اے یار من!
اسی طرح ہم لاشعور کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ سگمنڈ فرائیڈ لاشعور کو جبلی خواہشوں کا مرکز قرار دیتا ہے۔ اس نے لبیڈواڈ اور نہ جانے کن کن اصطلاحات کے ذریعے لاشعور کی وضاحت کی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ لاشعور کی اصطلاح سگمنڈ فرائیڈ کی اختراع کردہ ہے اور یہ تصور اسی کی ذہنی پیداوار ہے، حالانکہ لاشعور کی اصطلاح سب سے پہلے Adward Von Hoff Man نے متعارف کرائی۔ اس کی قابل قدر کتاب فلسفہ لاشعور (1859) سگمنڈ فرائیڈ کی زندگی میں 11 مرتبہ طبع ہوئی اور ظاہر ہے فرائیڈ اسی کتاب کے ذریعے لاشعور کی کرشمہ آرائیوں سے آگاہ ہوا۔ لاشعور کے امکانات کی ہنوز حد بندی نہیں ہوسکی۔ اکثر روحی معمول جو آوازیں سنتے ہیں وہ لاشعور کے نامعلوم براعظم سے بلند ہوتی ہیں۔ جس طرح لاشعور کو جبلی قوتوں (جنس وغیرہ) کا مخزن کہا جاتا ہے اسی طرح وہ روحیت (سائیکک ازم) کا بھی مرکز ہے۔
ارتکاز توجہ کی مشقوں کے اثرات نفس ہی نہیں جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں، پہلے مشرق اپنی روحی استعداد اور ان مشقوں کی بدولت مغرب میں نیک نام یا بدنام تھا، لیکن اب صدیوں کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کے بعد یورپ کے علما نفسیات بھی ان مشقوں کی افادیت کے قائل ہوگئے ہیں۔ ماورائی مراقبہ بھی ارتکاز توجہ ہی کی ایک اعلیٰ اور نفیس شکل ہے۔ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک انسانی جسم کی ضروریات اور اس کی بدنی بھوک مٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں البتہ ان کی روحانی تشنگی اور ذہنی بھوک ہولناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ یورپ کی نئی نسل کی بے چینی، اضطراب اور آشفتہ خیالی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔ نئی نسل (ہیپی) اس روحانی بے چینی کا علاج بھنگ، چرس اور افیونی مرکبات (ہیروئن) سے کرنا چاہتی ہے لیکن نشے اور نغمے سے کسی کو آج تک روحانی سکون ملا ہے جو انھیں ملے گا۔
یہاں تو ساز کے پردے میں بھی کہرام ہے ساقی۔ سکون قلب تسکین روح اور رفع اضطراب کے ان عارضی سہاروں سے اکتا کر اب یورپ کے اہل دانش کی توجہ مشرق کے دھیان گیان اور مراقبہ کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ امریکا جیسے کمپیوٹر زدہ ملک میں مراقبے کے ذریعے روحانی تسکین حاصل کرنے کا رجحان اس حد تک فروغ پاچکا ہے کہ اب اس نے ماہرین طب و صحت کی توجہ جذب کرلی ہے۔ یہ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ مراقبے کے ذریعے ہر انسان میں اہم اور بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں اور نفس انسانی میں (ارتکاز توجہ کے ذریعے) حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ مغرب کے طبی تحقیقاتی اداروں میں ان جسمانی (اور دماغی) تغیرات کا مطالعہ کیا جارہا ہے جو مراقبہ کی بدولت انسان میں پیدا ہوجاتے ہیں۔
برطانوی رسالے ''میڈیکل جرنل'' میں اس موضوع پر ایک دلچسپ اور معلومات افزا مضمون شایع کیا گیا تھا۔ مضمون نگار کا بیان ہے کہ بھارت کے طبی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مراقبے کے دوران جسم میں آکسیجن جذب ہونے کا عمل بہت گھٹ جاتا ہے، اسی طرح قلب کی حرکت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ یوگا کے مراقبہ میں سانس روکنے کی بھی ہدایت کی جاتی ہے۔ حبس دم (سانس روک لینا) کا یہ طریقہ ہزاروں سال سے مروج ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آکسیجن اور حرکت قلب کی یہ کمی محض مراقبہ کی وجہ سے واقع نہیں ہوتی بلکہ سانس روکنے کی ارادی کوشش کی جاتی ہے۔ امریکا کے بیشتر کالجوں میں امریکی نوجوان حبس دم کی مشقیں کرکے مراقبہ میں ارتکاز توجہ کا عمل سیکھ رہے ہیں۔
اس قسم کے مراقبہ میں کسی اعلیٰ ذات یا ہستی مطلق کا تصور باندھ لیا جاتا ہے، پھر مخصوص الفاظ کی تکرار کی جاتی ہے (اسے تصوف میں ذکر خفی یا ذکر جلی کہتے ہیں)۔ گہری اور محتاط چھان بین سے پتہ چلا ہے کہ اس عمل سے دوران خون میں آکسیجن کا انجذاب سترہ فیصد کم ہوگیا اور اس طرح نفس انسانی غصے، کینے، نفرت اور فکر و تردد کے شدید جذبات پر غالب آنے کے لیے قوی ہوگیا۔ مراقبے سے منفی جذبات کی شدت اور ہیجان میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔ مراقبے کرنے والوں کا بیان ہے کہ سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقوں سے سفلی جذبات کی آگ سرد پڑ جاتی ہے اور دل و دماغ کو عجب قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے۔ ان کی رائے میں محض حبس دم (یعنی سانس روک لینا) ہی کافی ہے، کسی لفظ کی تکرار کی ضرورت نہیں۔
ماہرین نفسیات کا بیان ہے کہ حبس دم سے حرارت ہتھیلیوں میں زیادہ مرتکز ہوجاتی ہے اور اس حرارت کو کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی پرسکون فرحت انگیز لفظ یا فقرے کی تکرار کی جائے کیونکہ اس طرح تکرار کے سبب پسینہ آجاتا ہے اور پسینہ حرارت کو کم کرنے کا قدرتی وسیلہ ہے۔ ارتکاز توجہ کی مدت میں اضافے کے ساتھ سفلی اور ادنیٰ جذبات کی رو بھی کم ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ انسان خود کو منفی اور ضرر رساں جذبات کی گرفت سے آزاد محسوس کرنے لگتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارتکاز توجہ اور مراقبہ کے دوران انسانی ذہن بیرونی تحریکوں اور ہیجانات کو قبول نہیں کرتا۔ اہل تحقیق کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نشہ آور اشیا سے عارضی سکون حاصل کرنے کے بجائے ہزار درجہ بہتر ہے کہ مراقبہ اور توجہ کی یکسوئی کے ذریعے سچا اور حقیقی سکون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayantamseel)