میں کون ہوں
ہر باخبر پاکستانی سمجھتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی جائز ضروریات اور مطالبات کو نظر انداز کیا گیا ہے
کیا میں عرض پاک میں ہجرت کر کے آنے کے بعد ایک پاکستانی کہلانا پسند کروں گا یا ملک کے ایک مخصوص حصے کا باسی ہونے کی وجہ سے پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون یا مہاجر، ملک میں 1947ء کے بعد آباد ہونے یا اس سے قبل صدیوں سے یہاں بسنے کی وجہ سے اب مجھے کسی الگ قومیت کی پہچان رکھنے کی بجائے میرا تشخص ایک ہی رہے تو مجھے تمام دنیا میں جو عزت و وقار ملے گا وہ مجھے بہرحال کسی صوبے یا خاص علاقے کی سکونت کی وجہ سے یا مسلمان اکثریت کے ملک کی بجائے کسی ایک فرقے کی شناخت کی بناء پر بھی یقینا نہیں ملے گا۔ یہ ابتدائیہ لکھتے ہوئے مجھے جو تحریر کرنا ہے وہ ایک دکھی دل کی آواز ہے۔
پاکستانی سیاستدان، ڈاکٹر، وکیل اور بزنس مین عموماً کبھی ریٹائر نہیں ہوتے لیکن گزشتہ ہفتے مجھے ڈاکٹر مبین، احسان الحق خان اور ظہیر الحسن سے لاہور میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ تینوں عرصہ ساٹھ باسٹھ سال سے کوئٹہ میں رہ رہے تھے۔ ان کے بزرگ برصغیر ہند کے مختلف علاقوں کے مکین تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سکونت کے لیے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے وہ کوئٹہ جا پہنچے اور وہیں رہائش اختیار کر لی۔ ان کی اولادوں نے وہیں پرورش پائی، تعلیم حاصل کی، شادیاں کیں اور مختلف پیشوں سے وابستہ ہو کر زندگی کے دھارے میں شامل ہو گئے۔ ان کے پاس بلوچستان کے ڈومیسائل تھے۔
یہ لوگ ہنسی خوشی مطمئن اور پر امن زندگی گزارتے ہوئے سارے ملک میں گھومتے اور پھر کوئٹہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ کوئٹہ میں بلوچ پٹھان اور پنجابی قیام پاکستان کے بعد سے بھائی چارے کے ماحول میں باہمی احترام و محبت سے زندگی گزار رہے تھے لیکن ایک ہفتے کے دوران ان تین اصحاب سے مختلف محفلوں میں ملاقات پر جب مجھے معلوم ہوا کہ گزشتہ ایک سال کے اندر وہ اپنے پورے پورے خاندانوں سمیت اپنے مکان اونے پونے داموں فروخت کر کے اور اپنے دفتروں کو تالے لگا کر نقل مکانی کر آئے ہیں تو تفصیل جان کر یہ خبر بجلی کی طرح مجھ پر گری۔ ساٹھ سال میں یہ ان کی دوسری ہجرت تھی۔ اب ان لوگوں نے از سر نو اپنی زندگی کا سفر شروع کرنا تھا۔ رہائش، روزگار، اسکول، کالج، نئے تعلقات، یکسر بدلا ہوا ماحول، مختلف خدشات، بیگانے لوگ اور ہجرت ثانی کا دکھ۔
ڈاکٹر مبین کا بیٹا تاوان کے لیے اغوا ہو گیا لیکن اغوا کار پکڑے گئے طویل مقدمہ بازی کے بعد ملزموں کو سزا ہوئی تو دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر نے چلتا کلینک بند کیا اور پنجاب کا رخ کیا کہ جان ہے تو جہان ہے۔ ڈاکٹر نہ بلوچ ہے نہ پٹھان لیکن پاکستانی ہے اور کوئٹہ کو پاکستان کا شہر جان کر وہاں آباد ہوا تھا۔
گزشتہ سال کوئٹہ ہائیکورٹ بار کے ایک سینئر وکیل کو بھی آباد کار پنجابی ہونے کی بنا پر اغوا کر لیا گیا۔ اس کا مقصد بھی تاوان کے مطالبے کے علاوہ غیر بلوچوں کو ہراساں کرنا تھا تاکہ وہ صوبے سے نکل جائیں۔ یہ وکیل عدلیہ کی اعلیٰ شخصیت اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کی کوششوں سے رہائی پانے میں کامیاب تو ہوا لیکن تاوان بھی ادا کر کے اور کوئٹہ چھوڑنے کی شرط پر۔ میرا دو بار کوئٹہ جانا ہوا ہے پہلی بار تبدیلی آب و ہوا، سیر و سیاحت اور دوست احباب سے ملنے کی خاطر، دوسری بار سرکاری ملازمت کے دوران بطور NIPA PARTICIPANT کورس کے سلسلے میں۔
دونوں بار کوئٹہ اور زیارت کے لوگوں کو ملنسار، مہمان نواز اور خوش خلق پایا اور اچھی یادوں کے ساتھ واپسی ہوئی۔ سینئر ایڈووکیٹ احسان الحق سے پروفیشنل اور سوشل دونوں طرح کا تعلق ہے۔ انھوں نے ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تینوں جگہ نام عزت اور روزی کمانے میں وکالت کے پیشے کا نام اور مقام بلند رکھا۔ ان کا صاحبزادہ بھی اب سپریم کورٹ کا وکیل ہے۔ وہ تو قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ میں اسکول کے طالب علم تھے جب وہاں گئے لیکن اب بھی سینئر ایڈووکیٹ کوئٹہ ہونے کے باوجود آباد کاروں کی کیٹگری میں اور خطرات کی زد میں تھے۔ وہ بھی اپنی عمر بھر کی کمائی اونے پونے بیچ کر ساٹھ سالہ تعلقات کی گٹھڑیاں چھوڑ کر سیکڑوں دوستیوں کو خدا حافظ کہہ کر اور سب سے زیادہ اپنی بھر پور قانونی پریکٹس کا چیمبر خالی کر کے پنجاب آ گئے ہیں جہاں مسلکی تعصب اگرچہ موجود ہے لیکن سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان اور اہل زبان والا تعصب نہ ہونے کے برابر ہے اور یاد رہے کہ مسلکی تعصب بھی وہیں زیادہ ہو گا جہاں حکومت وقت کو سوٹ کرتا ہے۔
بلوچستان کا وسیع و عریض صوبہ جس میں بلوچ اکثریت کے بعد پٹھان بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں تعداد کے لحاظ سے اکثریت میں اور مالی لحاظ سے بھی زیادہ مستحکم ہیں اب ایک شورش زدہ علاقہ ہے بلوچ اکثریت میں ہونے کے باوجود مقامی اور آباد کار پٹھان قوم کو بطور قوت قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ پنجابیوں کو شاید پنجابی فوج سمجھ بیٹھے ہیں۔ شاید اسی لیے ان کا نشانہ بطور خاص پنجابی آبادکار ہیں کہ وہ انھیں اپنی محرومیوں کا ذمے دار گردانتے ہیں۔ اب ان کا ٹارگٹ خوشحال ہندو آباد کار بھی بن رہے ہیں۔ بلوچستان صوبائی اسمبلی کے 65 ممبروں کی اکثریت وزیروں مشیروں پر مشتمل ہونے کے باوجود صوبے سے بیدخل کیے جانے والے ان سیکڑوں آبادکاروں کے مطابق بلوچستان میں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز موجود نہیں جب کہ آبادکار اور اقلیتی فرقے غیر محفوظ ہیں۔ صوبائی حکومت کو غیر بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ پر خاص تشویش بھی معلوم نہیں ہوتی۔
بلوچستان کی متعدد تنظیمیں جو مرکزی حکومت کے مطابق باغی افراد پر مشتمل ہیں۔ ان کے بارے میں الزام ہے کہ وہ غیر ملکی امداد اور شہ پر اوپریٹ کر رہی ہیں جو بدامنی اور قومی تنصیبات پر حملوں کی ذمے دار ہیں۔ حکومت کا خیال ہے یہ خود ہی دم توڑ جائیں گی۔ یہ قطعی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی فوجی ایجنسیاں بلوچستان میں سرگرم ہیں اور ان پر اعتراض بھی ہے لیکن ملک کے غیر جانبدار ذرائع اور دانشور سمجھتے ہیں کہ باغی گردانے جانے والے گروپوں کی بات سن کر سنجیدہ ڈائیلاگ کی طرف اقدام ہی سے بلوچستان کے مسئلے کو ایڈریس کیا جا سکتا ہے۔ ہر باخبر پاکستانی سمجھتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی جائز ضروریات اور مطالبات کو نظر انداز کیا گیا ہے ان کو قومی دھارے میں لانے کی اشد اور فوری ضرورت ہے ان گروپوں کو کئی بیرونی طاقتیں پاکستان کو DESTABILIZE کرنے کے لیے انٹیلی جنس اسلحہ اور پیسہ دینے کے علاوہ آزاد بلوچستان کا آئیڈیا بھی فروخت کر رہی ہیں۔
اگر نواب اکبر بگٹی کو مشرف نے قتل نہیں کروایا تو اسی کا کوئی ماتحت نواب صاحب کے قتل کی سازش میں استعمال ضرور ہوا ہے تا کہ علیحدگی کی تحریک میں تیزی لائی جا سکے۔ اگر حکومت وقت کو بارود کی بُو نہیں آ رہی تو اسے یہ تو نظر آ رہا ہو گا کہ وہ پاکستانی جو پچاس ساٹھ سال قبل ہندوستان سے ہجرت کر کے سندھ، خیبرپختوا، پنجاب اور بلوچستان میں آباد ہوئے ان میں سے بڑی تعداد میں لوگ بلوچستان ہی سے کیوں نقل مکانی کر کے دوسری بار ہجرت کرنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔ دلوں کو جبر اور بندوق کی گولی سے نہیں ڈائیلاگ مروت اور محبت سے جیتا جاتا ہے۔ میں اپنے اس کالم کو بھی حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے گزشتہ کالم ہی کا عنوان دینا چاہتا تھا۔ ''کہیں دیر نہ ہو جائے'' لیکن اگر حکومت میں کوئی سخن فہم موجود ہے تو وہ منیرؔ نیازی کی مشہور نظم بھی پڑھ لے جس کی تھیم ہے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں