یہ جنگ نہیں آساں
یہ وہ طبقہ ہے جو صرف آم کھاتا ہے اور گٹھلیاں ڈسٹ بن میں پھینک دیتا ہے
میرا ایک دوست ذرا کھوجی دماغ کا مالک ہے' محلے میں کوئی واقعہ ہو جائے یاملک کی سیاست' وہ ہر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں اس کے اس اسٹائل سے بعض اوقات اکتا جاتا ہوں لیکن کر کچھ نہیں سکتا کیونکہ وہ میرا اسکول فیلو ہے۔
سیاست کا تو اسے جیسے بخار چڑھا ہوا ہے۔ اس کے پاس ہر قسم کی سیاسی معلومات ہوتی ہیں' اسے یہ بھی پتہ ہے کہ سیاست میں آج کل کیا صف بندی ہو رہی ہے' نواز شریف کی نا اہلی کب ختم ہونی ہے اور انھوں نے کس دن پاکستان واپس آنا ہے' اسٹیبلشمنٹ پر بھی اس کی گہری نظر ہے' اسٹیبلشمنٹ کو خود بھی نہیں پتہ ہوگا کہ سیاست میں کیا ہو رہا ہے لیکن میرے دوست کو سب معلوم ہوتا ہے۔
9 مئی کے گھیراؤ جلاؤ کے بعد میں نے اس میں بڑی حیرت انگیز اور معنی خیز تبدیلی دیکھی ہے' اب وہ سیاست خصوصاً ''تبدیلی آئی رے'' پر بات نہیں کرتا' ادھر ادھر کی ہانکتا رہتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا' یار آج کل تمہارے پاس کوئی خبر نہیں آ رہی' لگتا ہے ''رابطے'' کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس نے جواب دیا' یار! ایسا لگتا ہے جیسے خاموشی چھا گئی ہے ورنہ 9مئی سے پہلے تو آئے روز لبرٹی چوک اور لاہور کی نہر پر ایک میلے کا سماں ہوتا تھا۔
عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور ابرار الحق کے گانے گونجتے تھے 'یو ٹیوبر کا ایک ہجوم پتہ نہیں کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر اس میلے میں آ جاتا تھا۔
9مئی واقعے سے پہلے ہر کوئی سیاست پر بات کرتا رہتا تھا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ۔ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے الیکٹیبلز اپنی پارٹی کے چھجے سے اڑ رہے ہیں'اب تک 100سے زائدالیکٹیبلز اورموسمی سیاستدان یہ لوک گیت گاتے اڈاری بھر رہے ہیں ؎
ساڈھا چڑیاں دا چمبا وے بابلا
اساں اڈ جاناں اے
سانحہ9مئی کے مبینہ ملزمان معافیاں مانگ رہے ہیں' جن کے کہنے پر انھوں نے یہ سب کچھ کیا' وہ ان ٹائیگرز اور ٹائیگرسز سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔ 9مئی واقعے کے بعدممی ڈیڈی طبقے کے شریراور بدتمیز نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خاصے محتاط ہو گئے ہیں'انھیں پہلی بارمعلوم ہوا ہے کہ
یہ عشق نہیں آساں 'بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے 'اور ڈوب کے جانا ہے
9مئی کو جن لوگوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے' گھیراؤ جلاؤ کیا اور شہداء کی یاد گاروں کی بے حرمتی کی' وہ بے یارو مدد گار ہو چکے ہیں'ان کے لیڈر فون بھی نہیں اٹھاتے۔میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گرفتار ہیں۔
ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ اس پر فکر مند ہونا انھیں مشتعل کرنے والوں کا کام نہیں ہے' اب یہ گرفتار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ساری زندگی اپنے بچوں کو جیلوں سے رہا کرانے میں لگے رہیں گے۔شاید وہ سوچ رہے ہوں گے اگر ہم ایسے نہ کرتے تو آج ہم اس مصیبت میں نہ پڑتے ۔مگر گیا وقت 'واپس نہیں آتا۔
لائی بے قدراں نال یاری
تے ٹٹ گئی تڑک کر کے
اب اکثر لیڈر کہہ رہے ہیںکہ وہ اپنے بچوں کو ٹائم دینا چاہتے ہیں 'کچھ سیاست کو خیر باد کہہ کے کاروبار پر توجہ دینا چاہتے ہیں 'اساں تے جانا بلو دے گھر فیم ابرار الحق کو لندن میں اپنے شو کے لیے سجائے گئے اسٹیج پر ''کنے کنے جاناں بلو دے گھر'' گا کر ٹھمکے لگاتے ہوئے سب نے دیکھا ہے۔
کیا سیاست اسی کا نام ہے؟ آج پارٹی پر مشکل آئی تو ٹی وی پر تھوڑا سا رو کر دکھایا اور لندن کے خوشگوار موسم میں جا کر گیت سنگین کی محفلوں میں ڈھمکے بازی کرنا شروع کر دی ' اپنے سیاسی ''کارناموں'' پر ندامت کا احساس اور نہ ہی احتساب کا ڈر۔ کیا اس قسم کی لیڈر شپ انقلابی جدوجہد کر سکتی ہے؟مراعات کے دودھ سے بھرا فیڈر منہ سے لگا کر پینے والے کبھی انقلابی نہیں ہو سکتے۔
یہ وہ طبقہ ہے جو صرف آم کھاتا ہے اور گٹھلیاں ڈسٹ بن میں پھینک دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ بھی ان گٹھلیوں والا ہی سلوک ہوا ہے۔
اگر کوئی سیاسی مدبر ہوتا تواپنے ٹائیگرز اور ٹائیگرسزکی سیاسی تربیت کرتا 'انھیں بتایا جاتا کہ سیاست میں ان کا کردار کیا ہے۔کارکنوں کو ریاست کے نظام کی مبادیات سے آگاہ کیا جاتا' انھیں پتہ ہوتا کہ ریاستی مشینری کیسے کام کرتی ہے اور اسے کیسے ٹھیک کرنا ہے۔
ساری توجہ پارٹی منشور پر دی جاتی 'تنظیمی عہدے داروں کو ترقی کے زینے طے کرائے جاتے نہ کہ چاپلوس'نااہل اور لالچی امیر لوگوں کو پارٹی پلیٹ فارم مہیا کرتے۔
گوئیے' رقاص اوریورپی شہریت رکھنے والے کبھی عوامی سیاست نہیں کر سکتے'اگر ان میں جذبہ ہوتا تو وہ یورپ کے ٹھنڈے ملکوں کی شہریت نہ لیتے اور پاکستان میں آ کر اپنے لوگوں کی خدمت کرتے۔وہ تو پاکستان پر حکمرانی کرنے کا خواب آنکھوں میں سجا کر لائے' جسے موقع ملا اس نے پہلے سے غریب اس ملک کے وسائل کو لوٹنے میں ذرا برابر تامل نہیں کیا۔
سچ کہتے ہیں کہ انسان جوبیجتا ہے' وہی کاٹتا ہے۔ سیاست کے کھیت میں جو بیجا گیا تھا ' آج انھیں وہی کاٹنا پڑ رہا ہے۔ ابھی تو امتحان شروع ہوا ہے' پہلے پرچے آسان ہیں لیکن آگے بہت سخت سوالات والے پرچے ہیں۔
پاکستان میںایک پارٹی ہی نہیں مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی'جے یو آئی اور اے این پی وغیرہ بھی سیاسی پارٹیوں سے زیادہ خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں' ان پارٹیوں نے بھی اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کا کوئی میکنزم نہیں بنایا ہے۔بس لیڈر نے جو کہہ دیا وہی پارٹی کا آئین ہے۔سیاسی پارٹیوں میں اندرونی احتساب اور الیکشن کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عملی جدوجہد نہیں کی۔وہ انتہا پسندی کے مقابل بیانیہ تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے اقتدار کی منزل تک پہنچنا جمہوری سیاست ہر گز نہیں ہے۔
آج جو الیکٹیبلزایک پارٹی کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں 'کل انھیں کوئی اور پارٹی اپنے ساتھ شامل کر کے اپنا امید وار ڈکلیئر کر دے گی'ایک سیلیبریٹی پلس سیاستدان نے بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسے ہی الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملایا تھا' اب وہ ساتھ چھوڑ گئے ہیں تو اس پر کسی کو دکھی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی غصہ کرنا چاہیے' خاصا عرصہ پہلے ایک صحافی لاہور پریس کلب کا الیکشن لڑ رہا تھا' وہ جس سے بھی ووٹ مانگتا 'اسے کہتا کہ یار میں بھی الیکشن میں کھڑا ہوں ' ووٹ کا طالب ہوں ' اور میں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ہے۔
یہ کہہ کر وہ تھوڑا سا رکتے اور پھر کہتے' یاد رکھنا میرا کوئی اصول نہیں ہے۔ آج کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا منشور بھی یہی ہے کہ انھوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا لیکن یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کا کوئی اصول نہیں ہے۔
وہ والدین جوخود کو پڑھا لکھا کہلاتے ہیں' ملک کو بدلنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں'افسوس تو ان پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو سیاست کے بے رحم میدان میں لے آئے اور آج وہ بچے اور کئی والدین ایسا جرم کر بیٹھے جس کا ازالہ سزا کے سزا کچھ نہیں ہے۔اب رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔کمان سے جو تیر نکل گیا ہے 'اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔
ریاست کا نظام سمجھے بغیر کسی لیڈر کو مسیحا سمجھ کر اس کا پیروکار بن جانا'یہ سیاسی ورکرز کا کام نہیں۔ سیاسی ورکرز نظام کی حرکیات کو سمجھتے ہیں'وہ اپنی پارٹی کے سیاسی جلسوں میںجاتے ہیں لیکن گھیراؤ جلاؤ جرائم سے دور رہتے ہیں'انھیں اپنی صفوں میں گھسے ہوئے شرپسندوں کا بھی باآسانی پتہ چل جاتا ہے۔وہ پارٹی کے لیڈرز کی ذہانت اور تدبر سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ موصوف ریاست کے نظام کو کتنا سمجھتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت کے حوالے سے موجود قوانین پر سختی سے عملدآمد کرائے' سیاسی جماعت کو رجسٹرڈ کرتے وقت' اس کی قیادت سے یہ حلف نامہ لکوایا جائے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق اپنی پارٹی کو چلائے گا' ریاست کے نظام 'قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو ایسا کرنے پر اکسائے گا۔
اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کی پارٹی پر پابندی عائد نہیں ہو گی بلکہ اسے سیاست کے میدان سے باہر کردیا جائے گا اور قانون کے مطابق کارروائی ہو گی ۔یہ حلف نامہ بھی لیا جائے کہ وہ مقررہ مدت میں اعلیٰ پارٹی عہدوں سے لے کر نچلی سطح تک الیکشن کرائے گا ' کارکنوں کی سیاسی تربیت کے لیے سیمینارز منعقد کرے گا جہاں انھیں ریاست کے نظام کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا' پارلیمانی جمہوریت کیا ہوتی ہے ' اس کے بارے میں بتایا جائے گا۔
پارٹی کا منشور پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کے سامنے رکھا جائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد پارٹی کی صوبائی اور ضلعی قیادت سے منظوری لی جائے گی تاکہ نچلی سطح تک کے کارکنوں کو بھی اپنی پارٹی کی پالیسیوں میں شرکت کا احساس ہو' الیکشن کمیشن اگر یہ کام کرنے میں کامیاب ہو گیا تو سمجھ لیں کہ جمہوریت اپنے ٹریک پر آ گئی ہے ۔
ویسے سچ تو یہ ہے کہ میں جو مرضی کہہ لوں ' سیاست اور اقتدار کے نقار خانے میں طوطی کی آوازکون سنتا ہے 'لیکن جیسے میرے دوست کا دماغ کھوجی ہے 'مجھے بھی کچھ نہ کچھ کہنے کی بیماری ہے'اس لیے بات کرنے پر مجبور ہوں'آپ بھی غصہ نہ کیجیے گا ۔ منیر نیازی مرحوم نے کہا ہے ؎
آواز دے کے دیکھ لے 'شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے