شہری علاقوں میں دیہی عوام کی ذمے داری
چھ کروڑ مزدور اور دیہی علاقوں میں رہنے والے کروڑوں کسان ابھی تک جمہوریت کا حصہ نہ بن سکے
ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس حقیقت کو اجاگرکرنے کی کوشش کی تھی کہ ملک میں جمہوری نظام قائم ہے،کیونکہ ہمارے ملک میں جمہوریت دہائیوں سے متعارف رہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کے بنیادی ارکان کو نہ صرف اہمیت دی جائے بلکہ کوشش کی جائے کہ یہ طبقہ جمہوری اداروں میں بامعنی کردار ادا کرے، ہم جس جمہوریت سے گزر رہے ہیں۔
اس کا تقاضا یہ ہے کہ جمہوریت کے بنیادی عناصر خاص طور پر مزدوروں اور کسانوں کو نہ صرف متحرک کیا جائے بلکہ جمہوری اداروں میں انھیں مناسب نمایندگی دی جائے۔
یہ بات اس لیے کہنا پڑ رہی ہے کہ ابھی تک جمہوریت مختلف ناموں سے کام توکر رہی ہے لیکن اس میں جمہوریت کے بنیادی عنصر عوام کو نہ صرف یہ کہ انھیں جمہوریت کا لازمی حصہ بنایا جائے چونکہ ملک میں جمہوریت رائج نہیں ہے۔
اس لیے ایوانوں میں مناسب اور بامعنی نمایندگی دی جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کی روح عوام ہوتے ہیں اور جب تک جمہوریت میں عوام کا کردار موثر نہ ہو، اس وقت تک جمہوریت کے کتنے ہی نام لیے جائیں حقیقت میں جمہوریت ادھوری رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے۔
سوال یہ ہے کہ چھ کروڑ مزدور اور دیہی علاقوں میں رہنے والے کروڑوں کسان ابھی تک جمہوریت کا حصہ نہ بن سکے۔
بدقسمتی سے حکومتیں تو تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن مزدوروں اور کسانوں کے بغیر جمہوریت بے روح ہوتی ہے، ہمارا ملک بدقسمتی سے آئے دن سیاسی حادثات کا شکار رہتا ہے۔
اس لیے عوام ابھی تک جمہوریت کا وہ حصہ بن سکے جو ان اداروں میں وہ کردار ادا کرسکے جس کے بغیر جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر آسکے، ہمارے ملک کی آبادی چوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
اس میں صرف مزدوروں کی تعداد چھ کروڑ ہے، اس طرح دیہی معیشت میں کسانوں اور ہاریوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اگر دیہات میں ترقی کا عمل شروع کیا جائے تو شہروں کی طرح دیہاتی بھی اپنے روز گار کو بڑھانے میں آگے نکل سکتے ہیں اور آنے والا وقت دیہاتوں کے لیے ایک اچھا اور موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے75 سال سے زیادہ ہوچکے ہیں لیکن حقیقی جمہوریت ابھی تک متعارف نہ ہوسکی۔
ہمارے ملک کا اشرافیہ طبقہ جمہوریت سمیت سارے اداروں پر قابض ہے، لہٰذا ابھی تک ہم اس جمہوریت سے واقف نہ ہو سکے جو ساری دنیا میں رائج ہے۔
75 سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے، اس میں جمہوری اداروں کو مضبوط ہو جانا چاہیے لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ مزدوروں اور کسانوں سمیت دیگر طبقات کو آگے آنے نہیں دیتی۔ یہ عوام کے خلاف افسوس ناک سازش ہے جس کا ازالہ ہونا ضروری ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بیورو کریسی کی طاقت اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ وہ سیاستدانوں کو بے بس کرتے ہیں اور بدقسمتی سے سیاستدانوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے جو پچھلے 75 سال سے اس ملک پر پَر پھیلائے بیٹھی ہوئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے محترم سیاستدانوں کے نزدیک اپنا مفاد ہمیشہ زیادہ اہم رہتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح مراعات یافتہ طبقہ اقتدار پر قابض ہے، سیاستدان بار بار اقتدار میں آتے ر ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طبقے نے جمہوریت کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنے طبقات کو مضبوط بنایا، اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے مراعات یافتہ طبقہ اب بھی اتنا بااثر ہے کہ وہ سیاست کو اپنی مرضی سے چلا سکتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کو ہمیشہ سیاست سے دور رکھا گیا جب بھی نام نہاد جمہوریت لائی گئی اس میں عوام کو ہاری بنا کر رکھا گیا، یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ اس وقت ملک میں بیورو کریسی بااختیار ہے اگر وہ چاہے تو عوام کو بااختیار بنا سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ایک تاریخی واقعہ ہوگا۔
ہمارا بالائی طبقہ یعنی سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے، عوام کے حالات سے بالادست طبقات کو کوئی دلچسپی نہیں۔اتفاق کی بات ہے کہ آج کل بیورو کریسی بااختیار ہے اور اگر اس بیورو کریسی نے کم ازکم ملک میں انتخابات ہی کروا دیے تو یہ ایک ایسا کارنامہ ہوگا جو تاریخ میں رقم رہے گا۔
بالائی طبقات سے تو یہ کبھی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنائے رکھے اور یہی بدقسمتی ہے کہ جس کا شکار ہم 75 سال سے ہوتے آرہے ہیں۔