حالات کا جبر
قیام پاکستان سے لے کر تادم تحریر ملک میں بننے والی ہرسیاسی جماعت کومختلف اوقات میں مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے
اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی امریکا میں ایک ادارہ ہے جس کا نام ہے آفات و حوادث کی تحقیق کا مرکز (Disaster Research Center) یہ ادارہ 1963 میں قائم ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ادارے نے اب تک ایک سو سے زیادہ تعداد میں مختلف قسم کی بڑی انسانی آفتوں کا مطالعہ کیا ہے۔
ادارے ہٰذا کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق غیر معمولی مشکل مواقعوں پر انسان کے اندر غیر معمولی طور پر کچھ نئی قوتیں ابھر آتی ہیں جو اس کو حادثات و سانحات کا شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔ مثلاً 1961 میں ٹیکساس میں ایک زبردست قسم کا ساحلی طوفان آیا، مگر شدید نوعیت کے اس طوفان میں ٹیکساس کے صرف آدھے ملین لوگوں نے اپنا مکان چھوڑ کر محفوظ مقام کی سمت نقل مکانی کی، جب کہ پچاس فی صد سے زیادہ آبادی اپنے اپنے مکانوں میں جمی رہی اور ساحلی طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔
حالانکہ اس طوفان کے آنے کی اطلاع چار دن پہلے دی جا چکی تھی۔ اسی طرح 1971 میں کیلیفورنیا کے زلزلے کے دوران ایک بہت بڑا ڈیم حد درجہ کمزور ہو گیا جس کے باعث آبادی کے 70 فی صد سے زائد حصے کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے۔ اس ہولناک ممکنہ خطرے کے باوجود اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے والے لوگوں کی تعداد صرف سات فی صد تھی۔
اس تحقیقی تجزیے سے معلوم ہوا کہ حادثات کا شکار ہوجانے کے بعد بھی لوگوں کی اکثریت اچھے دنوں کی امید پر اپنی اصل جگہ پر کھڑی رہتی ہے۔ ٹیکساس کے دو شہروں میں خوفناک طوفان سے تباہ ہونے والے لوگوں سے جب ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو دس فی صد سے بھی کم لوگوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں کسی اندیشے اور تحفظات کا اظہار کیا بقیہ تمام لوگ تباہی و بربادی کے باوجود اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید تھے۔
ادارہ ہٰذا کی رپورٹ میں مذکورہ تحقیق کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ '' واقعات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان مصیبتوں کے مقابلے میں حیرت انگیز طور پر قابو پانے میں لچک دار واقع ہوتے ہیں۔ مصائب کے وقت انسان جس رویے کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کو دہشت اور گھبراہٹ کی بجائے ہیرو ازم کے لفظ سے تعبیر کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔''انسان کو پیدا کرنے والے رب العزت نے حیرت انگیز طور پر بے شمار صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔
انھی میں سے ایک صلاحیت یہ ہے کہ عین بربادی کے کھنڈر میں کھڑا ہو کر بھی وہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اپنی نئی تعمیر کا منصوبہ بناتا ہے اور بہت جلد حالات پر قابو پا کر اپنے نقصانات کی تلافی کرلیتا ہے۔ انسان کے اندر موجود یہ فطری صلاحیت سوچیے تو ایک بہت بڑا پیغام اور سبق ہے۔ کوئی قوم یا فرد اگر کسی حادثے یا سانحے کا شکار ہو جائے تو اسے ماتم، شکوہ اور شکایت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اپنی جگہ چھوڑ کر جانا چاہیے بلکہ خداوند کی دی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے آپ کو مضبوط بنا کر نئے سرے سے اپنی جگہ کھڑے اور جمے رہ کر پھر سے نئے مستقبل کی تعمیر کرنا چاہیے۔
عین ممکن ہے کہ حالات کے جبر نے جہاں آپ کی کہانی ختم کر دینی چاہی تھی وہیں سے آپ کی زندگی کے ایک نئے شاندار باب کا پھر سے آغاز ہو جائے اور آپ پہلے سے زیادہ کامیابی سے ہم کنار ہو جائیں۔آپ اس پس منظر میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے، سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ سیاست دانوں کے قول و فعل اور کردار و عمل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان سے لے کر تادم تحریر ملک میں بننے والی ہر سیاسی جماعت کو مختلف اوقات میں مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کبھی نادیدہ قوتوں کی سازشوں کے طفیل کبھی آمرانہ طاقتوں کی انا کی تسکین کے لیے اور کبھی اپنے ہی مفاد پرست ٹولے کے ہاتھوں سیاسی جماعتوں کو ٹوٹ پھوٹ کے مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر اور قومی سیاست کے عروج و زوال کی تاریخ پر نظر رکھتے ڈاکٹر جعفر حسین کے بقول قیام پاکستان کے بعد ملک کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ کو بھی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کے عمل سے گزرنا پڑا۔
نواب افتخار حسین ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدہ سیاسی جماعت بنائی۔ نیشنل عوامی پارٹی پر جب برا وقت آیا تو وہ ولی خان گروپ اور بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست تو قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہوا تو دباؤ برداشت نہ کرسکنے والے سیاست دان اپنی پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
1977 کے مارشل لا کے بعد پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ کھر، ممتاز بھٹو، کوثر نیازی اور کمال اظفر جیسے لوگوں نے پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ مسلم لیگ جونیجو گروپ، نواز گروپ، ضیا گروپ، قائد اعظم گروپ جیسے ناموں سے تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔
پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ گروپ نے جنم لیا۔ ایم کیو ایم سے آفاق گروپ وجود میں آیا، مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے اپنی راہیں جدا کیں۔مشکل وقت میں پارٹی چھوڑنے، علیحدگی اختیار کرنے، پارٹی عہدوں اور بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے حتیٰ کہ ایم پی اے اور ایم این اے کی نشستیں تک چھوڑنے کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
9 مئی کے واقعات کے بعد سے تادم تحریر ایک محتاط اندازے کے مطابق پارٹی سے وابستہ سو سے زائد افراد تحریک انصاف سے اپنی وفاداری توڑ کر جا چکے ہیں۔
9 مئی کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی، گھر کے بھیدی لنکا ڈھانے لگے، تحریک انصاف کے قریبی اور مخلص ساتھی جن کے سروں پر حقیقی آزادی کی دھن سوار تھی اور جو انقلاب کے نعرے لگاتے تھے مشکل وقت آیا تو علی الاعلان داغ مفارقت دے گئے اور مشکل وقت میں ساتھ دینے میں ناکام رہے۔ہماری قومی سیاست کا سب سے بڑا المیہ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہاں نظریہ، اصول اور وفاداری کی کوئی اہمیت اور قدر نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست مفادات کی سیاست ہے۔ یہاں سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے، سیاسی پارٹیوں کو توڑنے، اپنی مرضی کی نئی پارٹیاں بنانے اور پریشر گروپ قائم کرنے کے لیے عجیب و غریب کھیل کھیلا جاتا ہے۔
جب کہ سیاستدان بھی محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہوا کا رخ دیکھ کر لباس کی طرح سیاسی پارٹیاں بھی بدلتے رہتے ہیں، جو لوگ مشکل وقت میں حالات کے جبر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے انھیں سیاست سے کیا لینا دینا۔
آزادی کے پروانے زندانوں سے نہیں ڈرتے