انسانی حقوق کا نام نہاد علمبردار امریکا
امریکا کس طرح انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے اس کی ایک مثال پاکستانی بیٹی ڈاکٹر عافیہ ہے
بلاشبہ 9مئی 2023ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیڈر کی گرفتاری کی آڑ میں حساس تنصیبات، شہداء کی یادگاروں اور تاریخی عمارت جناح ہاؤس پر حملے کیے،جلاؤ گھیراؤ کیا، توڑ پھوڑ کی گئی، پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا،انہیں زخمی کیا۔
ان واقعات کی ویڈیوز کے ذریعے دہشت گردوں کی شناخت کی بنیاد پر گرفتاریاں کی گئی اور مذید گرفتاریاں متوقع ہے ۔ بظاہر یہ ایک سیاسی معاملہ ہے لیکن اندرون خانہ ایک گہری سازش کا پتہ دیتے ہیں،جب ان واقعات کے ملزمان کو گرفتار کیا جارہا تھا تب انسانی حقوق کی نام نہادعلمبردار امریکا کی جانب سے کہا گیا کہ ان گرفتاریوں کے دوران انسانی حقوق اور قانون کا احترام کیا جائے حالانکہ تمام گرفتاریوں کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے پھر بھی جھوٹ کا سہارا لے کر ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے ہمارے یہاں انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے تمام تر عالمی قوانین کو روندتے ہوئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، لاکھوں بے گناہ انسان ہلاک کیے گئے، املاک زمین بوس کردیئے گئے، بے شمار انسانوں کو عقوبت خانوں میں قید کرکے ان کے ساتھ وہ انسان سوزمظالم ڈھائے گئے جن سے انسانیت کانپ اٹھی تھی ۔
امریکا کس طرح انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے اس کی ایک مثال پاکستانی بیٹی ڈاکٹر عافیہ ہے جو گزشتہ 13سالوں سے امریکی قیدی بنی ہوئی ہے ۔ گزشتہ دنوں امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی،یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے لا پتہ ہوئے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات تشویش ناک صورتِ حال میں ہوئی ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی بیٹی کے ساتھ اب ملاقاتوں اور بات چیت کا راستہ کھل گیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام آواز اٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی حکومت سے بات چیت کریں۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ اس موقع پر ڈاکٹر فوزیہ کو اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔جیل کے ایک کمرے میں دونوں بہنوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا اور اس کے آر پار دیکھتے ہوئے یہ ملاقات ہوئی تھی۔
عافیہ صدیقی سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈریس میں تھیں، ڈھائی گھنٹے کی ملاقات میں پہلے 1 گھنٹے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات سنائیں۔ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ مجھے اپنی امی اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں، انہیں اپنی والدہ کی وفات کا علم نہیں ہے، ڈاکٹر عافیہ کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور ان کو سر پر ایک چوٹ کی وجہ سے سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔
یہ ہے امریکی انسانی حقوق کی پاسداری اور ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اور وہ بھی ان دہشت گردوں کے لیے جنھوں نے پاکستان کی حساسیت پر حملہ کیا ہے جبکہ خود امریکا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اس بنیاد پر گرفتار کیا کہ انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملہ کیا ہے اور ان کو 86برس قید کی سزا سنادی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک سائنسدان ہیں، جن پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔مارچ 2003 میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے اہم کمانڈر اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے معاملے میں نیا موڑ اُس وقت آیا، جب امریکا نے 5 سال بعد یعنی 2008 میں انہیں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔بعدازاں عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کر دیا گیا، ان پر مقدمہ چلا اور 2010 میں ان پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد کرنے کے بعد 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔
ان مظالم پر انسانی حقوق کی نام نہاد علمبرداروں اور امریکی کانگریس کے ممبران نے چپ سادھ لی ہیں، ان کی آنکھوں میں تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہیں جبکہ پاکستان میں 9مئی کو رونما ہونے والے واقعات کے ذمہ داران کی گرفتاری پر ان کے پیٹ میں انسانی حقوق کا درد اٹھتا ہے کیوں ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس پر محب وطن پاکستانیوں کو غور و فکر کرنی چاہیے کہ امریکی ذمہ داروں کو پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں سے ہمدردی کیوں ہے ؟
کہیں نہ کہیں تو دال میں کالا ہے جس کی پردہ پوشی کی جارہی ہے ۔ابھی تو 9مئی کا سرغنہ گرفتار ہونا باقی ہے پھر کیا ہوگا، یقینا آسمان سر پر اٹھالیا جائے گا ۔ عمران نیازی سائفر ہوا میں لہرا لہرا کر کہتے رہے کہ رجیم چینج امریکا کے کہنے پر کرائی گئی ہے تو پھر آج امریکی کانگریس کے 66ممبران بشمول امریکا انسانی حقوق کی آڑ میںہمدردی کا اظہار کیوں کررہے ہیں ؟ پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کو عقل سے کام لینا چاہیے، جو شخص امریکا سے آزادی کا نعرہ بلند کرتا تھا اب وہ امریکا سے مدد کیوں مانگ رہا ہے؟
بہت کچھ واضح ہوچکا ہے سمجھ دار لوگ بہت کچھ سمجھ چکے ہیں کاش کہ ہمارے گمراہ کیے گئے طبقہ بھی سمجھ جائیں ۔ 9مئی کو جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے لیڈر کی خاطر دہشت گردی کرکے اپنا روشن مسقبل تباہ کرنے والے سوچیں،غور و فکر کریں کہ ان کا لیڈر کہہ رہا ہے کہ وہ ان کے کارکن نہیں ہیں ۔ درجنوں پی ٹی آئی رہنما کنارہ کشی کرکے دوسرے سیاسی گھونسلے میں پناہ تلاش کررہے ہیں اور بے چارے کارکن لاوارث ہوگئے ہیں۔
الغرض یہ کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جس قدر سمجھا جارہا ہے، دشمن نے پاکستان کے اندر حملہ کیا ہے اور اب یہ حملہ جھوٹے انسانی حقوق کا سہارا لے کر ملکی سلامتی کے ادارے پر متواتر کیے جارہے ہیں،یہ وہ حملہ ہے جسے پاک فوج اور قوم نے باہم مل کر ناکام تو بنادیا ہے مگر دشمن بڑی چالاکی اور عیاری سے اس بجھے آگ کے دھوئیں کو پھونک مارکر بڑھکانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے لیکن قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جو پاک فوج کے ساتھ مل کر دشمن کے دانت کٹھے کرے گی۔