بدلتی دنیا اور ہم
ایک ایسی سمت جہاں دنیا پھر سے دوسپر طاقتوں میں بٹ رہی ہے
آج کل تبدیلی کے دعویدار صاحب کے ستارے گردش میں ہیں۔ بہت مشکل لگتا ہے، ان چیزوں کو یہاں دہرائوں کہ کس طرح ایک پروجیکٹ اس قوم پر مسلط کیاگیا کہ یہاں جمہوری تسلسل نہ چل سکے، اب ہم پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں کہ جہاں سے ہمیں ایک سمت لینی ہے۔ ایک ایسی سمت جہاں دنیا پھر سے دوسپر طاقتوں میں بٹ رہی ہے۔
ہم پچھلی سرد جنگ میں امریکی بلاک میں تھے، جنھوں نے یہاں اپنے سرد جنگ کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے آمریتوں کو پڑوان چڑھایا، لوگوں کو حق ِ حکومت سے محروم کیا، ایک بھرپور بیانیہ بنایا گیا، جمہوریت کے خلاف کہ جیسے آمریتوں کے ادوار میں کرپشن نہیں ہوتی اور پاکستان تاریخی اعتبار سے ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی، جو اپنے آپ میں مجموعی طور پر سماجی کمزوریاں تھیں، جیسا کہ قبائلی و سرداری، گدی نشینوں اور دینی مدارس کے کنٹرولرز اور ہینڈلرز کا نظام شہری کی مڈل کلاس سیاست جو جمہوری اقدار سے ہٹ کر تھی، اس میں اپنے حلقے بنا کر جمہوریت کو بھی کنٹرول کرنا، امریکا سے اسٹبلشمنٹ نے بات کی اور جو بھی معاملات تھے ان سے ہی طے کیے گئے۔
انھوں نے پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت سے سے بات کرنے کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی۔ نوے کی دہائی سے اب تک دنیا میںصرف ایک سپر طاقت رہی۔ یہ طاقت ان ممالک کو غلامی یا کنٹرول میں نہیں رکھ سکتی تھی، جن کے پاس دہائیوں سے جمہوریت ہی لاگورہی ، جن کے ادارے مضبوط تھے اور معیشت مضبوط تھی، ایسے ممالک تاریخی اعتبار سے نو آبادیاتی نظام کا حصہ نہیں رہے تھے۔
ہم جیسے ممالک نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراج یا پھر یوں کہیے کہ برطانیہ کے کمزور ہونے کی وجہ سے آزادی پائی، برطانیہ کے بعد نئی سامراجی طاقت امریکا کی شکل میں ابھری، اس نے ایسے ممالک کو بھاری قرضوں تلے دبایا، انھیں مقروض کیا، اپنے ایجنٹ پیدا کیے اور جمہوری اقدار کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔
مشرق وسطیٰ میںعالمی سیاست کا کھیل کچھ اس انداز سے کھیل کھیلا گیا کہ شام، لبنان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی گئی ، انھیں کمزور کیا گیا۔ اسرائیل نے اپنی حیثیت کچھ اس طرح منوائی کہ سعودی عرب اور بہت سے عرب ممالک گھٹنے ٹیکتے نظر آئے ،کچھ ایسا کیا جائے کہ آزاد فلسطین کے بیانیے سے جان چھڑوائی جائے اور اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ ایسی باتیں جنرل مشرف کے دور سے لے کر پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے زمانے میں بھی ہوتی رہی ہیں۔
پی ٹی آئی سی پیک کے تناظر میں ، پاکستانی سیاست میںمضبوط ہوئی ۔ یہ کام کون کررہا تھا اور کون کروارہا تھا؟ ایک تو اسٹبلشمنٹ کے کچھ دھڑوں کی یہ سوچ رہی ہے کہ اگر سی پیک آئے تب بھی اسٹبلشمنٹ کو ترجیح دی جائے نہ سول قیادت کو۔ چین پاکستان میں سول و اسٹبلشمنٹ سے تعلقات میں توازن رکھ رہا تھا۔ اشرافیہ کا ایک مخصوص گروہ بن چکا تھا ، جن کی جڑیںقبائلی و سرداری نظام میں تھیں، وہ مخصوص جاگیرداری خاندانوں سے تعلقات مستقل انداز میں رکھتے تھے ۔ وہ بھی بھانپ لیتے تھے کہ اسٹبلشمنٹ کے مفادات کہاں ہیں اوروہیں پہنچ جاتے تھے۔
پاکستان کا چین کی طرف جھکائو ہندوستان اور امریکا کو اور قریب لے آیا۔ بظاہر امریکا نے پاکستان کے ساتھ اپنے آپ کو engage بھی رکھا، وہ چاہے بائیڈن کا زمانہ ہو یا پھر ٹرمپ کا۔لیکن اندر تو کچھ اور ہی کھچڑی پک رہی تھی ۔ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جارہا تھا، پچھلے ڈیڑ ھ، دو برسوں میں یوکرین کی جنگ کے بعد دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ خصوصاّ سعودی عرب ا ور ایران میں چین کی کامیاب ثالثی اور دونوں کا چین کے بلاک میں شامل ہونا یا امریکا سے سعودی عرب کی دوریاں اختیار کرنا ،امریکا کے لیے باعث تشویش ہے ۔
مختصرا یہ کہ پاکستان کے اندر خانہ جنگی شروع نہ ہوسکی، جس کی آخری کڑی 9 مئی تھا، جو کھل کر سامنے نظر آئی اور اس میں پی ٹی آئی ایک مہر ے کی حیثیت میں استعما ل ہوئی ۔ ایک مخصوص ٹولا تھا جن کی جڑیں پرانے افغان جہاد میں تھیں، اس بیانیہ میں تھیں کہ سیاستدان کرپٹ ہیں ، چور ہیں اور جمہوریت اس ملک کے لیے بنی ہی نہیں! سابق وزیراعظم نے اپنے لیے ہٹلر اور سپر مین کا امیج بنایا۔
ہمیں جو یہ پارٹی بظاہر پاپولر نظر آئی خواہ اس پر سوالیہ نشان بھی اٹھتے تھے مگر،اگر یہ پارٹی حقیقی معنوں میں پاپولر ہوتی تو ایسا کبھی بھی نہ ہوتا کہ آج اس پارٹی کے لیڈر بالکل تنہا کھڑے ہیں۔ ان کے دائیں بائیں جو رفقا تھے وہ پارٹی چھوڑ کے چلے گئے ہیںاور وہ جو جلد انتخابات کی بات کرتے تھے وہ قصہ پارینہ ٹھہرا۔ اسی طرح کے حالات وادوار سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ بھی گذری ہوںگی مگر ان کی پارٹیاں کبھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوئیں۔
9 مئی کے ایڈونچر نے ہماری جمہوریت کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔یہاں پر چند افرادنے ملک کے فیصلے کیے ہیں اور اگر اب بھی سب کچھ ایسے ہی ہوتا رہا تو یہ ملک اپنی بقا کے لیے لڑ نہیں پائے گا، اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر پائے گا۔ کبھی اس بلاک کے پیچھے کبھی، اس بلاک کے پیچھے بھاگتا رہے گا۔
اس ملک کی بقا کے لیے سب سے بڑی سیکیورٹی ہے اس ملک کی معیشت اور اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہاں کے قبائلی و سرداری نظام، یہ سوچ کہ وفادار، جاگیردار اشرافیہ کا ہونا لازمی ہے کہ اس طرح جمہوریت قبضے میں رہتی ہے ، ایسی سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ جو زرعی اصلاحات ہندوستان میں لائی گئیں، وہ ہی ریفارمز یہاں پر لانا ہوںگی مگر اب قومی لینڈ ریفارمز کا کلاسیکل مفہوم تبدیل ہوچکا ہے ۔ مختصرا یہ کہ یہاں دہقانوں کے ووٹ کا تصور ختم کرنا ہوگا۔ اب دہقانوں اور دیہی سسٹم میں صنعتوں اور تعلیم کا آجانا بہت ضروری ہے۔
ہم اس وقت محسوس کریں کہ پاکستان کی بقا جمہوریت و آئین پر چلنے سے ہے اور ہمیں یہ پتا نہیں کہ یہ سرد جنگ جو چین اور امریکا میں شروع ہوچکی ہے کس طرح اور کس شکل میں تبدیل ہوگی! یہ ہم ہیں جنھوں نے امریکا اور چین کی دوستی کروائی اور آج بھی ہم اپنا یہ تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ہم ہندوستان سے بھی بہتر تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں۔
جب ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں اور اس کے اثرات ان کے تجارتی تعلقات پر نہیں ہوتے، یعنی جب چین اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات بہتر رہ سکتے ہیں تو پاکستان اور ہندوستان کے مابین یہ تعلقات استوار کیوں نہیں ہو سکتے۔کم از کم اس وقت یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اب پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے وہ چاہے سول قیادت ہو یا عسکری۔وہ اپنی ذ مہ داری سے اس ملک کو اس وقت بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور 2017 سے لے کر اب تک جو کالے بادل اس ملک پر منڈلا رہے تھے ان پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔