جب ماں مرجائے گی
انسان کی ساری ذہانتیں، ساری قوتیں، ساری صلاحیتیں، تب تک ہیں جب تک اس کاپیٹ بھرا رہے
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتاہے کہ اس دنیا میں ''برائیاں'' ''اچھائیوں'' کے نام پر پھیلی ہوئی ہیں، جتنی جنگیں ہوئی ہیں اورخون بہا ہے، امن کے نام پر بہا ہے، جتنی تاریکیاں پھیلی ہیں، روشنی کے نام پر پھیلی ہیں، جتنا ظلم ہوا ہے، انصاف کے نام پر ہواہے، جتنے امراض پھیلے ہیں ،علاج اوردوائوں کے نام پر پھیلے ہوئے ہیں اورجتنی بھی''تخریبات'' ہوتی رہی ہیں، تعمیرات کے نام پر ہوئی ہیں ،گویا انسان۔
مری تعمیرمیں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کاہے خون گرم دہقان کا
سیدھی سادی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ انسان مسلسل اس شاخ کو کاٹ رہاہے جس پر بیٹھا ہے اورآشیانہ بنانا چاہتاہے بلکہ یوں کہیے کہ خود ہی خود کو تباہ کرتا رہاہے جہاں جہاں اس کے قدم پہنچے ہیں، وہاں گندگی، غلاظت، شر، فساد اورخونریزیاں شروع ہوئی ہیں خاص طور پر اس زمین یاکرہ ارض کے ساتھ یہ جو کچھ کرتا رہا ہے ،کررہاہے اورکرنے جارہاہے ۔
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرہ ارض پر بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
خاص طورپر اپنی دو''مائوں'' کے ساتھ تو اس کا سلوک سراسر ظالمانہ اورتباہ کارانہ ہے، ایک ''دھرتی ماں'' اور دوسری''عورت یا ماں'' ۔ دونوں مائوں سے ان کے ''ماں'' کامنصب چھین کر انھیں حرص وہوس اور جنس وشہوت کانشانہ بنایاگیاہے لیکن آج ہم اس سلوک کاذکر کرناچاہتے ہیں جو یہ اپنی ''دھرتی ماں'' کے ساتھ کررہاہے ۔دراصل انسان جب ''احسن تقویم''سے پھسل کر ''اسفلہ سافلین'' میں گرجاتاہے تو وہ ''ابلیس'' بن جاتاہے۔
برتری کاخناس لے کر بدتر ہوجاتاہے، برتری کے لیے ساری دنیا، ساری انسانیت اور ساری فطرت کو تباہ کرنے پر تل جاتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں بستیوں کو تباہ کرکے انسانیت کوخون کے دریا میں ڈبودیتاہے، اس لیے کہاجاسکتاہے کہ انسان کو جتنا نقصان خود انسان نے پہنچایاہے ،اتنا اورکسی بھی جانور نے نہیں پہنچایا ہے۔ یہ اس زمین کے ساتھ کیاکرتاہے ؟ جو اس کو پال رہی ہے، زندہ رکھے ہوئی ہے۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو ''عقل کل''سمجھنے والے اس انسان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ زمین جتنی ہے اتنی ہی ہمیشہ سے تھی اوراتنی ہی رہے گی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ کم تو ہورہی ہے، بڑھ نہیں رہی ہے ۔یہاں پر اس کے ایک اورکمال ''کنسٹرکشن''پردھیان دیجیے جوزمین کے حق میں سراسرڈسٹرکشن ہے یعنی تعمیرکے نام پر تخریب۔
پاکستان کو بڑی اونچی آوازسے زرعی ملک کہاجاتاہے لیکن اس زرعی ملک میں زمین کو جس بے دردی اور وسیع پیمانے پر تباہ کیاجارہاہے، اس سے ایسا لگتاہے جسے کوئی دشمن زمین و زراعت کو تباہ کررہاہو ، قدم قدم پر خوش نما ناموں کی ''آبادیاں'' ایسے اگ رہی ہیں جیسے برسات میں کھمبیاں اگ رہی ہوں یاکسی چیچک زدہ جسم پر پھوڑے نکل رہے ہوں، سیمنٹ اور سریے کے یہ جنگل خالص زرعی زمینوں پر اگ رہے ہیں اورگزشتہ ''عمرانی بچکانہ'' حکومت نے تو اس سلسلے میں بیرونی سرمایہ کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس ملک میں کتنے ''بے گھر''تھے یا ہوں گے کہ ان کے لیے دھڑا دھڑ مکان بنائے جارہے ہیں ،ایک بڑے مزے کی بات ہے جب سارے ملک کی زمین پر مکان ہی مکان بن جائیں گے اورہرطرف لگژری آبادیاں ہوجائیں گی اور دوسری طرف ''زمین'' نہیں رہے گی تو روٹی بھی نہیں رہے گی تو کیا ان لگژری آبادیوں میں انسان بھوک کا شکار نہیں ہو گا؟اورجب بھوک کاشکار ہوجائے گا تو کیاان لگژری مکانوں کو چاٹ چاٹ کر زندہ رہے گا ؟
ویسے حیرت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو اتنا ''عقل کل'' سمجھے والا اور خود کو کائنات کی واحد ذہین ترین مخلوق سمجھے والا یہ ''انسان'' اتنااحمقن کوتاہ بین اور ناسمجھ کیسے ہوسکتاہے کہ جب اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کی ساری قوتوں کا دارومدار''پیٹ'' پر ہے اور پیٹ صرف روٹی سے بھرتاہے اور روٹی صرف زمین دیتی ہے تو پھر یہ اپنی زندگی کے اس ذریعہ ''زمین'' کو برباد کیوں کررہاہے ۔
خوب جانتاہے کہ اپنی تمام تر ذہانت قابلیت اور ایجاد واختراع کے باوجود یہ ابھی تک روٹی کانعم البدل پیدا نہیں کرسکاہے۔ ''پیداکرنا'' تو چیزاس کے بس میں ہے ہی نہیں البتہ بناتا رہتاہے۔بنانے اور پیداکرنے میں جو فرق ہے وہ عربی کے دو الفاظ''خلق'' اور''جعل'' کے ذریعے واضح کیاجاسکتاہے۔ ''خلق'' کسی چیزکو عدم سے وجود میں لانے کو کہتے ہیں جو انسان کے بس اور دسترس میں ہے ہی نہیں۔ اس کے بس اور دسترس میں صرف ''جعل'' ہے یعنی پہلے سے موجودکسی چیزکونئی شکل یا رنگ و روپ دینا،جیسے مٹی موجود ہے اور انسان اس سے دیوار، مکان، برتن، اینٹ وغیرہ بناسکتاہے۔
لوہا، لکڑی ،پتھر، پانی، ہوا وغیرہ سے نئی نئی چیزیںبنانا یاکچھ موجود چیزوں کو ملاکر کچھ بنانا ،چنانچہ اس کی ساری ایجادات، اختراعات، آلات مشینیں سب کچھ''جعل'' ہیں ''خلق'' نہیں ،اب جدید ترین ایجادات گاڑیوں ہوائی جہازوں طرح طرح کے ہتھیاروں موبائل کمپیوٹرسب کو دیکھیے تو کچھ پہلے سے موجود چیزوں کو ملاکر بنائی جاتی ہیں یہاں تک کہ ایٹم یاجوہری توانائی بھی پہلے سے موجود ایٹم سے نکالی جاتی ہے چنانچہ دنیامیں انسان نے ابھی تک کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیزبھی ''پیدا''نہیں کی ہے، صرف بنائی ہیں اور جن جن موجود چیزوں سے بنائی ہیں، ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ''زمین'' سے ہے، اسی لیے تو زمین کو ''دھرتی ماں '' کہاجاتا ہے اور اگر اب تک یہ روٹی یا خوراک ''پیدا'' نہیں کرسکاہے بلکہ بنا بھی نہیں سکاہے تو آیندہ بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
اس کے ان کارناموں کو بھی گہری نظر سے دیکھیے جن کی وجہ سے اسے بے پناہ غرورہے، یہ بھی تب کرسکاہے کہ جب اس کے پیٹ میں روٹی تھی۔ بڑے بڑے فاتحین، سائنس دان ،اگر ''بھوکے'' ہوتے تو کچھ کرپاتے ؟ سکندر ،ارسطو، افلاطون، سقراط، بقراط، آئزک نیوٹن، آئن اسٹائن ،اپنی جگہ سے ہل بھی نہ پاتے اگر بھوکے ہوتے ۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تمام تر ذہانتوں اورقوتوں کی بنیاد روٹی پر ہے ۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیادیامجھ کو
اوراگر روٹی دینے والی زمین ہی نہ رہے تو انجام کیا ہوگا، سب کچھ دھرے کادھرا رہ جائے گا ، یہ ایجادات ،اختراعات، یہ کرنسیاں، یہ بینک ،یہ زر وجواہر سب کچھ بیکارمحض ہو جائیں گے ۔
اس بڑی اور ناقابل تردید حقیقت کی گونج ہمیں پرانی داستانوں اورحکایتوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ ایک تو اس بادشاہ کی کہانی ہے جسے ''سونے'' سے بہت پیار تھا اوراس کی یہ دعا قبول ہوگئی تھی کہ وہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا، وہ سونے کاہوجاتا، پہلے تو اسے بڑی خوشی ہوئی کہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا تھا، وہ سونے کابن جاتا تھا، اپنے محل اورساری استعمال کی چیزوں کو اس نے چھو کر سونے کابنالیا لیکن جب کھانے کی باری آئی تو مسلہ پیداہوگیا، ہاتھ لگاتے ہی اس کا نوالہ بھی سونے کاہوجاتا، یہاں تک کہ پانی بھی منہ میں جاتے ہی سونا بن جاتاتھا ،اس نے خود کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ نوکروں کو بھی کھلانے پر لگایا لیکن نوکر بھی سونے کے ہوجاتے تھے اور منہ میں پڑکر نوالے بھی ، ہرجتن کرنے کے بعد بھی وہ سونے کے ڈھیروں کے درمیان بھوکا مرگیا۔
ایک اورکہانی میں کوئی شخص ایک ویران شہرپہنچ گیا جس میں عظیم الشان محلات، سڑکیں وغیرہ سب کچھ تھا لیکن انسان کوئی نہیں تھا۔ پھرتے پھرتے وہ شاہی محل کے تہہ خانے میں پہنچا تو وہاں ایک سجے سجائے کمرے میں ایک عورت کاڈھانچہ پڑاتھا ،ہرقسم کے قیمتی لباس اورزیورات سے مزین اوراس کے سرہانے ایک کتبے پر تحریرتھی کہ
میں اس ملک کی ملکہ ہوں میرے ملک میں شدید قحط سالی پڑگئی، میرے پاس موجود زروجواہرات کے خزانے تھے جو سب بیکار ثابت ہوئے اورمجھے ان سب کے بدلے ایک روٹی بھر آٹا نہیں ملا ، میری ساری رعایا اور نوکر چاکر بھاگ گئے ہیں اور میں بھوک سے مررہی ہوں، بڑی مشل سے یہ تحریر لکھ کر بستر مرگ پر لیٹ جائوںگی۔
مطلب اس ساری بحث کایہ ہے کہ انسان کی ساری ذہانتیں، ساری قوتیں، ساری صلاحیتیں، تب تک ہیں جب تک اس کاپیٹ بھرا رہے اور پیٹ صرف زمین کی پیداوار سے بھرتی ہے،ایک ذریعہ جانور بھی ہے لیکن جانورکی زندگی کاانحصار بھی تو زمین پرہے، اورزمین کے ساتھ اس وقت انسان جو کچھ کررہاہے وہ ویسا ہی ہے جیسے انسان اپنی ماں کو مارنے لگاہو۔
زمین پر تباہیاں پھیلانے کاکام چونکہ انسان بڑے وسیع پیمانے اور ہرجہت سے کررہاہے ،اس لیے آگے مختلف جہات سے اس پرروشنی ڈالی جائے گی۔