پرندے اور پیادے کہاں جائیں

صرف پرندے نہیں، جو دوسری حیوانی مخلوق ہے وہ بھی جس زمین میں وہ شاد آباد ہے اس زمین کی دولت ہے ...


Intezar Hussain April 27, 2014
[email protected]

سال کے سال ایک اخباری رپورٹ ہماری نظر سے گزرتی ہے۔ کبھی اس حوالے سے کوئی کالم یا کوئی ادارتی نوٹ۔ یہ تذکرہ کہ کچھ مہمانان عزیز آئے تھے، سرکاری میزبانوں نے ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں، وہ اندر سے صیاد نکلے۔

کچھ احتجاج، کچھ اپیل کہ مہمانان عزیز جُگ جُگ آئیں مگر انھیں اتنا تو سر مت چڑھائو کہ وہ ہمارے پرندوں کے لیے عذاب بن جائیں۔ پرندے کون سے وہ جنھیں تلور کہا جاتا ہے اور تلور میں کچھ ایسی صفت ہے کہ عرب سے مہمان کھنچ کھنچ کر آتے ہیں اور ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس مرتبہ ایک شہزادے نے کمال کر دیا۔ شکار کا جو پرمٹ جاری کیا جاتا ہے وہ دس دن کا ہوتا ہے۔ اس دوران میں سو کی حد تک پرندوں کو شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس حد سے تجاوز تو ہمیشہ ہوتا تھا۔ اب کے تجاوز اس حد تک ہوا کہ مہمان عزیز نے یا کہہ لیجیے کہ اس معزز شکاری نے سو نہیں دو سو نہیں پورے دو ہزار پرندے مار گرائے۔ ارے یہ تو غالبؔ کے ایک شعر کی تعبیر نکل آئی ؎

تماشائے بیک کف بُردن صد دل پسند آیا

شمارِ سُبحہ مرغوبِِ بتِ مُشکل پسند آیا

شعر میں فارسی اتنی بھری پڑی ہے کہ لوگ چکرا جاتے ہیں کہ غالبؔ نے یہاں کیا کہا ہے۔ بات یہ ہے کہ شعر اردو میں ہو یا پھر فارسی میں ہو۔ پھر کسی نہ کسی طرح سمجھ میں آجائے گا۔ مگر شعر اردو کا ہو اور فارسی بھری پڑی ہو پھر تو وہ نقشہ ہو گا جسے پنجابی میں بَھمبل بھُوسا کہتے ہیں۔ مطلب یوں سمجھئے کہ یہاں ایسے محبوب کا ذکر ہے جسے لپکا ہے کہ ایک ہی ہلّے سو دل شکار کر مٹھی میں دبا لے بھاگتا ہے سبحہ کا مطلب ہے تسبیح اور تسبیح میں سو دانے ہوتے ہیں سو یہ محبوب ایک دو آٹھ دس بیس تیس پہ قناعت نہیں کرتا۔ تسبیح کے پورے سو دانے گن کر دم لیتا ہے۔ اس لیے اسے بُتِ مشکل پسند ہے کہ ایک دو عاشقوں کے دلوں کی تسخیر پر قناعت نہیں کرتا۔ سو دلوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔

''لیجیے اس چکر میں ہم نے غالبؔ کے ایک شعر کی گرہیں کھول دیں۔ مطلب یہ کہ یہ عرب شیوخ بھی جب شکار پر نکلتے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ چالیس پچاس تلوروں کا شکار کیا اور مطمئن ہو گئے۔ ہزاروں کو مار کر ان کا دل سیر ہوتا ہے۔ گھائل تلوروں پر جو گزرتی ہو گی وہ تو وہی جانتے ہوں گے۔ مگر ہمارے آپ کے علاقوں کے معصوم پرندوں کو تڑپتے پھڑکتے دیکھ کر دیکھنے والے بھی تو اتنا ہی تڑپتے پھڑکتے ہوں گے۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ مقامی لوگوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے اور سرکاری کارندوں کو بھی بہت کچھ مل جاتا ہے۔ وہ شیوخ تو دولت میں کھیلتے ہیں۔ روپیہ پیسہ ان کی ہتھیلیوں کا میل ہے۔ روپیہ پیسہ ایسے بہاتے ہیں جیسے ہتھیلیوں کا میل اتار رہے ہیں۔

مگر ذاتی منافع سے بلند ہوکر سوچیں تو بے ضرر معصوم پرندوں کو اتنی بیدردی سے مارنا کہ کُشتوں کے پُشتے لگ جائیں اسے دیکھ کر دِل کِتنا دُکھتا ہے۔ جب ہی تو ہماری شاعری میں صیاد کو کبھی پسند نہیں کیا جاتا۔ وہ ظالموں میں گنا جاتا ہے۔ پرندوں کو جال میں پھنسا کر پکڑنا اور پنجروں میں بند کر کے رکھنا یہ بھی ظلم ہے۔ انھیں تیروں سے یا بندوق کی گولیوں سے گھائل کرنا اور تڑپا تڑپا کر مارنا، یہ اس سے بڑھ کر ظلم ہے۔

اور صرف پرندے نہیں، جو دوسری حیوانی مخلوق ہے وہ بھی جس زمین میں وہ شاد آباد ہے اس زمین کی دولت ہے۔ اس کی رونق ہے اور ایک حیوانی مخلوق ہے کیا۔ سبزہ و گل، گھنے بلند و بالا درخت، پھلوں سے لدی جھاڑیاں اور پیڑ، مہکتے رنگا رنگ پھول اور چہکتے اپنی اپنی بولیاں بولتے پرندے، یہ سب مل کر زمین کے حسن میں کتنا اضافہ کرتے ہیں۔ یہ زمین کی دولت ہیں۔ پاکستان کے جن علاقوں میں جنگلات ہیں اور ان جنگلات میں جو پرندے چہک رہے ہیں جو ہرن کلیلیں کر رہے ہیں، جو شیر گرج رہے ہیں وہ ان علاقوں کی زرخیزی کی علامتیں ہیں۔ مندرجہ بالا خبر بلوچستان کے محکمہ جنگلات و حیاتیات کی رپورٹ کے حوالے سے نکلی ہے۔ اس محکمہ والوں کو ان تلوروں کی قدر و قیمت کا دوسروں سے زیادہ اندازہ ہونا چاہیے۔ وہ کیسے گوارا کرتے ہیں کہ ان کی نگرانی میں جو علاقے ہیں ان کی دولت اس طرح ضایع ہو۔ خیر ان کی بھی تو کچھ مجبوریاں ہوں گی۔

مگر یہ مسئلہ صرف ایک علاقہ تک اور ایک علاقہ کی زمینی دولت تک تو محدود نہیں ہے۔ پورے پاکستان کی زمینی دولت کے ساتھ، اس کے جنگلات کے ساتھ، اس کے سبزہ و گل کے ساتھ، اس کی حیوانی مخلوقات کے ساتھ جو سلک ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ استحصال کی ایک بڑی مثال ہے اور کچھ ایسے استحصالی گروہ ہیں جنہوں نے جیسے قسم کھائی ہے کہ پاکستان میں درخت نام کی شے کو پنپنے نہیں دیں گے۔ کتنے جنگلات صاف ہو چکے ہیں۔ کتنی شاہراہوں سے درخت اس طرح رخصت ہوئے ہیں کہ اب ان راہوں کے راہ گیر سائے کو ترستے ہیں۔ کسی بھلے شاعر نے کسی بھلے وقت میں یہ شعر لکھا تھا ؎

سفر ہے شرط مسافر نواز بُہتیرے

ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

گئے زمانوں میں تو واقعی یہی نقشہ تھا۔ ان زمانوں میں آج والی تیز رفتار سواریاں کہاں تھیں۔ تیز رفتار ہم نے غلط کہا اب تو برق رفتار سواریوں کا زمانہ ہے۔ مگر ان مسافروں کے لیے بڑا سہارا بیل گاڑی تھی۔ راستوں میں جابجا پہاڑ تھے، گھنٹے درخت تھے، آم کے، شیشم کے، پیپل کے۔ سب سے بڑھ کر برگد کے۔ اس کی گھنی چھائوں کی ٹھنڈک کا جواب نہیں۔ لیجیے اس پر بھی ایک شعر سن لیجیے ؎

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

درخت قطار اندر قطار، گھنی چھائوں جابجا، ان مسافر نوازوں کے سہارے کتنے لمبے لمبے سفر طے ہوتے تھے۔ اب موٹر سوار، مخلوق درختوں کی گھنی چھائوں سے بے نیاز اے سی والی گاڑیوں میں دوڑتی پھرتی ہے۔ پیدل مخلوق کے سروں سے درختوں کا سایہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ پیادے اور پرندے کہاں جائیں۔ جب درخت کٹتے ہیں تو کتنے آشیانے اجڑتے ہیں اور کتنے پرندے گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں پنجے ٹکائیں، کس شاخ پر بیٹھ کر چہچہائیں۔

یہ وہ مسائل ہیں جن کا شہری مخلوق کو احساس نہیں ہے۔ یہ مسائل کتنے سنگین ہیں، یہ ماحولیات کے ماہرین آپ کو بتائیں گے۔ مگر ماحولیات کے ماہرین آنے والے خطروں سے خبردار کرتے رہیں۔ ٹیکنالوجی کی مہیا کردہ سہولتوں سے استفادہ کرتی مخلوق کو کچھ دکھائی نہیں دیتا اور کچھ سنائی نہیں دیتا۔ مگر اب سے بہت پہلے ہمارے شاعر نے خبردار کیا تھا ؎

حذر اے چہرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں