چین کی کامیاب سفارت کاری

یقیناً وہ ہی قومیں یاد رکھی جاتی ہیں جو اپنے بل بوتے پہ پروان چڑھتی ہیں جس کی چائنہ ایک واضح مثال ہے


Editorial June 06, 2023
یقیناً وہ ہی قومیں یاد رکھی جاتی ہیں جو اپنے بل بوتے پہ پروان چڑھتی ہیں جس کی چائنہ ایک واضح مثال ہے۔ فوٹو:فائل

چین کے وزیر دفاع لی شان گفو نے ایشیا کے اعلیٰ سیکیورٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تنازع ایک ناقابل برداشت تباہی ہوگا لیکن ان کا ملک تصادم کے بجائے بات چیت کا خواہاں ہے۔

سنگا پور میں شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے مزید کہا کہ دنیا اتنی بڑی ہے کہ چین اور امریکا دونوں ایک ساتھ ترقی کرسکیں۔ نیٹو کی طرز کے اتحاد بنانے کی کوشش علاقائی ممالک کو اغوا کرنے اور تنازعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

درحقیقت چین نے تنازعات کو حل کرنے کے لیے جنگ و جدل یا جارحانہ رویے کو کبھی نہیں اپنایا ، نہ ہی کسی ملک میں مداخلت کی، بلکہ اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے مسائل اور تنازعات کا پر امن حل نکالا ہے۔

سنگا پور یا ماؤ کے علاقے واپس لینے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا اور اب تائیوان کے سلسلے میں بھی انتہائی تحمل و برداشت والا رویہ اپنایا ہے، حالیہ دنوں میں کامیاب سفارت کاری کی ایک بہترین مثال، دہائیوں سے تنازعات اور جنگوں میں الجھے ایران اور سعودی عرب کو مذاکرات کی میز پر اکٹھا کرنا ہے۔

چین نے گزشتہ چند عشروں میں عالمی سطح پر اقتصادی ، دفاعی اور سفارتی شعبوں میں جو مقام حاصل کیا ہے، اسے انٹرنیشنل ریلیشنز کی حالیہ تاریخ میں ایک معجزہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین کے سیاسی اور اقتصادی نظام کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے یہ حقیقت جھٹلا نہیں سکتے کہ چین اب دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔

افغانستان سے امریکا کا انخلا عالمی سطح پر اس کی ساکھ مزید خراب کرنے کا ذریعہ بنا ہے اور اس کی عالمی سطح کی برتری بہت حد تک ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کو بھی شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس کی علاقائی سطح کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے اور جنوبی ایشیاء میں اس کی برتری کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔

اس کا دعویٰ ہے کہ وہ عالمی سطح پر برتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے توازن قائم رکھنے میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے، اس سے بھارت کے ایسے تمام دعوے بالکل جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔

اسٹرٹیجک معاملات کے تناظر میں تو آج بھارت کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا اور یقینا اگلے بیس، تیس برس کے دوران بھی بھارت کا عالمی سیاست میں کوئی نمایاں کردار نہیں۔ عالمی سطح کی ری بیلینسنگ پاور بنانے کے لیے بھارت کو معاشیات ، اسٹرٹیجی اور ٹیکنالوجی تینوں محاذوں پرغیرمعمولی تنزلی کابھی سامنا ہے۔

تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں روسی قیادت نے حال ہی میں بڑی علاقائی طاقتوں سے گفت وشنیداور مشاورت کی مگر اس عمل میں بھارت کو قطعاً شریک نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ بھارت نے روس مخالف رویہ اپنایا ہے بلکہ اصل سبب یہ تھا کہ بھارتی قیادت نے امریکا نواز رویہ اپنا رکھا ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کس حد تک تنہا ہوچکا ہے۔ پاکستان ، چین اور روس نے مل کر افغانستان میں تعمیر ِنو، استحکام اور ترقی کے لیے بنیادی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں۔ مثلا ڈالرکا عمل دخل کم کر کے معاملات کو علاقائی کرنسیوں کی مدد سے طے کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ نیپال کی کوئی بھی سیاسی جماعت ملک بھر میں پائے جانے والے بھارت مخالف جذبات کے پیشِ نظر چین سے کیے جانے والے سمجھوتوں اور معاہدوں کو کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتی۔ یوں اب خطے میں بھارت کی برتری ختم ہوتی جارہی ہے اور چین کا معاشی غلبہ رہی سہی کسر نکال رہا ہے۔

چین نے ترقی کی منازل کسی ملک پر حملہ کر کے حاصل نہیں کیں، یہ سب شب و روز محنت، قابل ترین افراد کے چناؤ، عوام دوست پالیسیوں اور میرٹ پر عمل کا نتیجہ ہے۔

پچھلے چند عشروں میں چین نے دس کروڑ شہریوں یعنی امریکا کی ایک تہائی آبادی کے برابر افراد کو انتہائی غربت سے باہر نکالنے کا کرشمہ بھی کیا ہے۔

چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا دیگر 8 سیاسی جماعتوں کی مدد سے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، جہاں تک چین کی پولیٹبرو کا تعلق ہے تو اس میں شامل شخصیات گراس روٹ لیول سے تعلق رکھتی ہیں اور اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے سے پہلے وہ قصبے، شہروں اور صوبوں میں برسوں خدمات انجام دے چکے ہوتے ہیں۔

جب ہنری کیسنجر کے ذریعے چین اور امریکا کا 1972میں پاکستان نے تعلق قائم کرنے میں کردار ادا کیا تو چئیرمین ماؤ نے صدر نکسن پر واضح کیا تھا کہ اس پُل یعنی پاکستان کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، برسوں بعد چینی وزیراعظم اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی ملاقات ہوئی تواس وقت بھی امریکی صدر پر پاکستان کی اہمیت اجاگر کی گئی تھی۔

جب پاکستان لوڈ شیڈنگ کا بد ترین عذاب جھیل رہا تھا، صنعتکار بنگلادیش سمیت خطے کے دیگر ممالک میں صنعتیں منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے تو کسی مغربی ملک نے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی، چین آگے بڑھا اور اندھیرے اجالوں میں بدلے، اسی طرح سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی اقتصادی لائف لائن ہے۔

عظیم قوموں کے با ہمت اور باصلاحیت لوگ ہمیشہ محنت سے ترقی کے قائل رہے ہیں، ان کے نزدیک رات بھر میں امیر بننے کا خواب محض ایک ادھوری بات جانا جاتا ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ محنت سے آگے بڑھنے کو ہی اپنا وطیرہ بنائے رکھتے ہیں۔

ترقی کی اصل روح کو پہنچنے کے لیے لگ بھگ نصف صدی کا عرصہ چاہیے ہوتا ہے جس میں کسی ملک یا پھر قوم کی بہتری کا عمل پروان چڑھ سکتا ہے۔ یہاں ایک مثال چائنہ بھی ہے جہاں چند دہائیاں قبل لوگ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں وقت گزارنے پر مجبور تھے لیکن پھر اس ہی ملک نے معاشی اور اقتصادی اصلاحات لاکر اپنی قسمت ہی بدل ڈالی کہ آج وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔

چائنہ ہمیشہ نت نئی جدت اور اعلیٰ طرز معاشرت کا قائل سمجھا جاتا ہے جس نے ناصرف پوری دنیا میں اپنے نام کا لوہا منوایا ہے بلکہ کورونا جیسی عالمی وباء کے باوجود اپنی معاشی حالت کو پہلے سے زیادہ مستحکم کیا ہے۔

چائنہ معیشت کی شب و روز میں پنپتی ہوئی ترقی ملکی لیڈروں کی بہتر حکمت عملیوں کا آئینہ دار دکھائی دیتی ہے۔ چائنہ کی تاریخ میں جھانکا جائے تو ایک بڑا نام ڈینگ زیوفنگ دکھائی دیتا ہے جس نے ملکی ترقی کی داغ بیل رکھی۔

ڈینگ زیوفنگ 1976 میں ایک ملٹری کمانڈر اور لیڈر کی حیثیت سے ملکی ترقی کا سبب بنے۔ کمانڈر نے زراعت اور صنعت کے شعبہ میں کمال مہارت دکھائی اور مینجرز کی مدد سے اصلاحات کا آغاز کیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں سنگ میل کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔

چائنہ نے معاشی صورتحال کو بھانپتے ہوئے سب سے پہلے زراعت کے شعبہ کو چنا وہ جانتا تھا کہ بھوک و افلاس کے خاتمے کے لیے روزی روٹی کا بنیادی مسئلہ حل کرنا ہوگا، جس کے لیے کمانڈر نے زراعت میں جدت لانے کے لیے ایگریکلچر فارمنگ کا رجحان متعارف کروایا اور اس کام کے لیے دنیا بھر کے زرعی ماہرین مدعو کیے۔

یونہی شعبہ زراعت میں فارمنگ کے عمل سے کچھ ہی وقت میں نا صرف ملک میں درپیش خوراک کی کمی پوری ہو گئی جب کہ زراعت ملکی زرمبادلہ کا بہترین ذریعہ بھی بن گئی۔

ملکی پہیہ حرکت میں آنے کے بعد چائنہ کمرشل انڈسٹری پر دھیان دینا شروع کیا تو کپاس اگانا شروع کی جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ حرکت میں آگیا۔ کسانوں کو جدید زرعی آلات کی آگاہی کے لیے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کیے گئے۔

لوگوں کو روز گار دینے کے لیے دیہی علاقوں میں منی پروڈکشن یونٹس قائم کیے گئے جہاں زرعی آلات، بچوں کے کھلونے اور اسمارٹ فرنیچر کے کام کا آغاز کیا گیا۔

چائنہ میں اس طریق کار سے GPB 13% سے بڑھ کر 30% تک پہنچ گئی اور ملک ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہونے لگا۔1990 میں چائنہ نے جنوبی کوریا اور جاپان کو اپنی زمین اور سستی لیبر آفر کی تاکہ وہ چائینہ میں جدید ٹیکنالوجی کے یونٹس لگا سکیں کیونکہ چائنہ کو علم تھا کہ اس کے پاس اپنے لوگوں کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں لانے کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں تھا جس میں وہ خاطر خواہ کامیاب ہورہا تھا۔

پھر یونہی چین نے اسپیشل اکنامک زون بناکر دنیا کی بڑی کمپنیز کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمینٹ یونٹس لگوائے اور جب انٹرنیٹ ٹیکنالوجی آئی تو چائنہ نے اس ٹیکنالوجی کے سروس سیکٹر میں ٹریڈ اینڈ ریسرچ پر بلین ڈالرز خرچ کرکے اپنی قوم کو امیر ملکوں کی صف میں لاکر کھڑا کردیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کے GDP میں سروس سیکٹر کا حصہ 54% تک بڑھ چکا ہے۔

محنت کوئی بھی ہو اثر رکھتی ہے لیکن اگر محنت کا حصول مثبت ہو تو واقعی خوشحالی مقدر بن جاتی ہے۔ چائنہ اپنی دور اندیشی اور انتھک محنت سے دنیا بھر کو ہر میدان میں مات دے رہا ہے جب کہ ان دنوں اپنے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹس کی مدد سے پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جس سے وہ آنے والے دنوں میں مزید اوپر جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

یقیناً وہ ہی قومیں یاد رکھی جاتی ہیں جو اپنے بل بوتے پہ پروان چڑھتی ہیں جس کی چائنہ ایک واضح مثال ہے۔ محنت وہ واحد عمل ہے جس کا رشتہ کامیابی سے جڑا ہوتا ہے۔

چین نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے مندوب بھیج کر ان ممالک کی ترقی کا راز جانا تھا اور پھر کمیونسٹ پارٹی نے ایسا ماڈل تیار کیا کہ جس کی بنیاد عوام کی پسماندگی دور کرکے ان کا معیار زندگی بہتر بنانے پر رکھی، آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم چین کی ترقی سے سبق حاصل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں