بجٹ آزمائش ہے

بجٹ کی آمد آمد ہے جو اس بات کا عملی اظہار ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟


Editorial June 07, 2023
بجٹ کی آمد آمد ہے جو اس بات کا عملی اظہار ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجٹ 2023-24 کا محور، ترقی، عوامی فلاح اورکاروبار دوست پالیسیاں ہوں گی۔ بجٹ میں حکومت مشکل معاشی صورتحال کے باوجود موجودہ وسائل کو بہترین طریقے سے بروئے کار لانے کی پالیسی اپنا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ہنگامی منصوبہ کے حوالے سے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی کمرکس لیں گے اورکھڑے ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے خیالات صائب ہیں اور وہ بلاشبہ خلوص نیت سے بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے خواہش مند ہیں۔

معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی معاشی ٹیم کی کاوشیں لائق ستائش ہیں۔ حالیہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں نمایاں کمی حکومت نے کی ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہد ہ نہ ہونے کے باعث ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم ہیں۔

ویسے تو ہمارے ہاں بجٹ محض اعداد وشمارکا گورکھ دھندا ہوتا ہے،ایسی ایسی بقراطی جھاڑی جاتی ہے کہ کسی کو کم ہی سمجھ آتی ہے۔ بس جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ تنخواہوں میں کتنے فیصد اضافہ ہوا ہے اور کن کن اشیاء پر ٹیکس بڑھا دیا گیا۔

اخبارات بھی اُسی کی شہ سرخیاں نکالتے ہیں۔ اضافہ شدہ قیمتیں تو بجٹ کے پیش کرنے سے ہی بڑھ جاتی ہیں البتہ تنخواہوں میں اضافے کا آغاز یکم جولائی سے ہوتا ہے جو یکم اگست کی تنخواہ میں ملتا ہے ،اب معلوم نہیں وزیراعظم نے عوام کو ریلیف دینے کی جو ہدایت کی ہے اُس کا مطلب وزارت خزانہ نے کیا لیا ہے۔

حکمران طبقے کے دلائل اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں 'وہ جس قسم کی مالی اور معاشی مشکلات بیان کر رہے ہیں 'وہ بھی درست ہیں لیکن اگر تصویر کے دوسرے رخ کو غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ پاکستان کو درپیش مالی مشکلات کا ذمے دار بھی حکمران طبقہ ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو معاشی پالیسیاں تشکیل دی گئیں اور جو قوانین بنائے گئے ' ان میں متوازن ترقی کے اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔حکمران طبقے اور اس کے حاشیہ بردار طبقات سرکاری مراعات پرپلتے چلے آ رہے ہیں ' یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اگر حکمران طبقے اور ان کے حاشیہ بردار طبقے کی مراعات بند کر دی جائیں تو آج بھی معیشت کو ٹریک پر لایا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کو حاصل صوابدیدی اختیارات پر نظرثانی لازم ہو چکی ہے۔کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدیدار کو ایسے صوابدیدی اختیارات حاصل نہیں ہونے چاہئیں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو 'اپنے خاندان کواوراپنے دوستوں اور حواریوں کو مالی فوائد پہنچاسکیں'مثلاً مختلف ہاؤسنگ اسکیموں میں وزیراعظم یا وزراعلیٰ یا کسی سرکاری افسر کے لیے کوٹہ مقرر نہیں ہونا چاہیے۔

اسی طرح مشیر 'معاونین اور کوآرڈینیٹرز کے نام پر قومی خزانے سے بھاری رقوم ایسے افراد کی جیب میں چلی جاتی ہے جو کوئی پیداواری سرگرمی سرانجام نہیں دیتے ۔سرکاری افسروں' سرکاری خود مختار اتھارٹیز اور کارپریشنز اور اعلیٰ جوڈیشری کی تنخواہوں 'سہولتوں اور مراعات میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بہت سے ایسے سیکٹرز ہیں جنھیں ٹیکسز میں چھوٹ حاصل ہے 'ان پر بھی نظرثانی ہونی چاہییے۔

فلاحی اداروں 'مختلف قسم کے ٹرسٹ 'درگاہوں 'مزارات اور مدارس کا سالانہ بنیادوں پر آڈٹ لازم قرار دیا جانا چاہیے 'ان اداروں کو کہاں کہاں سے چندہ 'امداد' گرانٹ یا خیرات ملتی ہے 'ان سب کا اندراج ہونا چاہے 'یہ ادارے کن کن مدات میںاخراجات کرتے ہیں 'ان کی بھی مکمل تفصیلات تیار کرنا قانوناً لازم ہونا چاہیے۔ سرکاری زمینوں 'شاملاٹ زمینوں 'مختلف محکموں کی زمینوں کی الاٹمنٹ اور فروخت پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے۔

ان زمینوں کی دیکھ بھال سرکار خود کرے 'اسی طرح متروکہ املاک اور اوقاف کی زمینوں اور جائیدادوں کی لیز کا قانون تبدیل کیا جائے۔ ان زمینوں اور جائیدادوں کی دیکھ بھال بھی سرکار کی ذمے داری ہو اور یہ کسی بھی نجی شخص کو لیز یا فروخت کرنے پر مکمل پابندی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو عوام کی زندگی بجٹ کے بعد بھی اجیرن ہی رہے گی۔ ڈالر ہی حکومت کے قابو نہیں آ رہا، باقی کس کی بات کریں۔

اس ڈالر کی وجہ سے ہر شے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو نہیں رہا جب کہ حکومت نے آیندہ چند ماہ میں اربوں ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ خزانہ خالی ہے یہ تو ہمیشہ کہا جاتا ہے مگر اس بار تو عوام کی جیب بھی خالی ہے۔ اُن کے لیے صبح سے شام کرنا ایک مشکل امر بن کر رہ گیا ہے۔

آٹا جو کبھی غریب کی پہنچ میں ہوتا تھا اور وہ کم از کم اُس سے اپنا پیٹ بھر لیتا تھا، اب وہ بھی اُس کے لیے سونا بن گیا ہے۔ یہ سونا اُسے ہر روز خریدنا پڑتا ہے کہ پیٹ کا ایندھن تو بھرنا ہے۔ حکومت نے مفت آٹے کے جو تھیلے دیے تھے وہ کب کے ختم ہو چکے ہیں اب تو اُس آٹے کی قیمت بھی مہنگا آٹا خرید کر عوام ادا کر رہے ہیں۔

ان نمائشی اقدامات سے عوام اس لیے بے زار ہیں کہ اُن کی زندگی کی مشکلات میں کمی نہیں آئی ہے، انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ اچھے دن کیسے آئیں گے۔ اچھے دن تب آئیں گے جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور سیاسی استحکام اُس وقت آئے گا جب انتخابات ہوں گے، ملک میں انتشار ختم ہو جائے تو خوشحالی آ سکتی ہے۔

ادھر عالمی معیشت بھی اضطراب اور گرداب کا شکار ہے، پہلے تو کووڈ 19 کی تباہ کاریوں نے عالمی معیشت اور تجارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ابھی دنیا اس سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر پائی تھی کہ یوکرین، روس جنگ نے عالمی معیشت کو جکڑ لیا ہے، اس سے بھی اقوام عالم کے معاشی معاملات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

کوئی ملک بھی اس قابل نہیں رہا کہ وہ حالات کا رخ پھیر سکے۔ عالمی سیاست شدید گرمی و اضطراب کا شکار ہے سیاسی اضطراب نے معاشی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اور دونوں بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی بھی صورت نظر میں آ رہی ہے۔ دوسری طرف عالمی معیشت کا انجن، امریکا گمبھیر حالات کا شکار ہو چکا ہے۔

عالمی اور علاقائی سطح پر نئے نئے سیاسی اور معاشی اتحاد قائم ہو رہے ہیں، امریکی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ امریکا اس کی مسلسل تردید بھی کر رہا ہے لیکن امریکی عالمی برتری پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

ایسے حالات ہماری سیاست و معیشت پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ خطے میں امریکی و چینی مفادات ٹکرا رہے ہیں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ روز افزوں ہے ثمر آور ثابت ہو رہا ہے۔ سی پیک نے بھی خطے کی سیاست اور معیشت میں تلاطم برپا کر رکھا ہے۔

چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے، اسی میں عافیت و فلاح ہے لیکن اکثر ترقی پذیر ممالک اخراجات کے مطابق، آمدن والے طریقے پر منصوبہ بندی کرتی ہیں اخراجات کیونکہ آمدن سے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ٹیکس لگا کر آمدنی کا حجم بڑھایا جانا مقصود ہوتا ہے جس کے باعث عامتہ الناس پر بوجھ پڑتا ہے۔

ان کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ہم اکثر و بیشتر اخراجات کو سامنے رکھ کر آمدنی کا تخمینہ لگاتے رہے ہیں۔ ہم نے اخراجات کم کرنے یا ان پر گرفت کرنے کے بجائے آمدنی بڑھانے کی ترکیب استعمال کی ہے۔ ہمارے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ٹیکس اور قرض رہا ہے اس لیے آج ہم اس مقام تک پہنچ چکے ہیں، صورتحال تقریباً نا قابل برداشت ہوچکی ہے۔

عالمی قرضے ہوں یا اندرون ملکی قرضوں کا حجم، ہماری بساط اور اوقات سے ایک عرصہ ہوا تجاوز کر چکا ہے ۔

ٹیکسوں میں ہوشربا اضافے نے عوامی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پاکستان کے جاری سیاسی دنگل اور بے یقینی کا تعلق بھی اس بات سے ہے اور ہماری معاشی بدحالی بھی اسی فکر و عمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی پوزیشن کا تعین نہیں کیا ہے، ہم چینی گروپ کے ساتھ ہیں یا پہلے کی طرح امریکی اتحادی ہیں۔ ہم یہ بھی طے کر سکے ہیں کہ ہم دونوں کے ساتھ برابری کی سطح پر دوست اور حلیف ہیں لیکن اس پالیسی کو اپنانے کے لیے جو بنیادی عوامل درکار ہوتے ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔

ہمیں اپنی خارجہ پالیسی نئے ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی و معاشی تناظر میں طے کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنی قومی ترجیحات اور مفادات کا جائزہ لے کر ابھرتے ہوئے نئے تناظر میں فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم جس انداز میں چل رہے ہیں ہماری معیشت جس طرح قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے ،ہم عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں مسلسل بلیک میل ہو رہے ہیں اور آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار نہیں کر پا رہے ہیں۔ جس کے باعث ہمارے معاملات کسی بھی ٹریک پر چڑھتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

اب بجٹ کی آمد آمد ہے جو اس بات کا عملی اظہار ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ حکومت کی معاشی حکمت کاری ہمیں کہاں لے جاتی ہے؟ ویسے امید یہی ہے کہ ہم بغیر آئی ایم ایف کے بجٹ بنا کر اپنی قومی سلامتی کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

ہم سے کئی گنا کمزور ممالک آئی ایم ایف یا دیگر عالمی ساہو کاروں کی مدد کے بغیر بھی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہم سے کمزور ہونے کے باوجود ہم سے بہتر زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ بجٹ آزمائش ہے اورکامیابی کے لیے آزمائش شرط ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں