شاعری بھی صنفی امتیاز سے محفوظ نہیں
یہ درست ہے کہ نثر نگاری کے میدان میں خواتین بہت تیزی سے آگے نکل گئیں
ہمیں قبلِ مسیح میں یونان میں سیفوکا نام ملتا ہے۔ جسے ناقدین ادب ہومررکا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے زمانے کی بات کریں تو زلیخا، یوسف ؑ کی شان میں شعر کہتی نظر آتی ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں زواک شعرائے عرب میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔
امیمہ دختر جناب عبدالمطلب شعر کہتی تھی اور حضورؐ نے اپنے دادا کا مرثیہ اپنی پھوپھی کی زبان سے آٹھ برس کی عمر میں سنا۔ قتیلہ بنت نصر بن حارث کے اشعارکی داد آنحضرتؐ نے دی۔ خنسہ کا نام عربی ادب کے اہم ترین ناموں میں سے ایک ہے۔
مسیون والدہ یزید اپنے زمانے کی قادر الکلام شاعرہ تھیں۔ تاریخ میں بنت عتیق کے وہ اشعار محفوظ ہیں جو انھوں نے دربار یزید میں امام مظلوم کے سر کی آمد کے موقع پر برجستہ کہے۔ اسی طرح ہم انیسویں صدی کے ایران کی قرۃ العین طاہرہ کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کی شاعرانہ عظمت کے سامنے علامہ شبلی اور علامہ اقبال سر تسلیم خم کرنے کو سعادت خیال کرتے ہیں۔
یہ تو ہزاروں اور سیکڑوں برس پہلے کی باتیں ہیں لیکن بات جب اردو شاعری اور خواتین کے بارے میں کی جائے گی تو جس طرح ولی دکنی اردو کے پہلے شاعر ہیں۔ اسی طرح اردو کی سب سے پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ مہ لقابائی چندا دکنی کا نام آئے گا۔
اب ذرا چشم تصور کو وا کیجیے اور آج سے تین سو برس پہلے کے اس دور کا نظارہ کیجیے جب مغل سلطنت کا عروج کمال ہے۔ جبر اور حبس کے اس ماحول میں شہزادی زیب النسا مخفی سانس لے رہی ہے اور شعرکہہ رہی ہے۔
ترک اور ایرانی شہزادے اس کی علمی اور ادبی محفلوں میں حاضری دیتے ہیں اور دانش و بینش کے موتی چنتے ہیں۔
شہزادی صرف فارسی میں ہی مشق سخن نہیں کرتی، نئی نویلی اردو کو بھی نوازتی ہے۔ مشہور مستشرق اور فرانسیسی محقق گارساں دتاسی اور نواب نصیر حسین خیال اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ یہ شہزادی زیب النسا مخفی کے اشعار ہیں۔
آکر ہماری لاش پہ کیا یار کر چلے
خواب عدم سے فتنے کو بیدار کر چلے
شہزادی کا ہی ایک اور شعر آپ کی نذر ہے۔
کہتے ہو تم نہ گھر میرے آیا کرے کوئی
پر دل نہ رہ سکے گا بھلا کیا کرے کوئی
یہاں ان اشعارکو پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ ان کی سلاست اور اسلوب پر گفتگو کی جائے۔ مدعا صرف یہ بتانا ہے کہ آج سے تین سو برس پہلے ہماری خواتین نے اردو شاعری کی ابتدا کر دی تھی۔ اب یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ مردوں نے ان کی شاعری کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ یہاں پر ان بے نام و گمنام شاعرات کا تذکرہ بھی لازمی ہے جنھوں نے زبان و ادب کے ارتقا میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے اور گیت لکھے ہیں۔
یہ وہ دھنک رنگ گیت ہیں جو ہمارے موسموں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور ہماری تہذیبی روایات سے ہم آہنگ ہیں۔ عورت کے احساس جمال اور اس کے محسوسات کی سگندھ سے مہکتے ہوئے یہ گیت آج بھی ہمارے دیہاتوں اور قصبوں میں گائے جاتے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ برصغیر کی عورت نے گیتوں کے روپ میں امر شاعری کی ہے۔ بیلا بھی بویا چنبیلی بھی بوئی۔
میں نے بوئے ہزاروں پھول
اللہ تیری گلیوں میں برسے نور
یہ ایک اہم ادبی سوال ہے کہ شاعری میں عورت ہمیں ہر قدم پر موضوع شعر توبنتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن شعر موزوں کرتے ہوئے خال خال ملتی ہے۔ ہمارے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ عورت کے مزاج کی سریت، حسیت اور نرگسیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اصل دھارے سے کٹی ہوئی اور گھر کے آنگن تک سمٹی ہوئی اس کی زندگی نے اسے ان صد رنگ تجربات اور ہزارہا کیفیات سے دوچار ہی نہیں کیا کہ وہ شاعری کے آسمان پر کھل کر اُڑان بھرتی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مکتبہ فکر وہ بھی ہے جس کی نمایندگی ڈاکٹر عندلیب شادانی نے خوب کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اپنے جسمانی زور قوت کی بناء پر مرد نے عورت کو کبھی بھی اپنا ہم مرتبہ و ہم پلہ نہیں جانا اور اس کی ذہنی استطاعت اور تخلیقی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ چنانچہ عورت کی اکثر فطری صلاحیتیں بروئے کار نہ آنے کے سبب اور معطل رہتے رہتے ناکارہ ہوگئیں اور عورت زندگی کے کسی بھی شعبے میں کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکی۔
جیسا کہ پہلے عرض کرچکی ہوں اس گھٹی ہوئی غیرتخلیقی فضا کے باوجود چند عورتیں ایسی بھی تھیں جن کی طبیعتوں کا زور اور جوش طوفانی سیلاب کی مانند تھا جو متعدد مرتبہ مردوں کے تعصبات کی پیدا کی ہوئی تمام رکاوٹوں کو بہا لے گیا۔
کیسی کم نصیبی ہے کہ خدائے سخن میر تقی میر تذکرہ شعراء لکھتے ہیں لیکن اس میں کیس شاعرہ کا ذکر کرنا یا اس کا شعر نقل کرنا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی چہیتی اور خوش بیان اور قادرالکلام صاحبزادی بیگم بنت میر کا تذکرہ کرنا بھی عار سمجھا ہے۔ یہ وہی بیگم ہیں جنھوں نے کہا تھا
کچھ بے ادبی اور شب وصل نہیں تھی
ہاں یار کے رخسار پر رخسار کو رکھا
یہ نواب مصطفی علی خان شیفتہ ہیں جنھوں نے گلشن خار میں پہلی مرتبہ چند شاعرات کا ذکر کیا ہے اور ان کا نمونہ کلام بھی درج کیا ہے۔ اسی طرح مولوی عبدالحق غفور نساخ نے سخن شعراء میں شاعرات کو ایک علیحدہ تذکرہ بطور ضمیمہ شامل کیا ہے۔
شاعرات کا پہلا تفصیلی تذکرہ بہارستان ناز جسے حکیم محمد فصیح الدین رنج نے 159 برس پہلے تحریر کیا۔ 174 شاعرات پر مشتمل یہ کتاب 1864 میں پہلی مرتبہ میرٹھ میں چھپی۔ 1875 میں خواتین شاعرات کا دوسرا تذکرہ تذکرۃ النسا نادری منظر عام پر آیا جسے پنڈت درگا پرشاد نادر نے تحریر کیا۔
اس کے بعد خواتین شاعرات کے متعدد تذکرے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ ہمیں مغل شہزادیاں اور بیگماتِ اَودھ مشقِ سخن کرتی نظر آتی ہیں وہیں بالا خانے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور محلوں سے متعلق کنیزیں بھی اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کی زبان دیتی ہوئی ملتی ہیں۔
دوسری طرف ہماری ملاقات اردو میں شعرکہنے والی ان انگریز خواتین سے بھی ہوتی ہے جن کے کلام کی شیرینی دل موہ لیتی ہے۔ ان میں میری فلورینس شریر، عین ملکہ، مسز جسٹین جامیت اور کئی دوسری انگریز خواتین ہیں۔ عین ملکہ کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔
ہجر میں دل کو بیقراری ہے
جوش فریاد آہ وزاری ہے
آنکھیں پتھرا کے ہوگئی ہیں سفید
کیا کسی بُت کی انتظاری ہے
بیسویں صدی کے آغاز میں جہاں اور بہت سی قدیم وغلط مشرقی اقدار کو زمین بوس کیا وہیں عورتوں کی تعلیم اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی نمو کے بارے میں بھی لوگوں کے خیالات بدلنے لگے۔ یہ درست ہے کہ نثر نگاری کے میدان میں خواتین بہت تیزی سے آگے نکل گئیں اور اس میں انھوں نے مردوں سے اپنا لوہا منوایا لیکن شاعری میں بھی انھوں نے اپنے جوہر دکھانے میں کمی نہیں کی۔
یہ بیسویں صدی ہے جس میں ہمیں شہزادی تیمور جہاں حجاب، صفیہ شمیم ملیح آبادی، کنیز فاطمہ حیا، نجمہ تصدق، آمنہ عفت، رابعہ پنہاں، بلقیس جمال، عذرا جمال مخفی، زیب عثمانیہ، داراب بانو وفا، سعیدہ مظہر عروج اور دوسری بہت سی شاعرات کے نام ملتے ہیں۔
ان شاعرات کے کلام کا مطالعہ حیران کردیتا ہے اور ناقد کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہمارے بعض ناقدین نے شاعرات کے ساتھ ابھی تک نہایت تعصب کا برتاؤ کیا ہے۔ بطور خاص نجمہ تصدق اوررابعہ پنہاں کے جن کے نام سے آج کم کم لوگ ہی واقف ہیں۔ ان کا وفور اور تنوع عروج پر نظر آتا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں اردو شاعری کے منظر نامے پر متعدد شاعرات تیزی سے ابھری ہیں اور ان میں سے ادا جعفری، ممتاز مرزا، زہرا نگاہ، کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، شاہدہ حسن، نور جہاں ثروت، زہرا نسیم، سارہ شگفتہ، نسیم سید، فاطمہ حسن اور عشرت آفریں وہ چند نام ہیں جن کے بغیر اردو شاعری کی جدید تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ بھی متعدد خواتین شعر کو وسیلہ اظہار بنا رہی ہیں اور مضبوط بنیادوں پر اپنا قامت نکال رہی ہیں۔ اب رہا سوال خواتین شاعرات پر مشتمل خصوصی مشاعروں کا تو یہ ہماری ایک پرانی روایت ہے۔ ہمیں مختلف کتابوں میں ایسے متعدد حوالے ملتے ہیں جن میں تیموری خواتین اور بیگمات ِاودھ زنانہ مشاعرے منعقد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
گزشتہ نصف صدی میں بھی شہر شہر خواتین کے مشاعرے ہوئے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں۔ بات چونکہ خواتین کے مشاعروں کی چل رہی ہے، توقع کی جانی چاہیے کہ شاعرات کی نئی نسل اپنے اندر وہ نظر پیدا کرے گی جو مکاں و لامکاں کی سرحدوں سے پرے جاتی ہے اور جس میں عشق ذات عشق کائنات کا رنگ اختیار کرلیتا ہے۔