جب میرے خلاف توہینِ عدالت کا کیس چلایا گیا آخری قسط

اعتزاز صاحب کو فون کیا تو کئی منٹ تک میرے دلائل اور ادائیگی کی تعریف کرتے رہے، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا


[email protected]

اب کیس کی تیاری کے لیے باقاعدہ ایک لیگل ٹیم مقرر کردی گئی، جس نے اُس توہین آمیز رویے اور ان ریمارکس کے بارے میں ریکارڈ اکٹھا کرنا شروع کردیا جس میں چند منصفین، عدالت میں سول سرونٹس کے ساتھ ایسی زبان استعمال کرتے رہے جو منصبِ قضاء کو زیب نہیں دیتی اور جو misconduct کے زمرے میں آتی تھی ۔

لیگل ٹیم نے اس نوعیت کے اخباری تراشے کافی تعداد میں اکٹھے کرلیے جس میں سینئر پولیس افسروں کو بھری عدالت میں کہا جاتا رہاکہ ''تمہاری ادھر ہی وردی اتروا دوںگا۔'' ''تمہاری پیٹی اتروادوںگا۔'' ''تمہیں افسر کس نے بنایا ہے'' وغیرہ وغیرہ۔

جن دنوں میں کسی وکیل کی تلاش میں تھا، انھی دنوں ڈی آئی جی طارق کھوسہ صاحب کے کہنے پر میں ان کے وکیل بھائی آصف کھوسہ صاحب (جو بعد میں چیف جسٹس بھی بنے) سے ملا۔ وہ بھی یہی کہتے رہے کہ الزام الہیہ کا موقف سو فیصد درست بھی ہو تب بھی عدالت اسے سزا دے سکتی ہے، اس لیے معافی ہی بہتر آپشن ہے۔

میں نے انھیں صاف بتادیا کہ یونیفارم فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے میں معافی ہرگز نہیں مانگوں گا۔ بہرحال آصف صاحب ایک پیشی پر عدالت میں آتو گئے مگر خاموش کھڑے رہے، میں سمجھ گیا کہ وہ توہینِ عدالت کے ملزم کا دفاع کرنے سے گریزاں ہیں، اس لیے میں نے انھیں دوبارہ زحمت نہ دی۔

اس کے بعد میں سینئر قانون دان محترم ایس ایم ظفر صاحب سے ان کے گھر پر ملا ۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا ''کیس لڑنا ہے یا معافی مانگنی ہے؟'' میں نے کہا ''پولیس فورس کی عزت کے لیے آواز اُٹھائی ہے، اگر بیان واپس لے لوں یا معا فی مانگ لوں تو پھر مجھے اس فورس کو کمانڈ کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔'' ظفر صاحب میرا جواب سن کر کہنے لگے ''آپ سے یہی امید تھی، اب میں آپ کی وکالت ضرور کروںگا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ میری فیس ادا نہیں کرسکتے، اس لیے میں آپ سے کوئی فیس نہیں لونگا''

میرے معافی نہ مانگنے اور اسٹینڈ لینے پر پولیس کا مورال بلند ہوا اور میڈیا اور قانونی حلقوں میں بھی اس کو سراہا جانے لگا۔ عدالت سے باہر کی فضا تیزی سے بدلنے لگی اور ماحول الزام الیہہ کے حق میں ہوتا گیا۔ اس کے بعد اگلی تاریخ پر اندازہ ہوگیا کہ اب جج صاحبان کیس ختم کرنے کے لیے باعزت راستے کی تلاش میں ہیں۔

اس ضمن میں میں نے خود عدالت کی مدد کی اور ایس ایم ظفر صاحب کو روسٹرم پر لے آیا۔ پہلے تو انھوں نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا ہر شہری کا حق ہے، اس سے عدالت کی توہین کیسے ہوگئی؟ اس پر جج صاحبان نے کہا کہ ''ہمارا تو خیال تھا کہ آپ ہمارے اور بزرگ قانون دان کی حیثیت سے عدالت کی معاونت کریں گے اور کوئی حل نکالیں گے۔'' اس پر شاہ صاحب نے عدالت سے کہا کہ ''اگلی تاریخ پر اس کا حل نکال لیں گے۔'' شام کو ایس ایم ظفر صاحب کے دفتر میں میٹنگ ہوئی، انھوں نے اپنے ہاتھ سے اردو میں تین سطروں پر مشتمل ایک تحریر لکھ کر میری جانب بڑھادی۔

مجھے یاد ہے کہ ایک یا دو لفظوں کو میں نے تبدیل کیا اور ان کے متبادل الفاظ تجویز کیے جن سے شاہ صاحب نے اتفاق کیا۔ اگلی تاریخ پر ایس ایم ظفر صاحب نے بے ضرر سے الفاظ پر مشتمل میرا بیان داخل کیا جس میں معافی کے بجائے افسوس کا اظہار کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کیس ختم ہو گیا۔ میں کمرۂ عدالت سے باہر نکلا تو ہائیکورٹ بار کے صدر چوہدری اشرف صاحب میرے انتظار میں کھڑے تھے۔

کہنے لگے ''پولیس یا سول انتظامیہ کے کسی افسر کو کبھی اتنے باوقار انداز سے توہینِ عدالت کا کیس لڑتے نہیں دیکھا، آپ نے تو ہمارے بھی دل جیت لیے ہیں۔ اگر ہمارے پاس چائے پی کر جائیں تو بہت خوشی ہوگی۔''

میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ ہائی کورٹ بار میں چائے پیتے ہوئے میں نے ایس ایم ظفر صاحب کے لیے سپاس گزاری کا اظہار کیا تو کہنے لگے ''وہ سب ٹھیک ہے مگر توہینِ عدالت کا کیس کسی وکیل کی قابلیت کی وجہ سے نہیں، آپ کی اچھی شہرت کی وجہ سے ختم ہوا ہے، آپ کا سب سے بڑا defence آپ کا کردار اور دیانتداری ہے، جج صاحبان سرکاری افسروں کی شہرت دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں''۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے اس ناچیز کو ایک بڑی آزمائش میں سرخرو کیا، جس سے پولیس کا مورال بھی بہت بلند ہوا۔

توہینِ عدالت کے کیسوں کی بات چل نکلی ہے تو میرے خلاف اسی نوعیت کے ایک اور مقدمے کی روداد بھی سن لیں۔ یہ 2009 کی بات ہے جب میں گوجرانوالہ ڈویژن میں پولیس کا سربراہ تھا، میں نے اپنے آبائی ضلع میں تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تو وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب نے کہا ''دیکھیں گوجرانوالہ کراچی بنا ہوا ہے۔

ہر روز لوگوں کو تاوان کے لیے اغواء کیا جاتا ہے اور ہر کھاتے پیتے گھر میں بھتے کی پرچیاں بھیجی جارہی ہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں کہ وہ آپ کا ہوم ڈسٹرکٹ ہے، ہم نے امن و امان کی بدترین صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے آپ کو تعینات کیا ہے''۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو واقعی گوجرانوالہ انتہائی خطرناک مجرموں کا گڑھ بنا ہوا تھا، ایک بڑا مجرم، جس کا نام سن کر ممبرانِ اسمبلی بھی کانپتے تھے۔

بیرونِ ملک فرار ہوچکا تھا مگر وہ باہر بیٹھ کر بھی اپنے کارندوں کے ذریعے آپریٹ کرتا تھا، بھتے کی پرچیاں بھیجتا تھا اور اگر کوئی بھتے کی رقم پہنچانے میں تاخیر کرتا تو رات کو اس کے گھر پر فائرنگ ہوجاتی تھی، اس کی تلاش میں ہماری اسپیشل ٹیمیں ملک کے ہر شہر میں پھرتی رہیں، وہ کہیں ہاتھ نہ آیا تو اسپیشل ٹیمیں بیرون ممالک بھیجی گئیں، جہاں سے وہ خود تو نہ ملا مگر مفید معلومات مل گئیں، جن کی مدد سے وہ بالآخر ملائیشیا کے ایک سیاحتی جزیرے سے پکڑا گیا(اس کی تفصیل پھر کبھی تحریر کروںگا)۔ گوجرانوالہ لاکر اسے ہائی سیکیورٹی زون میں رکھا گیا اور سیکیورٹی کی ذمے داری سینئر افسران کے سپرد کی گئی۔

ایس پی سی آئی اے کو اس کی انٹیروگیشن کا ٹاسک سونپا گیا ۔ انٹیروگیشن میں اس نے کچھ تہلکہ خیز انکشافات بھی کیے۔ انھی انکشافات میں اُس نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج (جو ریٹائر ہوچکے ہیں) کے ساتھ اپنے تعلقات کا تفصیلی ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ مذکورہ جج صاحب دبئی میں اس کے مہمان بھی رہے تھے۔

یہ حقائق انتہائی خوفناک بھی تھے اور تشویشناک بھی۔ اگر اس لَیول کے مجرم کا عدالتِ عالیہ کے کسی جج سے ذاتی تعلق ہوگا تو پھر ان پر کون ہاتھ ڈالے گا اور جرائم کیسے کنٹرول ہوںگے۔ بہرحال میں نے انٹیروگیشن رپورٹ لفافے میں بند کی اور سربمہر لفافہ مناسب کاروائی کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو پہنچادیا۔

اس کے چند دنوں بعد معروف اور نیک نام صحافی انصار عباسی نے انگریزی روزنامے میں اس رپورٹ کے کچھ مندرجات شایع کردیے۔ جن میں مذکورہ جج کا ذکر بھی تھا، موصوف بڑے بااثر تھے لہٰذا انھوں نے ہائی کورٹ کی طرف سے مجھے، اخبار کے رپورٹر اور چیف ایڈیٹر کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کرا دیے، کیس کی سماعت کے لیے پانچ جج صاحبان پر مشتمل فل بنچ تشکیل دے دیا گیا۔

میں مقررہ تاریخ پر لاہور ہائیکورٹ کے مخصوص کمرۂ عدالت میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اخبار کے چیف ایڈیٹر اور رپورٹر کے دفاع کے لیے معروف وکیل اعتزاز احسن صاحب آئے ہوئے ہیں۔پانچوں جج صاحبان (جن میں ثاقب نثار صاحب، آصف کھوسہ صاحب اور عظمت سعید صاحب بھی شامل تھے) اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو میں بھی پچھلی نشست سے اُٹھ کر روسٹرم پر چلا گیا۔

اعتزاز احسن صاحب نے جاتے ہی درخواست کی کہ کیس کی تیاری کے لیے وقت درکار ہے، لہٰذا دو تین ہفتے کی تاریخ دے دی جائے۔ جج صاحبان نے پوچھا کہ سارے ملزمان تاریخ لینا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا ''نہیں سر! میں اپنا موقف آج ہی پیش کرنا چاہتا ہوں''۔ اعتزاز صاحب نے مجھے کہا کہ'' بہتر ہے تاریخ لے لیں اور اگلی تاریخ پر کوئی وکیل engage کرلیں'' مگر میں اسی روز اپنا موقف پیش کرنے پر مصر رہا جس کی جج صاحبان نے اجازت دے دی۔

میں نے عدالتی زبان یعنی انگریزی میں پندرہ بیس منٹ تک اپنا موّقف پیش کیا کہ میں نے جو آپشن استعمال کیا ہے، اس میں عدالت یا عدلیہ کی توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ جج صاحبان نے میری گذارشات مکمل خاموشی سے سنیں اور ایک بھی سوال نہ کیا۔ کیس ملتوی ہوگیا اور میں وہاں سے کسی عزیز کے پاس چلا گیا۔

اس دوران میرے فون پر بار بار گھنٹیاں بجتی رہیں، دیکھا تو انصار عباسی صاحب کی کالیں تھیں، میں نے فون ملایا تو کہنے لگے اعتزاز احسن صاحب آپ کے دلائل سن کر بڑے متاثر ہوئے ہیں، اسی لیے وہ آپ کو ڈھونڈتے رہے ہیں، آپ ان سے فون پر بات کرلیں۔

اعتزاز صاحب کو فون کیا تو کئی منٹ تک میرے دلائل اور ادائیگی کی تعریف کرتے رہے، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے کئی سالوں بعد کیس کی سماعت ہوئی اور جسٹس منصور علی شاہ نے میرا موقف تسلیم کرکے کیس خارج کر دیا۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر سرخرو فرمایا۔

ان واقعات میں آج کے سول سرونٹس کے لیے پیغام یہ ہے کہ اگر آپ رزقِ حلال پر قناعت کرتے ہیں، آپ کا دامن صاف ہے اور نیّت میں اخلاص ہے تو رب ذوالجلال کی مدد آپ کے ساتھ رہتی ہے اور آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں