توانائی بچت منصوبہ
اس کی بڑی وجہ عدم ادائیگی اور پرانا ترسیلی نظام ہے جو ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا
قومی اقتصادی کونسل نے توانائی بچت منصوبے کے تحت یکم جولائی سے ملک بھر کی مارکیٹس رات آٹھ بجے بند کرنے کی منظوری دے دی۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ صوبے مارکیٹس بند کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔
کونسل نے آیندہ مالی سال کے لیے 2709 ارب روپے کے نظر ثانی شدہ ترقیاتی بجٹ کی بھی منظوری دی۔ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا۔
ملک ایک عرصے سے توانائی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے توانائی بچت پروگرام کا ڈول ڈالا ہے، اس سلسلے میں حکومت کی معاونت دراصل ملک کو توانائی بحران سے نکالنے میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
بظاہر توانائی بچت منصوبہ وقت کی ضرورت محسوس ہوتا ہے، کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے توانائی کا شعبہ بہت زیادہ خسارے کا شکار ہے۔ اس کے پس منظر میں موجود وجوہات جن میں حکومتی سطح پر عدم دلچسپی، ملک میں موجود قدرتی ذرایع کے بجائے مہنگے تیل سے بجلی پیدا کرنا ، چوری اور محکمانہ لوٹ کھسوٹ سے صرف نظر نہیں کی جا سکتا ہے۔
یہ بھی المیہ ہے کہ توانائی جیسے تکنیکی شعبوں میں فیصلہ سازی کے عمل میں نان پروفیشنل اربابِ اختیار شریک ہیں کہ ابھی تک گردشی قرضوں اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔
اس کی بڑی وجہ عدم ادائیگی اور پرانا ترسیلی نظام ہے جو ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
حکومت نے دن کی روشنی کا فائدہ اٹھانے اور توانائی بچت مہم کا جو فیصلہ کیا ہے، حکومت کے توانائی بچت پروگرام کے حوالے سے دو طبقات کی مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں، ایک طبقے کے مطابق ہمیں اپنے معمولات میں تبدیلی لانی ہوگی کہ ہماری عادات باقی دنیا سے بڑی مختلف ہیں۔
یہاں تو اب تاجر طبقہ کو مارکیٹ آٹھ بجے بند کرنے کا اقدام اس لیے گوارا نہیں کہ وہ رات گئے تک اپنا کاروبار چلائے رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، وہ جلد سونے اور جلد جاگنے کے عادی ہی نہیں رہے اور نہ ہی اس کے فوائد پر کبھی غورکیا ہے۔
رات کو دیر تک کاروباری مراکز کھلنے رہنے کی وجہ سے سڑکوں پرگھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے، جس کی وجہ سے گاڑیوں کے ایندھن کا لاکھوں روپے کا ضیاع ایک وقت میں ہوتا ہے، کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے مریضوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں، اور بعض ایسے دل سوز واقعات بھی رونما ہوئے جس میں مریض نے ایمبولنیس میں دم توڑ دیا۔
ہمارا طرز زندگی پوری دُنیا سے الگ ہے، دُنیا میں ہر جگہ کاروباری مراکز اور دفاتر بند ہونے کا ایک مقررہ وقت ہے لیکن یہاں کا معمول بالکل مختلف ہے۔
دوسرے طبقے کی رائے میں کاروبار آٹھ بجے بند کرنے سے تاجروں کو معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔بہت سے لوگ سرکاری یا پرائیویٹ اداروں سے فارغ ہونے کے بعد اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں۔
رات جلد دکانیں بند کرنے سے ایسے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے اور ان کے لیے گھریلو معاشی مسائل حل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو اس کے پیداواری منصوبے بنانا چاہیے ناکہ کاروبار جلد بند کرکے معاشی سرگرمیاں کمزور کرنی چاہیے۔
پانی جیسے قدرتی وسیلہ سے جہاں ہم ڈیم نہیں بنا رہے وہاں پورا سال مفت دستیاب سورج کی روشنی سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔ ہمیں تو تیل و گیس کے شعبہ میں کم ہوتے ہوئے مقامی ذخائر کا بھی سامنا ہے، اگرچہ تیل و گیس کے ذخائر کی قلت نہیں مگر اس کی تلاش میں فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
مُلک میں ڈیم کی تعمیر مفاداتی سیاست کی نذر ہونے، اداروں کی غفلت اور نان پروفیشنل بیوروکریسی کی نااہلیت کے نتیجہ میں یہ توانائی کا بحران پیدا ہوا جب کہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر بجلی اور گیس کے استعمال نے بھی اس میں خوب اضافہ کیا۔
عوام کو توانائی کے اس بحران سے نکالنے کے لیے وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کی معاونت انتہائی ضروری ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ اس قومی مسئلہ پر بھی سیاست ہو رہی ہے، تاجر طبقہ نے بھی اس بچت مہم کی مخالفت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے، یقیناً اس سے مُلک میں مزید انتشار پیدا ہو گا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ مُلک میں کسی حکومت نے توانائی بچت کا کوئی منصوبہ بنایا ہو ۔توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دکانیں جلد بند کرنا اس کا کوئی مستقل حل نہیں۔ملک کے تمام سرکاری اداروں کے لیے بجلی کے معیاری پنکھے، ایل ای ڈی بلبز اور توانائی کے مؤثر آلات کی خریداری کا پلان بنایا گیا مگر تاحال اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا۔
زیادہ بجلی استعمال کرنے والے بجلی بلب کی پیداوار کی حوصلہ شکنی کے لیے ٹیکس متعارف نہیں ہوئے، توانائی بچت کے لیے ہاؤسنگ کے شعبے میں نئے بائی لاز کے معاملے پر بھی کوئی پیشرفت نظر نہیں آرہی جہاں ایک برس میں توانائی بچت پلان سے 2 سو ارب روپے کی بچت ہونا تھی وہیں پاور بریک ڈاؤن سے صرف ایک روز میں 100 ارب روپے تک زائد کا نقصان ہوگیا۔
رواں برس ماہ فروری میں ملک بھر میں موجود تمام شادی ہالز اور ریستوران رات ساڑھے 10 بجے جب کہ ملک بھر کی مارکیٹس ساڑھے 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ،جس سے 62 ارب روپے بچت کا تخمینہ لگایا گیا تھا مگر صوبوں میں تو درکنار چند کلومیٹر کے وفاقی دارالحکومت میں ہی یہ فیصلہ نافذ العمل نہیں ہوا تھا۔
بجلی سے چلنے والے غیر موثر پنکھوں کی پیداوار یکم جولائی کے بعد روکنے اور غیر موثر پنکھوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 15 ارب روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا، نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی نے غیر معیاری اور غیر موثر پنکھوں کی روک تھام کے لیے پلان تیار کر لیا ہے جس کے مطابق 3 کروڑ صارفین کو آسان اقساط پر پنکھے دیے جائیں گے مگر پہلے سے موجود زیر استعمال کروڑوں پنکھوں کا استعمال کیسے رکے گا یہ واضح نہیں۔ موجودہ وقت میں پاکستان کا توانائی کا شعبہ پٹرولیم مصنوعات اور مایع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسائل کا شکار ہے، جب کہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔
توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل میں پانی سے بجلی پیدا کرنے پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرایع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا ضایع ہونا، بجلی کی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں کرپشن کی بھر مار ہے۔
اکثر ماہرین کے خیال میں اس وقت پاکستان کو آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جا رہا ہے، کیونکہ ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو تیل و گیس کے شعبے میں تیزی سے گرتے ہوئے مقامی ذخائر کا سامنا ہے۔
پاکستان میں سالانہ 9 فیصد ذخائر میں کمی ہورہی ہے جب کہ تیل و گیس کی تلاش کا کام اس تیزی سے نہیں ہورہا ہے۔ اب تک صرف 20 فیصد تیل و گیس کی تلاش کا کام ہوا ہے۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں بلند پہاڑوں کے علاوہ وادیاں اور میدانی علاقے بھی موجود ہیں۔ ملک کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے پانیوں کے جھرنے دریاؤں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے جنوب میں واقع بحیرہ عرب کی آغوش میں جا گرتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کی فراوانی ہے،ماہرین کے خیال میں پاکستان کے فیصلہ سازوں نے وافر مقدار میں پانی کی موجودگی اور اس سے بجلی بنانے کی استعداد کے باوجود گیس اور تیل سے برقی توانائی پیدا کرنے کی طرف جا کر ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔
پاکستان میں پانی سے دو لاکھ میگا واٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے، جسے مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیا گیا۔ہماری توانائی کی پیداوار پر دباؤ کم کرنے کے لیے حکومت کو بڑے گھروں میں لازمی شمسی توانائی یونٹ لگانے پر زور دینا چاہیے، اگر ضرورت ہو تو اس کے لیے مناسب قانون سازی پر بھی غور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ گھریلو توانائی کا زیادہ استعمال بڑے گھروں میں ہوتا ہے تو ان کا شمسی توانائی استعمال کرنا ہمارے قومی گرڈ پر دباؤ کم کرسکتا ہے۔
اسی طرح چھوٹے گھروں کے لیے شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے بینکوں سے آسان اقساط اور کم شرح سود پر قرضے دیے جا سکتے ہیں۔ شمسی توانائی کے سستے حصول کے لیے سولر پینلز اور بیٹریوں پر کچھ عرصے کے لیے کسی قسم کے محصولات پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر، تیل کی بہت بڑی درآمد پر خرچ ہو رہے ہیں۔
اس میں کمی لا کر زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کیا جا سکتا ہے۔ انتظامی معاملات میں صوبے آئینی طور پر وفاقی حکومت کے فیصلوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
اس لیے سیاسی مخالفت سے گریز کرنا چاہیے اور توانائی کے سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن معاونت کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے ماہرین اور پیشہ ور انجینئرز کی خدمات حاصل کر کے توانائی کے بحران کا حقیقی حل نکالے اور مستقل بنیاد پر منصوبہ بندی کرے۔