سانحہ 9 مئی …قانون اپنا راستہ بنائے

9مئی کے واقعات میں ملوث شرپسندوں کو کسی قسم کی بھی رعایت نہیں ملنی چاہیے


Editorial June 09, 2023
9مئی کے واقعات میں ملوث شرپسندوں کو کسی قسم کی بھی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس نے سانحہ 9 مئی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی۔

جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو قومی سلامتی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

کانفرنس کے شرکاء نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی حراست میں تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کے بے بنیاد الزامات کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا اور مسلح افواج کو بدنام کرکے مذموم سیاسی مفادات کا حصول ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ ملک دشمن عناصر اور ان کے حامی، جعلی اور بے بنیاد خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے معاشرتی تفرقہ اور انتشار پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، قوم کے بھرپور تعاون سے تمام تر ناپاک عزائم کو انشاء اللہ ناکام بنایا جائے گا۔

فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پروان چڑھانے اور ملک میں افراتفری پھیلانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت پرزور دیا۔ کانفرنس کے شرکا نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان واقعات کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔

شہدا کی یادگاروں، جناح ہاؤس کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت، جو کے آئینِ پاکستان کے تحت ہیں، جلد انصاف کے کٹہرے میں لا کر کیفرِ کردارتک پہنچایا جائے۔

آرمی چیف نے کہا کہ بگاڑ پیدا کرنے اور انسانی حقوق کی فرضی خلاف ورزیوں کے پیچھے پناہ لینے کی تمام تر کوششیں بے سودہیں۔ کثرت سے جمع کیے گئے ناقابلِ تردید شواہد کونہ جھٹلایا اور نہ بگاڑا ہی جا سکتا ہے۔

فارمیشن کمانڈرز کانفرنس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مخالف قوتوں کے ناپاک عزائم کو مکمل طور پر ناکام بنانے کی راہ میں کسی بھی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور ابہام پیدا کرنے کی کوششوں کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، افواجِ پاکستان، ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی۔

9مئی کو جو کچھ ہوا ' اس کے مناظرسب نے دیکھے ہیں ' جن لوگوں نے اس دوران جو کچھ کیا ان کے تمام ''کارنامے'' کیمرے کی آنکھ نے دیکھے اور انھیں محفوظ کر لیا ۔ اب اس حوالے سے مختلف قسم کی تاویلات پیش کرنا 'گناہ عذر بدتر گناہ کے مترادف ہے ۔

فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے جو کچھ کہا اور جن چیزوں کی ضرورت پر زور دیا ہے 'وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

پاکستان کی کسی بھی جماعت کو ملک کا آئین اور قانون گھیراؤ جلاؤ کی اجازت نہیں دیتا ' شرپسندی 'تخریب کاری اور دہشت گردی کو جتنے مرضی محفوظ الفاظ کا جامہ پہنایا جائے ' ان کارناموں کو کسی بھی طرح جائز ہونے کی سند نہیں مل سکتی ۔

ذرا سوچیے !بھارت میں کوئی سیاسی جماعت انڈین آرمی کے دفاتر اور ان کے افسروں کی رہائش گاہوں کے سامنے مظاہرے کر سکتی ہے ؟کیا بھارت کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے ؟کیا بھارت کی کوئی سیاسی جماعت انڈین آرمی کی تنصیبات میں جا کر وہاں لوٹ مار اور گھیراؤ جلاؤ جیسے اقدامات کر سکتی ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت میں کسی سیاسی جماعت کی قیادت ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔

دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ' افغانستان میں کوئی گروپ کسی طالبان کمانڈرکی رہائش گاہ یا طالبان کی فوجی تنصیبات کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کر سکتا ہے 'اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے عبرت کا نشان بنانے میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں لگائی جائے گی۔

طالبان نے تو ان خواتین پر بھی شدید تشدد کیا جو تعلیم اور روز گار کا حق مانگنے کے لیے سڑکوں پر آئیں تھیں۔پاکستان میں آئین اور قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے والے ایک خود سر اور شرپسند گروہ نے اپنے ہی ملک کی فوج کے شہداء کی یاد گاروں کے ساتھ جو سلوک کیا 'اسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی 'بھارت کے ریٹائرڈ فوجی افسر بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جو لوگ اپنے ملک کے شہداء کی عزت و تکریم نہیں کرتے 'ان کا اس ریاست کا شہری ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی امور میں مداخلت کرنا 'ایک الگ معاملہ ہے 'سیاسی قیادت اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے اور اس پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے لیکن ملک کی سیکیورٹی فورسز میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کرنا 'سیکیورٹی اداروں میں گروہی 'لسانی اور صوبائی تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش کرنا 'اسے کسی طرح بھی سیاست کا نام نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملہ میں مداخلت کرتی ہے اس لیے یہ کسی جماعت کے حامیوں کا ردعمل ہے۔

یہ دلیل کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچ کا علمبردار قراردے اور باقی ملک کو کرپٹ قرار دے کر سیاست کرے ' سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور پروگرام پر سیاست کرتی ہیں۔ سیاسی لیڈر اپنے فکر و فلسفے میں واضح ہوتا ہے۔

سیاسی قیادت کا پہلا کام ملک کے آئین اور قانون کو سمجھنا 'ملک کے ایڈمنسٹریٹو ڈھانچے کو سمجھنا اور اسے بہتر بنانے کے لیے متبادل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ہر سیاسی پارٹی اور اس کا قائد اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔

یہ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ سیاسی ورکر کوئی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت میں ملوث نہ ہو 'لیکن پاکستان میں ایسا نہیں کیا جاتا 'ٹاپ سیاسی قیادت 'جوشیلی تقریریں کرنے کو سیاست سمجھتی ہے۔

اپنے مدمقابل کی توہین کرنا 'ان کی عزت کو اچھالنا اور عوام کو جھوٹے وعدے کی سرخ بتی کے پیچھے لگائے رکھنا ' اپنی پارٹی کا منشور سمجھتی ہے 'سیاسی قیادت اگر شعور کا مظاہرہ کرے تو اسٹیبلشمنٹ یا نوکر شاہی اور جوڈیشری کسی صورت بھی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔اب وقت آ گیا ہے کہ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچایا جائے۔

9مئی کے واقعات میں ملوث شرپسندوں کو کسی قسم کی بھی رعایت نہیں ملنی چاہیے 'یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ جو لوگ کیمروں کے سامنے آ کر جلاؤ گھیراؤ کرتے رہے ہیں ' صرف انھی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہیے بلکہ انھیں ایسا کرنے پر اکسانے والوں' منصوبہ بندی کرنے والوں 'ان کے سرپرستوں ' سہولت کاروں اور مخبروں کا قلع قمع کرنا بھی ضروری ہے ۔

پاکستان کا نظام اب مزید سانحے برداشت نہیں کر سکتا ۔ جو طبقہ ریاست کے فوائد سمیٹ رہا ہے ' لازم ہے کہ اس طبقے پر پوری قوت کے ساتھ آئین و قانون کا نفاذ بھی کیا جائے ' غیرملکی شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں حتمی فیصلے کی ضرورت ہے' یہ مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان میں جرائم کرنے والے غیرملکی شہریت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ان پر جب پاکستان کے قانون کی گرفت ہوتی ہے تو وہ فوری طور پر جواز لیتے ہیں کہ وہ تو امریکا 'برطانیہ یا کسی یورپی ملک کے شہری ہیں اور ساتھ ہی اس ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کر کے ان سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان پر ظلم ہو رہا ہے ' اس قسم کے طبقے کے لیے اب پاکستان میں کسی قسم کی بھی آئینی اور قانونی رعایت ختم ہونی چاہیے ۔دہری شہریت کے حوالے سے مربوط اور غیرمبہم قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

دہری شہریت کے حامل کسی بھی شخص کو پاکستان میں سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اسے کوئی اعلیٰ سرکاری عہدہ دیا جانا چاہیے۔

اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ غیرملکی شہریت چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس میں حقیقت نہیں ہوتی ' یہ بھی ایک قانونی جھانسہ ہوتا ہے ' وہ اپنے شہریت کسی بھی وقت دوبارہ بحال کر سکتے ہیں 'اس حوالے سے بھی واضح موقف ہونا چاہیے۔

بھارت میں سونیا گاندھی اس لیے وزیراعظم نہیں بن سکی تھیں کہ وہ پیدائشی ہندوستانی نہیں تھیں۔ بھارت میں کسی غیرملکی بھارتی کو کوئی عہدہ نہیں دیا جاتا ' پاکستان کو بھی اس حوالے سے مکمل قانون سازی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو افغانستان اور ایران کے ساتھ ڈھلمل پالیسی ختم کرنی چاہیے 'افغانستان اور ایران کے ساتھ جو بھی تجارت ہو وہ قانونی ہو' ایک دوسرے کے ملک میں آمدورفت بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں موجود افغان باشندوں کوواپس اپنے وطن جا کر اپنے ملک کو بہتر کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے ' طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کو واپس لائیں تاکہ وہ اپنے ملک میں رہ کر تعمیر و ترقی کاکام کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں