غریب محنت کش ملک کا عظیم سرمایہ
غریب غریب تر ہورہا ہے اور امیر امیر تر۔ ہم ایک انتہائی غیر مستحکم معیشت کا شکار ہیں۔
آپ کسی بلند و بالا فلک شگاف عمارت سے زمین کی طرف دیکھنے کی جسارت کرکے تو دیکھیں، دیکھنے کے بعد خوف سے آپ کی ذہنی نفسیات کیا ہوگی، یقیناً آپ اچھے طریقے سے خود ہی اس کیفیت کا احساس کرسکیں گے۔ میں شہر کی جس بلند ترین عمارت میں اپنے معمول کے فرائض منصبی انجام دیتا ہوں، ایسے نظارے اکثر دیکھنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ کسی بھی عمارت کی بلندی کی طرف تعمیر کا ابتدائی کام لکڑی کی شیٹرنگ یا لوہے کے پائپوں کا جال تیار کرکے کیا جاتا ہے۔ ان پائپوں کو نٹ بولٹ سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
عمارت کی بلندی پر جاکر ان پائپوں کو ایک پائپ کے سہارے کھڑے ہوکر جب کہ نیچے کسی قسم کی کوئی سپورٹ نہ ہو ان پائپوں کو فٹ کرنا، جب کہ گرمی کی شدت بھی ہو۔ یہ کارنامہ ہمارے ملک کی افرادی قوت غریب محنت کش چند روپوں کے عوض کسی سیکیورٹی کے بغیر انجام دیتا ہے۔ عمارت میں نصب کھڑکیوں کے شیشوں کے بیرونی حصوں کی صفائی چیئر لفٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تیز ترین ہواؤں کے چلنے سے یہ چیئر لفٹ ایک جھولے کی مانند حرکت کررہی ہوتی ہے۔ اس پر سوار فرد کو اپنے ہوش و حواس اور جسمانی توازن کا رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ ذراسی غفلت یا بوکھلاہٹ ظاہر ہے موت کی آغوش ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ''جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے'' کی بنیاد پر یہ بلند حوصلہ محنت کش مزدور ہی اس خطرناک کام کو انجام دیتا ہے۔ اے میرے ملک کے باہمت مزدور! میں تیری عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔
مئی کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور پوری ترقی یافتہ دنیا اسی محنت کش طبقے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس مہینے کی پہلی تاریخ کو ''عالمی یوم مزدور'' منائے گی۔ مزدور یا محنت کش (ہنرمند اور غیر ہنرمند) خواہ وہ کارخانوں کا مزدور ہو، سڑکوں کی کھدائی کرنے والے مزدور ہوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنے والے غریب ہاری ہوں، غرض کاروبار زندگی سے متعلق ہر محنت کش جو کم اجرت پر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کا امین ہو، محنت و مشقت جس کا وطیرہ ہو ملک کی معیشت کی ترقی میں محنت کش طبقے کا بہت عمل دخل ہے۔ جب کہ ملک کی دولت منصفانہ تقسیم کے بجائے چند ہاتھوں میں غیر منصفانہ انداز سے لوٹی جارہی ہے۔ غریب غریب تر ہورہا ہے اور امیر امیر تر۔ ہم ایک انتہائی غیر مستحکم معیشت کا شکار ہیں۔
آج سے تقریباً 128 سال قبل کا واقعہ ہے جب امریکا کے شہر شکاگو میں البرٹ پارسنز کی قیادت میں 80 ہزار محنت کشوں کا ایک جم غفیر شہر کی شاہراؤں اور گلیوں میں احتجاجاً پھیل گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کام کے اوقات 24 گھنٹے کے بجائے 8 گھنٹے کیا جائے۔ اس احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز یکم مئی 1886 میں ہوا، یہ تحریک دو دن کے معمولی عرصے میں شدت اختیار کرگئی اور لگ بھگ 1200 فیکٹریوں کے ساڑھے تین لاکھ محنت کش سراپا احتجاج بن گئے اور حکومت کے خلاف ایک باقاعدہ منظم طریقے سے پرامن تحریک کا آغاز کیا۔ ریاستی مشینری حرکت میں آئی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان دنوں شکاگو میں انارکسسٹوں کا بڑا زور تھا اور ان کا ایک اخبار ''آربیٹرزننگ'' جرمن زبان میں شایع ہوتا تھا، جو صرف مزدوروں کے معاملات سے متعلق تھا۔ اگست اسپائز اس اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ احتجاج کے چوتھے روز رہنما البرٹ پارسنز، صحافی اگست اسپائز اور سیموئل فیلڈن نے ریلی کے شرکا سے خطاب بھی کیا۔ اس احتجاج کی خاص بات یہ تھی کہ شکاگو شہر میں مزدوروں کی بڑی تعداد جرمن تارکین وطن انار کسسٹ مزدوروں کی تھی جو مزدور یونین میں سرگرم رہتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ محنت کشوں کے لیے تفریحی پروگرام منعقد کرواتے، ان میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے کے لیے لائبریریاں قائم کرتے، جس سے فیکٹری مالکان پریشانی کا شکار رہتے اور مزدور تنظیموں کو توڑنے کی کوشش میں مصروف رہتے۔
مسلسل احتجاجی سلسلے کے سبب 21 جون 1886 کو 8 مزدور رہنماؤں البرٹ پارسنز، صحافی اگست اسپائز، سیموئل فیلڈن، ایڈولف فشر، جارج اینگل، مائیکل شواب، لوئس لنگ اور آسکر کے خلاف قتل اور اقدام قتل کا مقدمہ مقامی عدالت میں دائر ہوا۔ 19 اگست کو فاضل عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے 7 ملزمان کو سزائے موت اور ایک ملزم آسکر ایبے کو 15 سال قید کا حکم صادر فرمایا۔ جس فیصلے نے عالمی سطح پر مزدوروں کی بے چینی میں مزید اضافہ کیا اور اپنے ردعمل کا اظہار شدید انداز میں کیا۔ اس ردعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ مائیکل شواب اور سیموئل فیلڈن کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔ لوئس لنک نے پھانسی سے ایک روز قبل دوران قید خودکشی کرلی۔ بالآخر 11 نومبر 1887 کو البرٹ پارسنز، اگست اسپائز، جارج اینگل اور ایڈولف فشر کو پھانسی دے دی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ افراد ان کے جنازوں میں شریک ہوئے۔ ان چار مزدور رہنماؤں کی پھانسی کے 6 سال بعد گورنر جان پیٹر نے 26 جون 1893 کو بقیہ تین سزائے قید کے مزدور رہنماؤں آسکر، مائیکل شواب اور سیموئل فیلڈن کو رہا کرتے ہوئے کہا کہ ''میں سزا پانے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان نہیں کررہا بلکہ وہ بے گناہ تھے اسی لیے میں ان کی غیر مشروط رہائی کا اعلان کرتا ہوں، جن افراد کو پھانسی پر چڑھادیا گیا وہ ایک متعصب جج اور ہسٹریا کا شکار جیوری کا نشانہ بنے۔''
حاصل شدہ معلومات کے مطابق یکم مئی 1886 کو شروع ہونے والی مسلسل جدوجہد اور قربانیاں 51 سال کے طویل عرصے کے بعد یعنی 1937 میں رنگ لائیں جب امریکا میں فیئر لیبر اسٹینڈرڈ ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت مزدوروں کے یومیہ اوقات کار 24 گھنٹے کے بجائے 8 گھنٹے مقرر ہوئے۔
قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کم اجرت پانے والے محنت کشوں کی پذیرائی کا ایک عشرے سے فقدان ہے۔ بڑی کمپنیاں، بینکس، مالیاتی ادارے اور صنعتی ادارے تھرڈ پارٹی کانٹریکٹ کے تحت اپنے اداروں میں استفادہ حاصل کررہے ہیں تاکہ محنت کشوں کی یونینوں کے اثر و رسوخ کو روکا جاسکے۔ جو افراد ان کے مطلب کے تھے ان کو جونیئر انتظامیہ میں شامل کرلیا گیا۔ عنقریب اس دن کو سیمینار، ورک شاپ، مختلف مزدور تنظیموں کی طرف سے ریلیوں کا انعقاد اور مختلف ٹی وی چینلز سے خصوصی پروگرامز کی نشریات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مگر یہ شور شرابے اور زبانی جمع خرچ تک محدود رہے گا۔ مہنگائی کا جن، ٹارگٹ کلنگ جیسے معاشرتی مسائل نے ہمارے ملک کے محنت کش طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کا سدباب جہاں محنت کش یونینوں کی ذمے داری ہے وہاں ریاستی اہلکاروں پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ 1972 میں اس وقت کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکے دور حکومت میں ایک مربوط اور مستحکم لیبر پالیسی کا نفاذ ممکن ہوسکا اور یکم مئی ملک گیر عام تعطیل کا باضابطہ اعلان ہوا۔ سوشل سیکیورٹی نیٹ ورک کے تحت ''اولڈ ایج بینیفٹ اسکیمز'' اور ''ورکرز ویلفیئر فنڈ'' کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ اہم موقع تھا کہ 1947 کی آزادی کے بعد پاکستان ''عالمی لیبر آرگنائزیشن (I.L.O)'' کا رکن بنا۔ اقوام متحدہ کے تحت اس تنظیم کا مقصد معاشروں میں سماجی انصاف کی فراہمی کے ساتھ فطری طور پر انسانی اور سماجی حقوق کو کماحقہ تسلیم کرنا تھا۔ ملک کی معاشی ترقی صنعتوں کے فروغ سے ہوگی، یہ اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب تک ان صنعتوں کا ہر غریب کارکن خوشحال نہ ہوجائے۔