وفاقی بجٹ

وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال24۔2023 کے لیے 14ہزار چار سو ساٹھ ارب کا بجٹ پیش کر دیا ہے


Editorial June 11, 2023
وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال24۔2023 کے لیے 14ہزار چار سو ساٹھ ارب کا بجٹ پیش کر دیا ہے (فوٹو : فائل)

وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال24۔2023 کے لیے 14ہزار چار سو ساٹھ ارب کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک کا سالانہ میزانیہ پیش کیا۔

اعداد وشمار کے مطابق وفاقی حکومت کی کل آمدن 6887 ارب روپے ہوگی جب کہ ٹیکس آمدن کا تقریباً 80 فیصد قرض اور سود کی ادائیگیوں میں چلا جائے گا، قرض اور سود کی ادائیگیوں کے لیے 7303ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی مالی حالت کتنی پتلی ہے۔ یعنی اگر کل آمدنی کا 80 فیصد قرض اور سود کی مد میں چلا جائے گا تو باقی صرف 20 فیصد بچتا ہے۔ دفاع کے لیے 1804ارب روپے اور سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 714 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ صوبوں کوگرانٹس اور ٹرانسفرز کے لیے ایک ہزار چار سو چونسٹھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 11کھرب 50ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 31فیصد زیادہ ہے، اس میں پارلیمنٹیرینز کی تجویز کردہ اسکیموں کے لیے 90 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1559 ارب روپے ہوگا۔

حکومت نے ان مشکل حالات میں بھی ترقیاتی کاموں کے لیے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ رقم رکھی ہے جو خوش آیند بات ہے۔ ترقیاتی کاموں سے سکلڈ اور نان سکلڈ لیبر کو روزگار ملے گا اور کاروباری سرگرمیاں بھی بہتر ہوں گی۔ حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم رکھے۔

بہرحال وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے دوران معاشی شرح نمو کا تخمینہ 3.5 فیصد لگایا گیا ہے جب کہ افراط زرکی شرح اندازاً 21 فیصد رہے گی۔ معاشی ترقی کی شرح خاصی کم ہے۔ اس کی جو بھی وجوہات ہوں، یہ بات طے ہے کہ اتنی کم شرح ترقی سے ملک کی آمدنی میں خاطرخوا اضافہ ہونا ممکن نہیں ہے۔

حکومت کو یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے منصوبے شروع کرے جس سے معاشی ترقی کی شرح میں 6 سے 7 فیصد تک اضافہ ہو۔ تب کہیں جا کر پاکستان جنوبی ایشیا میں بھارت اور بنگلہ دیش کے برابر پہنچ سکتا ہے۔ وفاقی بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہوگا۔ بجٹ میں درآمدات کا ہدف 58.70ارب ڈالر اور برآمدات کا حجم 30ارب ڈالر مقررکیا گیا ہے، تجارتی خسارہ 28.70 ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے۔ بجٹ میں ترسیلات زر کا تخمینہ 33 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں30فیصد سے35فیصد تک اضافہ کی تجویز ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں ساڑھے سترہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاق میں مزدور کی کم ازکم اُجرت بڑھا کر 32ہزار روپے کردی گئی ہے، ای او بی آئی پنشن بھی ساڑھے آٹھ ہزار سے بڑھا کر دس ہزار روپے کردی گئی ہے۔ سبسڈیزکی مد میں 1300ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آیندہ مالی سال کے بجٹ میں پرائم منسٹر یوتھ لون کے لیے 10 ارب روپے ،50 ہزار، زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ کان کنی کے لیے درکار مشینری، رائس مل کی مشینری اور مشین کے آلات کے لیے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 400 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس سے معیشت کے مختلف شعبوں میں بہتری آئے گی۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، آئی ایم ایف کے حکام کے ساتھ باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہرممکن کوشش ہے کہ جلد اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے حکومت مسلسل یہی اعلان کرتی چلی آ رہی ہے کہ جلد معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے لیکن ابھی ایسا ہوا نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو جلدازجلد حتمی شکل دے اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے تاکہ پاکستان کے لیے مزید مواقع پیدا ہو سکیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا اگلے مالی سال میں زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کردیا گیا ہے۔بجلی، ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔معیاری بیج کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، اسی طرح سیپلنگس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ کمبائن ہارویسٹنگ کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز ختم کرنے کی تجویز ہے۔چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے سیڈر، رائس پلانٹر اور ڈرائیرز کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے۔

وفاقی بجٹ میں زرعی ٹریکٹر،ہائبرڈ گاڑیاں اور مقامی سطح پر تیار ہونے والی ہائبرڈ گاڑیوں کے پارٹس بھی سستے کردیے گئے ہیں۔ بجٹ میں ہائبرڈ گاڑیاں ایک فیصد رعایتی ڈیوٹی پر درآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے جب کہ ہائبرڈ گاڑیوں کے پارٹس تین فیصد اور چار فیصد کی رعایتی ڈیوٹی پر درآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے۔آیندہ بجٹ میں ڈیاپرز،سینٹری نیپکن اور اڈہیسو ٹیپ کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایت دیدی گئی ہے ۔بجٹ میں زرعی صنعت کو رعایتی قرض کی فراہمی کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جب کہ زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن کے لیے دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے صنعتی یونٹس کو تمام ٹیکسز سے 5 سال کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ پی ایم یوتھ، بزنس اینڈ ایگریکلچر قرض اسکیم کے لیے اگلے مالی سال میں شرح سود سبسڈی کے لیے 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔چھوٹے کسانوں کو کم شرح سود پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے، اس مد میں 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر خزا نہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ٹی معیشت کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے، پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے فری لانسر کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔آئی ٹی برآمدات بڑھانے کے لیے 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت جون 2026ء تک جاری رکھی جائے گی۔فری لانسرز کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی ایکسپورٹ پر فری لانسر کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے استثنیٰ دیا گیا ہے،آئی ٹی اینڈ آئی ٹی ان ایبل سروسز کو اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر بغیر کیس ٹیکس کے درآمد کرسکیں گے، ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ تعمیری شعبہ معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، نئے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے آیندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے دونوں میں سے جو رقم کم ہو، رعایت دی جائے گی اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں، انھیں تین سال تک 10 فیصد ٹیکس کریڈٹ یا 10 لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دینے تجویز ہے، اس رعایت کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ سے متعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جا رہی ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 400 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب روپے ٹارگیٹڈ سبسڈی کے لیے رکھے گئے ہیں۔پاکستان بیت المال کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت نے بجٹ میں 223ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کر دیے ہیں، 50کروڑ سالانہ کمانے والے امیروں پر10فیصد سپر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ بہرحال اس مشکل صورت حال میں حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ اگلے مالی سال میں پاکستان معاشی طور پر خاصا مستحکم ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں