فیصلے اور حکمت کا فرق
سیاسی ومعاشی صورتحال میں چین روس اور سعودی عرب کے پڑوسی اتحاد میں پاکستان کی جانب سے جاناایک مثبت اورروشن خیال فکر ہے
تاریخ کا فطری اور ارتقائی عمل یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق نہ سمجھنے والوں کے لیے 'عبرت' اور زمینی حقائق کی تلاش میں درست سمت متعین کرنے والوں کو 'جزا ' فراہم کرنے کا بنیادی اظہارہے۔
تاریخ جہاں اپنے ارد گرد کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے تو وہیں وہ معروضی حقائق کی جانچ نہ رکھنے والوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے، تاریخ سے سیکھنے اور حقائق نہ جاننے والوں کے ہاتھ جب کچھ نہیں بن پڑتا تو ایسے افراد اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں، اور غیر سنجیدہ حکمت عملی کا ادراک نہ کرتے ہوئے دوبارہ سے اپنی کمزوریوں کو درست کرنے کے بجائے ڈھیٹ بن کر شکست نہ ماننے کی حماقت کر بیٹھتے ہیں،جس سے وقتی طور پر انہیں''مقبولیت'' تو مل جاتی ہے، مگر تاریخ سے سیکھنے کے ہنر سے وہ محروم کر دیئے جاتے ہیں۔
اسی طرح ''اقتدار'' پہ جب طاقت کا نشہ حاوی ہوجاتا ہے تو ''اقتدار'' پہ براجمان افراد سوجھ بوجھ کے مقابل سازشوں کے مطیع ہو جایا کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ''اقتدار'' کی طاقت اگر سماج کے ہر ذی شعور کی ذہنی و سیاسی تربیت کرتی ہے تو وہی سماج اپنے تخلیقی اور تحقیقی کردار سے ترقی کے ثمرات میں سماج کے ہر فرد کو شریک کرکے اقتدار کو وقتی اور عوام کی امانت سمجھتے ہوئے،اقتدار سے چمٹے رہنے سے دور رہتے ہیں۔
اس تناظر میں ملک کے موجودہ حالات کے ساتھ خطے کی سیاسی معاشی اور معاشرتی صورتحال کے تین مختلف اجزا پر بات کی جاسکتی ہے،جن میں پاکستان،سعودی عرب اور ترکیہ کے طرز حکومت اور عوامل کو سمجھنا آج نہایت ضروری ہے۔
تاریخی طور سے ایشیا اور خاص طور پر مشرق وسطی کو معاشی طور سے مستحکم کرنے کی کوششوں میں سعودی حکمران شاہ فیصل ایک اہم کلیدی کردار کے طور پر سامنے آئے، جب کہ ایشیا اور مشرق وسطی میں قابض امریکی سامراج اور پینٹاگون کو یہ بات کسی طور قبول نہ تھی سو امریکی سامراج نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پہلے اپنے امریکی کارندوں کے ذریعے سعودی عرب کے شاہ فیصل کو 25مارچ 1975کے دن ان ہی کے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کروایا اور دوسری جانب آمر جنرل ضیا کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوا کر ایشیا اور مشرق وسطی میں اپنے مفادات کو مضبوط کیا۔
امریکی سامراج کو کیا پتہ تھا کہ اہل سعود میں شاہ فیصل کے قتل بعد ٹھیک دس برس بعد1985میں محمد بن سلمان نام کا ولی عہد مشرق وسطی اور ایشیا کی معیشت میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گا،طویل دہائیوں سے امریکی بلاک میں رہنے والے سعودی عرب میں روشن خیال اصلاحات لانے اور مشرق وسطی اور ایشیا کے خطے کی معاشی ترقی کے لیے روس،چین اور ایران سے بہتر تعلقات کے سفر میں محمد بن سلمان نے بطور وزیر دفاع سب سے پہلے سعودی فوج میں امریکی سامراج کے ان با اثر شاہی اور خاندانی افراد کو آہستہ آہستہ الگ کیا اور جب ملک کی سپاہ کو مکمل طور سے امریکی اثر و نفوذ سے پاک کر دیا تو سعودی سماج میں آزادی کی سوچ کا ایک ماحول بنایا۔
وکالت کی سند کے بعد محمد بن سلمان نے اپنے والد سلمان بن عزیز کے ساتھ باقاعدہ مملکتی امور میں 2009سے حصہ لینا شروع کیا اوراعتماد کی بنیاد پر باقاعدہ2012 کو محمد بن سلمان ولی عہد نامزد کیے گئے،اس کے بعد محمد بن سلمان نے سعودی ترقی کے لیے ملک میں پائیدار سرمایہ کاری کے راستے کھولے اور وژن2030کا پروگرام متعارف کروایا جس کے لئے ضروری تھا کہ مشرق وسطی میں جاری شام و یمن کی جنگ میں سرد مہری پیدا کی جائے، جس کے لیے انہوں نے سفارتی بنیاد پر روس اور چین کے توسط سے یمن اور شام کی جانب دوستانہ ہاتھ بڑھایا جبکہ دوسری جانب محمد بن سلمان نے ایشیا اور مشرق وسطی کی ترقی اور معاشی استحکام کے لیے چین سے نہ صرف سفارتی تعلقات بحال کیے بلکہ شام کو دوبارہ عرب ممالک کی تنظیم سے جوڑا۔
محمد بن سلمان کے ان اقدامات میں عرب ممالک کی نوجوان قیادت اور چین سمیت ایشیا کے ممالک کی قیادت ساتھ ساتھ نظر آئی اور اس پورے ترقیاتی خیال کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے روس، چین، ایران کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے نئے راستے کھولے،سعودی ولی عہد اور چین و روس کی کوششوں سے مستقبل کے سیاسی اور معاشی استحکام میں خطے کے ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کے اس پروگرام کو نہ چاہتے ہوئے امریکا کوقبول کرنا پڑا،گو اب بھی امریکی سامراج خطے کے چند اتحادیوں کی مدد سے سیکیورٹی سمیت تیل کے ذخائر پر اثر رکھنا چاہتا ہے جو کہ امید ہے کہ وقت کے ساتھ اس میں بھی کمی آئے گی۔
دوسری جانب امریکا اور یورپ کے مفادات کو جوڑنے اور خطے میں امریکی مفادات کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں ترکیہ ایک اہم ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے ، 1983میں کمیونسٹوں کے خلاف اردوان نے ایک مذہبی طلبہ تنظیم بنا کر اس میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا اوربعد کو مذہبی رجحانات پر مبنی نیشنل سیلویشن پارٹی بنائی ،اردوان نے1991میں استنبول کا میئر بننے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی،مگر اردوان 1994سے1998 تک استنبول کے25فیصد ووٹ لے کر میئربننے میں کامیاب ہوگئے، بیسویں صدی کے شاعر ضیا گو کلیپ کی ایک شعلہ بیان نظم پیش کرنے پر اردوان کو دس ماہ قید بھگتنا پڑی۔
اردوان نے شہرت کے بعد اپنی پارٹی میں انتہا پسند مذہبی رجحانات کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ریفارمسٹ پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ بنائی اور اس طرح 2002میں اردوان ملکی سیاست میں اپنی پارٹی AK کے ذریعے43.3فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور مخلوط حکومت بنائی،اس دوران ترکی امریکی فوج کے شام و عراق کی جنگ میں نیٹو کی فوج میں شامل ہوکر امریکی اتحاد کا اہم رکن بنا ۔اردوان کی تازہ مخلوط فتح سے گمان پیدا ہو رہا ہے کہ اردوان ایک روشن خیال سربراہ کی حیثیت سے ایک اہم کردار ادا کرنے کی طرف جارہے ہیں ،جن میں چین روس ایران اور سعودی عرب کے قائم ہونے والے مفادات کو نظر میں رکھیں گے۔
اس پورے تناظر کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ملکوں کے حکمرانوں میں جب تک اپنے مفادات کے تحفظ کی سوچ پیدا نہیں ہوگی وہ ممالک سامراج کی ہدایات کے آگے سر نگوں رہیں گے،پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال میں چین روس اور سعودی عرب کے پڑوسی اتحاد میں پاکستان کی جانب سے جانا ایک مثبت اور روشن خیال فکر ہے جس سے خطے کی ترقی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی امید ہے،جس کی طلب و ضرورت پاکستان کے علاوہ چین روس سعودی عرب ایران اور ہندوستان کو ہے تاکہ مذکورہ ممالک ایک بہتر لائحہ عمل سے اپنی اقتصادی صورتحال کو بہتر سے بہتر کریں،جبکہ امریکی سامراج اس خطے میں پاکستان کی چین روس اور سعودی عرب کے اتحاد میں شامل ہونے کی مثبت تبدیلی کو روک رہا ہے جو کسی بھی طور رکنی نہیں چاہیے۔