نفرت انگیز سیاسی بیانیہ طالبان سے بڑا خطرہ …

طورخم اور دیگر سرحدی مقامات پر سرکاری محکموں کی کھینچا تانی سرکاری محصولات کی وصولی میں روکاٹ بن رہی ہے


جمشید باغوان June 11, 2023

گزشتہ دنوں کور کمانڈر پشاور سے خیبر پختونخوا کے صحافیوں کی ملاقات ہوئی، ان صحافیوں میں راقم بھی شامل تھا۔ کور کمانڈر کی صوبے کے بارے میں معلومات اس قدر زیادہ تھیں کہ تمام صحافی حیران رہ گئے۔انھیں صوبے میں قبائل کے ہیت ترکیبی، قبائلی نفسیات اور صوبے کی معیشت، مقامی مسائل سے جس طرح کی آگاہی حاصل تھی، وہ واقعی قابل تعریف ہے۔

ان کے بچپن اور جوانی کے ایام خیبرپختونخوا میں گذرے، پشتو زبان روانی سے بولتے اورسمجھتے ہیں، سرحد پار بھی کافی مقبول ہیں۔ افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کے عمل میں شامل رہے۔ کور کمانڈر پشاور خیبر پختونخوا میں نفرت انگیز اور گمراہ کن بیانیے کی ترویج کو طالبان سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

2013 میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک مرکز میں نواز شریف حکومت کے خلاف محاذ آرا تھے لیکن 2018 میں پی ٹی آئی کو صوبے اور مرکز دونوں جگہوں پر حکومتیں ملیں لیکن اس کا صوبے کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔

خیبر پختونخوا کے نوجوانوں میں کرکٹ، فٹ بال، اسکواش اور دیگر کھیل بہت مقبول ہیں۔ کھیل بذات خود نوجوانوں کے لیے سرمایہ کاری ہے۔ ایک بڑے ٹورنامنٹ کے انعقاد سے معاشی سرگرمیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ لیکن خیبر پختونخوا میں مالی مفاد کے لیے صحت کارڈ جیسے مہنگے منصوبے کو متعارف کرایا گیا ، ان پروگرام کی تشہیر پر سرکاری خزانے سے بھاری رقم خرچ کی گئی لیکن اس صحت کارڈ پروگرام کا تمام تر فائدہ نجی اسپتالوں کے مالکان کو ہوا۔ دل میں اسٹنٹ لگانے، گردہ سے پتھری نکالنے، اپینڈیکس کے آپریشن عام ہو گئے کیونکہ اسپتال کو اس قسم کے آپریشن میں فائدہ ہوتا ہے اور مریض بھی آپریشن پر خوش ہو کر اسپتال کے بڑے بڑے بلوںپر دستخط کر دیتا ہے۔

صوبے میں معدنیات کے اتنے ذخائر ہیں کہ صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن ان معدنیات کو تلاش کرنے ' نکالنے کے لیے سرمایہ کاری پر مبنی پالیسی تیار نہیں کی جا سکی۔ صوبائی حکومت اور صوبائی انتظامیہ ڈھٹائی سے اپنی نااہلی ، نالائقی اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے لیے سیکیورٹی اداروں پر ذمے داری ڈال کر خود کو بچا لیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے نئے ضم ہونے والا اضلاع میں ماربل سے لے کر کاپر تک کے خزانے موجود ہیں۔ کہیں سیکیورٹی کی صورتحال اجازت نہیں دے رہی تو کہیں مقامی قبائل کے مابین زمین کی تقسیم کے مسائل ہیں۔

حکومت نے قبائل کے مابین حد بندی کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، ایک محدود اندازے کے مطابق صوبے کے سرکاری گوداموں میں قریباً سو ارب کی قیمتی لکڑی موجود ہے ۔ اگر کسی میں سوچ سمجھ کا معمولی سا بھی عنصر ہوتا تو وہ کب کا اس قیمتی لکڑی کو بیج کر صوبے کی مالی حالت کو بہتر کر چکا ہوتا۔

صوبے میں گیس کے ذخائر موجود ہیں اور حال ہی میں جنوبی اضلاع میں گیس کا جو ذخیرہ ملا ہے جو سوئی کے ذخیرے سے کئی گنا بڑا ہے لیکن صوبائی حکومت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی۔ 4 سال تک مرکز اور صوبے میں ایک ہی حکومت ہونے کے باوجود صوبے میں نئے کارخانوں کے قیام کے لیے صوبائی حکومت نے خود قدم اٹھایا نہ مرکزی حکومت کی توجہ اس جانب دلوائی۔

صوبے میں ہر محکمہ موجود ہے۔پولیس، ایکسائز اینڈ ٹیکسشن، محکمہ مال، لوکل گورمنٹس کے محکمے ہیں، کروڑوں روپے سرکاری ملازمین اور افسروں کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ کیے جارہے ہیں لیکن ان کی عملاً کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صوبائی حکومت نے صوبائی ٹیکسز وصول کرنے پر کبھی توجہ ہی نہیں دی، اسی لیے صوبہ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور مراعات کا مالی بوجھ بھی اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔

افغانستان کے ساتھ تجارت بھی صوبے کی آمدن کا ایک ذریعہ ہے لیکن طورخم اور دیگر سرحدی مقامات پر سرکاری محکموں کی کھینچا تانی سرکاری محصولات کی وصولی میں روکاٹ بن رہی ہے۔ حالانکہ صرف اپنی سرکاری مشینری بہتر بنانے سے ہم اس تجارت کو کافی آگے تک لے جا سکتے ہیں۔

کور کمانڈر نے اسی حوالے سے مرکزی حکومت کو طور خم بارڈر پر ایک الگ ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے جو این ایل سی، ایف آئی اے ،کسٹمز اور ایف سی او کو ایک لڑی میں پرو دے تاکہ کاروباری لوگوںکو لمبے چکروں اور رشوت ستانی سے بچایا جا سکے۔ نوجوان اس صوبے کا سرمایہ ہیں انھیں حالات کے جبر کے سامنے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمیں اس 67 فیصد آبادی کو قابل روزگار اور معاشرے کا بہترین فرد بنانا ہو ورنہ بے روزگاروں کی یہ فوج کسی بھی چنگاری کو آگ بنا سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں