جمہوریت کو درپیش چیلنجز
جمہوریت کا عمل بنیادی طو رپر 7 بڑے نکات سے جڑا ہوتا ہے
پاکستان میں جمہوری عمل کمزور ہی نہیں تھا بلکہ ارتقائی عمل سے گزررہا ہے ، یہاں جمہور مخالف قوتیں زیادہ بالادست رہی ہیں۔ جمہوریت کا عمل بنیادی طو رپر 7 بڑے نکات سے جڑا ہوتا ہے۔
اول، سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام ۔ دوئم آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا۔ سوئم، سیاسی فورمزاور پارلیمنٹ کی مضبوطی کا عمل۔ چہارم، جوابدہی اوراحتساب کے عمل کی شفافیت، پنجم سیاسی عمل میں موجود غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کا خاتمہ ، ششم انسانی حقوق کی فراہمی یا پاسداری کو یقینی بنانا اور قومی سطح پر آزادی اظہار او رمتبادل آوازوں کو سننا اوراہمیت دینا، ہفتم عوامی مفادات کو تحفظ دینا او ران کے حقوق کی پاسداری جیسے امور کی اہمیت اورا ن کو تحفظ دینا ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں جمہوریت محض اقتدار کا کھیل بن کر رہ گئی ہے اورجہاں معاشروں کی تشکیل جیسے امور پیچھے رہ جاتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا جمہوری نظام سے ہی اعتبار اٹھ رہا ہے اور ا ن کو لگتا ہے کہ ہم ریاستی و حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ۔ یہ عمل عام آدمی کو ریاستی او رحکومتی امور سمیت معاشرے سے لاتعلق کرتا ہے،اس کے منفی اثرات ہم قومی سطح پر دیکھ سکتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ یا ان کی وفاداریوں کو تبدیل کرنے کا عمل یا کسی کی حمایت یا مخالفت میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل بھی جمہوریت اور سیاسی قیادت کی کمزوری کی دلیل ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تقسیم شدہ لوگ ہیں ۔ ہم جمہوریت ،آئین اور قانون کی جنگ ان کے دیے ہوئے اصولوں کے بجائے خود سے ہم طے کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا۔جو سیاسی جماعتیں یا ان کے حمایت یافتہ لوگ اقتدار کی سیاست میں ہوتے ہیں تو ان کا سیاسی بیانیہ اور طرز عمل مختلف ہوتا ہے اور جب یہ ہی لوگ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو ان کی سیاسی چالیں بھی بدل جاتی ہیں ۔ماضی میں سابق وزیراعظم او راسٹیبلیشمنٹ جو کچھ بھی مل کر کررہے تھے، اس پر حکومت خوش اور حزب اختلاف نالاں تھا۔ لیکن آج بھی وہی کچھ ہورہا ہے لیکن پی ٹی آئی کے قائد نالاں ہیں ۔
یہاں بہت سے لوگ موجودہ سیاسی تقسیم یا اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ممکن ہے کہ خوش ہوں کیونکہ ان کے سیاسی مخالف کو بند گلی میں دکھیلا جارہا ہے ۔لیکن یہ ہی عمل ماضی میں بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔ممکن ہے کہ آج کے جو بھی حکمران ہیں کل ان کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔جمہوریت میں متبادل آوازوں کوختم کرنے کے بجائے اسے سنا جاتا اورپرکھا جاتا ہے او رجو آوازیں اٹھ رہی ہوتی ہیں ان کو بنیاد بنا کر ریاست یا حکومت یا ادارے اپنی سطح پر ان پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں تاکہ اس کی مدد سے ان کی جمہوری ساکھ کو فائدہ پہنچ سکے ۔
سیاسی جماعتوں کو توڑنا ، کسی پر پابندی لگانا یا سیاسی مفادات کے لیے مختلف جماعتوں میں جوڑ توڑ کر کے اپنی برتری کو قائم کرنا یا مخالفین کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی نہ توماضی میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکی ہے او رنہ ہی وہ آیندہ دے سکے گی۔
جو سیاستدان اپنے مفادات کے لیے یا قید وغیرہ سے ڈر کر سیاسی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں، وہ جمہوری مائنڈ سیٹ پر یقین ہی نہیں رکھتے ہیں، وہ جیسے کسی پارٹی میں آتے ہیں، وقت آنے پر ویسے ہی نکل جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جس انداز میں اپنی اہمیت کو کھورہی ہیں وہ بھی لحمہ فکریہ ہے ۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی مضبوطی کے بغیر مضبوط جمہوریت کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔
پاکستان میں جو بھی قوتیں یا جو بھی رائے عامہ بنانے والے افرادی یا اجتماعی آوازیں ہیں یا ادارے ہیں ا ن کو ملک کی موجودہ جمہوری و سیاسی صورتحال پر فکری مندی ہونی چاہیے ۔ کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ ملک کی سیاست اورجمہوریت کے حق میں ٹھیک نہیں ہورہا۔
سیاسی اور جمہوری قوتوں کو ان معاملات پر خاموش رہنے کے بجائے یا کسی کا فریق بننے کے بجائے خود کو جمہوریت کی عملی مضبوطی کے ساتھ جوڑنا چاہیے ۔ ہمیں اپنی آوازوں کو دیگر آوازوں کے ساتھ جوڑ کر اس نقطہ پر زور دینا چاہیے کے پاکستان کا مستقبل اب بھی جمہوریت ، آئین اور قانون کی پاسداری سے جڑا ہوا ہے اور ہمیں آگے بڑھنا ہے تو جمہوریت کو ہی بنیاد بنا کر مستحکم پاکستان کی جنگ کو لڑنا ہے۔