طوفانی بارشیں اورحفاظتی اقدامات

یہ طوفان بادوباراں، بے موسمی بارشیں اور ژالہ باری کے سلسلے موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی شاخسانہ ہیں


Editorial June 12, 2023
یہ طوفان بادوباراں، بے موسمی بارشیں اور ژالہ باری کے سلسلے موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی شاخسانہ ہیں—فائل فوٹو

خیبر پختون خوا اور پنجاب میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی، دیواریں، چھتیں،آسمانی بجلی گرنے اور دیگر حادثات میں خواتین اور بچوں سمیت چالیس افراد جاں بحق اور 200 زخمی ہوگئے، دوسری جانب محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان بائپر جوائے کے اثرات، بارش،آندھی، تند وتیز ہواؤں اورسمندر میں طغیانی کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ طوفان بادوباراں، بے موسمی بارشیں اور ژالہ باری کے سلسلے موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی شاخسانہ ہیں۔ وطن عزیز کا شمار ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ غیر متوقع موسمی مظاہر ہمیں اس حوالے سے خبردار کرتے ہیں مگر ہم خود کو اس کے لیے تیارکرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔

'' قدرتی آفات'' کا لیبل لگا کر ہر محکمہ اپنی ذمے داری سے بری الذمہ ہوجاتا ہے، حالانکہ صوبائی حکومتوں کے ان گنت محکمے جو ماہانہ تنخواہیں اور مراعات دھڑلے سے وصول کرتے ہیں،ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت جو بارشیں ہورہی ہیں وہ غیرمتوقع ہیں جب کہ اگلے ماہ سے پری مون سون کا آغاز ہوجائے گا،لہٰذا صوبائی اور شہری محکموں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا، ورنہ عوامی سطح پر مزید بڑے نقصانات کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔

ماہرین اگلے سالوں تک طوفانی بارشوں کا انتباہ جاری کرچکے ہیں، جن سے بچاؤ کے لیے درکار اقدامات کے حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی،اس حقیقت سے ابھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہونے والی بارشوں کو زیادہ ہلاکت خیز بنانے میں انتظامی غلطیاں کار فرما ہیں، جیسے خیبر پختون خوا میں دریا کے بیچوں بیچ عمارتوں کا قیام، سیلابی پانی کی گزرگاہوں پر تجاوزات اور جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جیسے اقدامات نے نقصانات میں اضافہ کیا ہے۔

تقریباً پونے نو برس تک خیبرپختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قائم رہی،اورمیڈیا میں یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ دیگر صوبوں کی نسبت کے پی کے بہت زیادہ ترقی کرچکا ہے، لیکن حالیہ تباہی کے نتیجے میں تمام دعوے نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ ان غلطیوں کو جلد ازجلد درست کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو گئے تھے جب کہ سیلاب نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثرکیا تھا۔ مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔ پہلے ہی بے گھری کی زندگی گزارنے والے 95 ملین لوگوں میں سے بڑی تعداد کے لیے حالات بدترین ہو گئے تھے۔

گزشتہ سال کے سیلابوں کے بعد عزم تو بہت کیے گئے تھے مگر اب وقت ان عزائم کو عملی اقدامات میں ڈھالنے کا ہے اور اس میں ہر لمحے کی تاخیر مزید تباہ کن ثابت ہوگی۔ بارشوں میں چھتیں گرنے کے ساتھ ساتھ جانی نقصانات کی ایک بڑی وجہ بجلی کا کرنٹ ہوتا ہے۔

بارش کے دنوں میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اوپن ایریا میں کسی بٹن، بجلی کے آلات، تارکو ہاتھ نہ لگائیں اور کھمبوں کے قریب نہ جائیں، لیکن کراچی جیسے میگا سٹی میں شدید بارشوں کے دوران بجلی کے کھمبوں سے کرنٹ لگنے کے واقعات کے نتیجے میں انسانی جانوں کا ضیاع ہونا افسوسناک ہے،جس کی ذمے داری متعلقہ بجلی کمپنی پر عائد ہوتی ہے، جو بارشوں کے سیزن سے پہلے بجلی کے تار اور کھمبے درست نہیں کرتی ، اسی طرح شہر میں موجود نالوں کی صفائی وقت سے پہلے نہیں کی جاتی، جس کی وجہ کراچی جیسے شہر میں اربن فلڈنگ کی صورتحال بیتے برسوں میں رونما ہوچکی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی جہاں ناپائیدارترقی، سماجی تفریق اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم میں اضافے کا سبب ہو سکتی ہے، وہاں اس کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، بے ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اسباب، اثرات اور اس سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر مربوط کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشد ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور ماہر افرادی قوت پیدا کی جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں