’’باغ‘‘ میں نون لیگ کی کوئل نہ کوک سکی
ناکامی کے آئینے میں ہم پاکستان بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں نون لیگ کی آیندہ انتخابی سیاست کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں
لیجیے، درجن بھر جماعتوں کی اتحادی حکومت اور وزیر اعظم، جناب شہباز شریف، کے وزیر خزانہ، قبلہ اسحاق ڈار، نے تو پاکستان کے23کروڑ عوام کو جھنڈی کرا دی ہے۔
اتحادی حکومت کی معاشی کارکردگی سے عوام پہلے ہی بے پناہ بددل اور مایوس ہو رہے تھے۔ اب مرکزی حکومت اور وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے ''اقتصادی سروے'' اور تازہ وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے بعد عوامی مایوسیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ 8جون کو اقتصادی سروے سامنے لایا گیا اور 9جون کو وفاقی بجٹ۔ دونوں اوامر نے غریب عوام کے ہوش اُڑا کر رکھ دیے ہیں۔
اقتصادی سروے میں صاف بتایا گیا ہے کہ اتحادی حکومت کے14ماہی اقتدار کے دوران ملکی معیشت درست ہو سکی ہے نہ مہنگائی میں کمی اور نہ ہی برآمدات میں اضافہ۔ پاکستان کے عوام کی فی کس آمدنی میں اضافے کے بجائے کمی آنے کی حقیقت بھی تسلیم کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال ارشاد فرما رہے ہیں کہ ہم نے بجٹ ایک سال کے لیے بنایا ہے، آنے والی حکومت اِس میں ردو بدل کر سکتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے بجٹ کے نام پر لولی پاپ دینے کی کوشش کی ہے۔
شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے عوام کا بھرکس تو نکال دیا ہے لیکن اتحادی حکومت کے جملہ شریک عناصر نے گزشتہ14ماہ کی حکومت کے دوران اپنے نجی مفادات خوب خوب سمیٹے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کے بیشتر افراد نے پچھلی حکومت کے دوران بنائے گئے کئی سنگین اور خطرناک مقدمات ختم کروائے ہیں۔ حکومتی شخصیات کی اولادوں کے کاروبار میں پچھلے12مہینوں کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
بجٹ کی پیشکاری اور اقتصادی سروے کے مندرجات کی شکل میں موجودہ حکومت اور حکمرانوں نے دراصل اپنے معاشی زوال کا خود اعتراف کیا ہے۔ اور وزیر خزانہ ہیں کہ اِس شدید معاشی بدحالی اور زوال کی ذمے داری آئی ایم ایف پر ڈال رہے ہیں۔ چہ خوب! جیسے پاکستان اور پاکستانی عوام کی معاشی ذمے داری اور خوشحالی کا ٹھیکہ آئی ایم ایف نے اُٹھا رکھا ہے۔ اور پاکستان کے اِن حکمرانوں کو محض حکومتی مراعات سے لطف اندوز ہونے کے لیے تخت پر بٹھایا گیا ہے۔
9جون2023کو وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اقتصادی سروے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ''پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال پہلے پاکستانی گدھوں کی تعداد 57لاکھ تھی اور اب یہ 58لاکھ ہو گئے ہیں۔'' گدھوں میں اضافے کی بنیاد پر شاید پاکستان کی ''ایکسپورٹ'' میں بھی اضافہ ہو جائے کہ چند سال پہلے یہ خبریں بھی تسلسل سے آتی رہی ہیں کہ پاکستان سے چین کو گدھوں کی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ویسے تو پاکستانی برآمدات میں خاصی کمی واقع ہُوئی ہے۔
ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال بتا رہی ہے کہ اتحادی حکومت کو کم ازکم اس محاذ پر شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ساری اتحادی حکومت کی ناکامی ہے۔ مفتاح اسماعیل صاحب کو وزارتِ خزانہ کے قلمدان سے محروم کرنے کے بعد اسحاق ڈار نے خود وزیر خزانہ بن کر بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ سارے دعوے ناک کے بل زمین بوس ہو چکے ہیں۔ ان سے سوال پوچھا جائے تو جواب نہیں دیتے۔
وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے14ماہ قبل اقتدار سنبھالتے ہی جذبات سے مغلوب ہو کر دعویٰ کیا تھا کہ '' چاہے مجھے اپنے کپڑے بیچنے پڑے، عوام کے معاشی مسائل حل کروں گا۔'' لیکن عوام کے معاشی مسائل حل ہو سکے ہیں نہ خوشحالی قدم چوم سکی ہے۔ روپے کی قیمت میں 52فیصد کمی واقع ہو چکی ہے اور ڈالر چھلانگیں مارتا ہوا 300 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ وزیر خزانہ بے بسی سے ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور وزیر اعظم صاحب بیکسی سے کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ''مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سمجھ نہیں آتی منہ چھپا کر کہاں نکل جاؤں؟''۔
وزیر اعظم اور ہمارے دیگر جملہ حکمرانوں کو منہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ منہ تومعاشی تنگدستیوںاور کمر توڑ مہنگائی کے سبب غریب عوام اپنے بلکتے بچوں سے چھپا رہے ہیں کہ ہر روز بجلی کی سرعت کے ساتھ بڑھتے اخراجات کیسے پورے کیے جائیں؟
حکمرانوں کے بے اَنت لالچوں اور بے پایاں نااہلیوں نے آج یہ نوبت پیدا کر دی ہے کہ روٹی 25روپے کی مل رہی ہے اور نان 30روپے کا لیکن اتحادی حکمران یہ مت سمجھیں کہ غصے میں اُبلتے عوام، حکمرانوں سے اپنے تئیں انتقام نہیں لیں گے۔ ضرور لیں گے۔ ووٹ ڈالتے ہُوئے انتقام لیں گے۔ اور ووٹوں میں دن دُور نہیں رہ گئے ہیں۔ ووٹوں میں مہنگائی کے مارے عوام چھٹی کا دُودھ یاد دلا دیں گے۔
ایک منظرتو عوام نے آزاد کشمیر (LA15) کے ضمنی انتخاب میں نون لیگ کو دکھا ہی دیا ہے۔8جون کو آزاد کشمیر کے علاقے ''باغ'' میں سردار تنویر الیاس کی خالی ہونے والی سیٹ پر معرکے کا ضمنی الیکشن ہوا ہے۔ پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی اور نون کے اُمیدوار آمنے سامنے کھڑے تھے۔ پی ٹی آئی کا اُمیدوار تو منہ کے بَل گرا ہے۔
پیپلز پارٹی کا اُمیدوار ، سردار ضیاء القمر،25ہزار سے زائد ووٹ لے کر فتحیاب قرار دیا گیا ہے۔ نون لیگ کے اُمیدوار اور ہمارے سابق صحافی دوست، مشتاق منہاس، تقریباً5ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست کھا گئے ہیں۔ مشتاق منہاس کی انتخابی مہم اور اُنہیں کامیاب کروانے کے لیے نون لیگ کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر، محترمہ مریم نواز، نے خود ''باغ'' جا کر ایک بڑے جلسے سے خطاب بھی کیا تھا۔ مقامی ووٹروں کو ترقی کے نام پر بہت سی نویدیں بھی سنائیں۔ مگر سب کوششیں اور نویدیں خاک ہو گئیں۔
''باغ'' میں نون لیگ کی کوئل کامیابی کا گیت نہ گا سکی۔ اِس ناکامی کے آئینے میں ہم پاکستان بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں نون لیگ کی آیندہ انتخابی سیاست کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ عوام کا جس بے رحمی سے استحصال کیا گیا ہے، اب ''باغ'' میں اس کا پہلا نتیجہ نکلا ہے۔ یہ نتیجہ محترمہ مریم نواز کو بھی ایک واضح انتباہ ہے کہ اُن کے چچا محترم نے وزیر اعظم بن کر عوام کا جس طرح گلہ گھونٹا ہے، عوام اس ظلم کو بھُولے نہیں ہیں۔ ''باغ'' میں مشتاق منہاس نہیں، نون لیگ اور نون لیگ کی سینئر نائب صدر محترمہ مریم نواز ہاری ہیں۔