آئی بی اے کراچی غیر شادی شدہ 2 خواتین اساتذہ سے امتیازی سلوکانصاف مانگنے پر شوکاز جاری
رابطے کرنے پر تحقیقاتی افسر نے نمائندہ ایکسپریس کو انٹیلیجنس اداروں کا کہہ کر دھمکی دی
آئی بی اے(انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کراچی میں کم از کم 2 غیر شادی شدہ خواتین اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور موصولہ شواہد کے مطابق ان خواتین اساتذہ پر ادارے میں رہائش یا سکونت کے مواقع ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
ابتداء میں انھیں رہائش سے بے دخل کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے اور غیر شادی شدہ خواتین کو "وزیٹنگ فیکلٹی ریزیڈنس" سے نکل کر "گرلز ہاسٹل" میں منتقل ہوجانے کی ہدایت کں گئی جہاں یہ اساتذہ ادارے کی طالبات کے ساتھ رہائش اختیار کریں۔
دوسری جانب جب ایک متعلقہ خاتون فیکلٹی نے ادارے سے انصاف کا تقاضا کیا تو آئی بی اے نے خاتون فیکلٹی کو ہی صرف اس لیے شوکاز نوٹس دے دیا کہ انھوں نے اپنے حق کے لیے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کے دفتر کے باہر احتجاج کیا تھا خاتون فیکلٹی ڈائریکٹر آئی بی اے کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے کی تقاضا کیا تھا۔
آئی بی اے کی ایک سینیئر فیکلٹی کے مطابق خاتون فیکلٹی کو مکمل تحقیقاتی رپورٹ کے بجائے اس کے کچھ حصے فراہم کیے گئے جس میں اس معاملے کا ذمے دار فرد واحد کے بجائے اس فیصلے میں شریک تمام ہی افراد کو ٹھہرایا جارہا ہے تاہم دوسری جانب ساتھ ہی شوکاز نوٹس بھی دے دیا گیا آئی بی اے اور ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں جمہوری دور حکومت میں یہ کسی خاتون فیکلٹی کے ساتھ اپنی نوعیت کی انوکھی انتظامی کارروائی کہی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں دستاویزات بتارہی ہیں کہ دو خواتین اساتذہ کو وزیٹنگ فیکلٹی ریزیڈنس سے بے دخل کرنے کے احکامات انسٹی ٹیوٹ کے رجسٹرار اسد الیاس کی جانب سے سامنے آئے ہیں اسی دستاویز کے مطابق خواتین اساتذہ کی جانب سے اس سلسلے میں اعتراض اٹھانے پر رجسٹرار کی جانب سے ایک خاتون کو جھنجھلا کر تجویز دی گئی ہے کہ "وہ شادی کرلیں" غیر شادی شدہ خواتین اساتذہ کے ساتھ اس قسم کے امتیازی سلوک کی شکایات پر تحقیقات کا سلسلہ بھی کئی ماہ تک جاری رہا اور رپورٹ مکمل ہونے کے تقریبا 1 ماہ بعد 12 جون کو صرف رپورٹ کے کچھ مندرجات متعلقہ خاتون فیکلٹی کے حوالے کیے گئے
تاہم آئی بی اے کے آفیشل ذرائع کہتے ہیں کہ کچھ گواہوں کے باوجود کمیٹی کو بظاہر اس الزام کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
اس سلسلے میں "ایکسپریس" کو موصولہ ریکارڈ کے مطابق آئی بی اے کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی امتیازی سلوک کے الزام کا سامنا کرنے والے انسٹی ٹیوٹ کے رجسٹرار اسد الیاس کے گواہ کے طور پر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سامنے پیش ہوگئے جس کے سبب اس معاملے میں ان کی neutrality یا غیر جانب دار حیثیت مشکوک ہوگئی ہے اس کے باوجود تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اس سلسلے میں تیار کردہ اپنی رپورٹ ڈاکٹر اکبر زیدی ہی کو پیش کی تاہم 11 مئی کو موصولہ رپورٹ پر کسی عملدرآمد اور اسے شکایت کنندہ سے شیئر کرنے کے بجائے انھوں نے اس رپورٹ پر سوالات اٹھائے اور متعلقہ کمیٹی کو ای میل کے ذریعے کہا گیا کہ اس سلسلے میں بعض نکات کی وضاحتیں clarification دیں اور اس کے لیے کمیٹی کو مزید 3 ہفتوں کا وقت دے دیا گیا۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس معاملے پر "ایکسپریس" نے آئی بی اے کے ڈائریکٹر سمیت تمام ہی متعلقہ افسران و اساتذہ سے آفیشل موقف جاننے کی کوشش کی اور انھیں اپنی رائے دینے کا پورا موقع دیا تاہم تمام ہی افسران نے رائے دینے سے اجتناب کیا اور معاملے پر لب کشائی نہیں کی جبکہ ایک افسر نے نمائندہ ایکسپریس کو انٹیلیجنس اداروں کی دھمکیاں دیں اور میڈیا ہائوس کی ملازمت چھوڑ دینے کا مشورہ تک دے ڈالا۔
"ایکسپریس" نے آئی بی اے کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی سے رابطہ کیا تاہم حسب سابق انھوں نے فون کال ریسیوو نہیں کی معاملے پر ان کا موقف جاننے کے لیے ایس ایم ایس بھی کیا تاہم اس کا جواب بھی نہیں ملا۔
ادھر "ایکسپریس"کو موصولہ دستاویزات کے مطابق "خواتین سے نامناسب گفتگو اور امتیازی سلوک " سے متعلق یہ معاملہ 29 دسمبر 2022 کا ہے اور واقعہ کے واحد چشم دید گواہ ٹیسٹنگ سروس کے سربراہ شرجیل حسنی ہیں جب ایک خاتون فیکلٹی رکن رجسٹرار آفس میں داخل ہوئیں اور وہاں موجود رجسٹرار اسد الیاس سے بتایا کہ انھیں شہاب الدین خان نامی شخص کی جانب سے گزشتہ روز 28 دسمبر2022 کو موصولہ فون کال میں پابند کیا گیا ہے کہ یکم جنوری تک (یعنی صرف 3 روز میں ) VFR میں موجود اپنا گھر چھوڑ دیں۔
اس موقع پر خاتون فیکلٹی کی جانب سے کہا گیا کہ یہ جگہ چھوڑنے کے لیے انھیں کم از کم مناسب وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنی پسند کے مطابق کوئی دوسری نجی رہائش لے سکیں جس پر رجسٹرار کی جانب سے کہا گیا کہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو کئی ہفتوں سے چل رہی ہے جس پر خاتون فیکلٹی کی جانب سے کہا گیا کہ یہ سب معاملہ باتوں کی حد تک تھا کسی قسم کا فیصلہ نہیں تھا اور میں نے اپنی ڈین سے سنا تھا کہ مجھے یہاں سے نکالنے کے بجائے مزید کسی آپشن پر بھی بات ہورہی ہے جس پر رجسٹرار آئی بی اے نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ڈین اور چیئر سمیت ہر شخص اس فیصلہ میں مداخلت کررہا ہے لہذا ان ہی کے پاس جاکر بات کریں ای ڈی سے بات کریں یہاں نہ آئیں اس موقع پر خاتون فیکلٹی نے مزید استفسار کیا کہ مرد اساتذہ کو یہاں سے جانے کو کیوں نہیں کیا جارہا اس انداز میں خواتین کو کیوں نکالا جارہا ہے۔
جس پر رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ہم نکال نہیں رہے آپ کو گرلز ہاسٹل میں منتقل کر رہے ہیں اور گرلز ہاسٹل میں مردوں کی منتقلی ممکن نہیں جب رجسٹرار سے مزید پوچھا گیا کہ VFR میں موجود دو خواتین کو نوٹس دیے گئے ہیں ایک اور خاتون کو کیوں منتقل کیا جارہا جس پر آن کا کہنا تھا کہ وہ شادی شدہ اور شوہر والی ہیں شوہر سمیت ہاسٹل میں کس طرح رہیں گی جس پر خاتون فیکلٹی نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا وہ اور ان کی ساتھی خاتون فیکلٹی بھی شوہر لے آئیں تاکہ انھیں بھی یہاں سے بے دخل نہ کیا جائے جس کے بعدرجسٹرار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا "شاید آپ کو یہی کرنا ہوگا" maybe you should ۔
ادھر دستاویز میں بیان کردہ اس نامناسب طرز عمل پر "ایکسپریس " نے آئی بی اے کے رجسٹرار اسد الیاس سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ ہراسمنٹ یا دیگر کیسز محض ان ہی کے خلاف کیوں آتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ دستاویز میں موجود الزامات پر ان کا کیا موقف یا رائے ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ "میں آپ سے بات کرنے کے لیے authorise نہیں ہوں آپ ہمارے میڈیا ڈپارٹمنٹ سے بات کرلیں میری اس بارے میں کوئی رائے نہیں ہے"۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی آئی بی اے کے ایک طالب علم جبرئیل کو ادارے سے زبردستی بے دخل کرنے کے خلاف جب سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے رد عمل آیا تھا تو اسد الیاس کے خلاف انکوائری کی گئی تھی اس کے نتیجے میں انھیں دو ہفتے کے لیے بظاہر یا نمائشی طور پر معطل بھی کردیا گیا تھا جبکہ آئی بی اے سے نکالے گئے ایک ملازم معشوق بھٹی کی جانب سے بھی اسد الیاس کے خلاف کئی الزامات لگائے گئے تھے۔
علا وہ ازیں امتیازی سلوک کے مذکورہ معاملے میں 29 دسمبر 2022 کو اس واقعہ کے بعد جب آئی بی اے کے رجسٹرار کے خلاف باقاعدہ شکایت پر کمیٹی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی سے لیے گئے تین اراکین پر مشتمل کمیٹی نے ڈاکٹر طارق محمود کی سربراہی میں تحقیقات کی تو موصولہ دستاویزات کے مطابق آئی بی اے کے ای ڈی اس کمیٹی میں بطور گواہ خود ہی پیش ہوگئے جس سے ان کی غیر جانبدارانہ حیثیت بھی مشکوک ہوگئی۔
اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر طارق محمود سے جب پوچھا گیا کہ تو ابتداء میں ان کی جانب سے کہا گیا کہ "یہ ایک خفیہ معلومات ہے میں نہیں بتا سکتا آپ اس میں دلچسپی نہ لیں مزید استفسار پر انھوں نے مذہبی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جاسوسی کرنا چھوڑ دو جس پر نمائندہ ایکسپریس نے کہا کہ آپ کی رائے کے ضمن میں تو میڈیا ہائوسز ہی بند ہوجانے چاہیے جس پر مذکورہ افسر نے کہا کہ آخرت کے حساب سے تو میڈیا بہت خطرے میں ہے اگر یہ جاننا چاہیں کہ میڈیا میں کیا کیا گناہ ہورہے ہیں تو کورنگی کے ایک مدرسے سے رابطہ کرلیں مذکورہ افسر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی job switch کرلیں رپورٹر کی جانب سے معاملے کی چھان بین کے سلسلے میں کیے گئے مزید سوالات پر آن کا کہنا تھا کہ آپ مجھے دوبارہ کال نہ کریں اگرy کال کیا تو میرے انٹیلیجنس میں بہت جاننے والے ہیں مجھے سب معلوم ہوجائے گا کہ کس نے میرا نمبر آپ سے شیئر کیا ہے اور آپ کہوں اس کیس کے پیچھے ہیں دھمکی دیتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں آپ کو threatened نہیں کررہا آپ کی پالیسی کے خلاف ہوں اور آپ کی ملازمت سے اتفاق نہیں کرتا انھوں نے کہا کہ میں آپ کا نمبر save کررہا ہوں اگر مجھے دوبارہبتنگ کیا تو میں اپنے ایکشنز لوں گا آخر میں ان کی آواز بلند ہوگئی اور کہا کہ آپ اپنی job change کریں آخر میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایڈمنسٹریشن میں نہیں ہیں رپورٹ کی معلومات انتظامیہ کے پاس ہوتی ہے ازاں بعد آئندہ صبح نمائندہ ایکسپریس کو ان کی جانب سے ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں انھوں نے رپورٹر سے معذرت کی"۔
واضح رہے کہ ہراسمنٹ پالیسی کے قواعد کی رو سے تحقیقاتی رپورٹ ایک ماہ میں مکمل کرکے مجاز اتھارٹی کے حوالے کرنی ہوتی ہے تاہم جنوری کی شکایت اور فروری سے شروع ہونے والی تحقیقات پر مشتمل یہ رپورٹ مئی کے وسط میں آئی بی اے کے سربراہ کے حوالے کئی گئی تاہم اس کے بعد انھوں نے رپورٹ پر عمل درآمد کے بجائے اس پر مزید وضاحتیں مانگ لیں۔
علاوہ ازیں اس صورت حال پر "ایکسپریس" نے متعلقہ خاتون معلمہ کا موقف جاننے کے لیے ان سے بھی رابطے کی کوشش کی تاہم انھوں نے تبصرے سے معذرت کرلی۔
تاہم آئی بی اے کے آفیشل ذرائع کہتے ہیں کہ جب متعلقہ خاتون فیکلٹی کی جانب سے اس معاملے پر باقاعدہ شکایت کی گئی تو آئی بی اے نے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے انھیں مزید چند ماہ کے لیے VFR میں سکونت کی اجازت دے دی تاہم ازاں بعد وہ خاتون احتجاج خود ہی آئی بی اے سے نجی رہائش میں منتقل ہوگئیں۔
ادھر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر قاضی مسعود سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں ہراسمنٹ کمیٹی کا چیئرمین ہوں اس لیے بتا نہیں سکتا ایک دوسری کمیٹی نے تحقیقات کی ہیں جس کی رپورٹ آج کل میں آجائے گی ہم رپورٹ شیئر نہیں کرسکتے تاہم اس کی findings شیئرکرلیں گے"
ادھر ترجمان آئی بی اے سے رابطہ کرکے پوچھا گیا کہ کیا وہ دستاویزات میں موجود الزامات کی صدیق کرتے ہیں جس پر ایک سطر کا پیغام موصول ہوا کہ "یہ آئی بی اے کا داخلی معاملہ ہے"۔