سستا روسی تیل اور دانش مندانہ معاشی پالیسی

بلاشبہ یہ خبر ملکی معیشت کے استحکام کے حوالے تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں


Editorial June 13, 2023
بلاشبہ یہ خبر ملکی معیشت کے استحکام کے حوالے تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ فوٹو فائل

روس سے خام تیل کی پہلی کھیپ کراچی بندرگاہ پہنچ گئی، روسی تیل پاکستان میں ریفائن کیا جائے گا۔ روس سے درآمد ہونے والا خام تیل پاکستان میں توانائی کی طلب پوری کرنے کے ساتھ خام تیل کی درآمد سے زرمبادلہ پر پڑنے والے دباؤ کو بھی کم کرنے میں مدد دے گا۔

بلاشبہ یہ خبر ملکی معیشت کے استحکام کے حوالے تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، کیونکہ پاکستان اپنی ضرورت کا 85 فی صد تیل درآمد کرتا ہے جس میں خام تیل اور قابل استعمال تیل دونوں شامل ہیں۔

پٹرولیم کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کاروباری و پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔

تیل و گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے سبب پاکستان عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس صورتحال سے عام آدمی بھی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے سے اشیا کی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافہ کسی بین الاقوامی نرخ میں اضافے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کا سبب آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کی اگلی قسط وصول کرنے کی شرائط پوری کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس محاصل بڑھانے کا کہا ہے۔

دوسری جانب تیل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پٹرول پمپ مالکان کے سامنے جھک جانا حکومت کی انتظامی گرفت کمزور ہونے کی علامت ہے۔ پٹرول فروخت کرنے والوں کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ حکومت کم از کم صنعتوں خصوصاً برآمدی سیکٹر کے لیے پٹرولیم، گیس اور بجلی کے نرخوں کو منجمد کرے۔

پٹرول کے حالیہ بحران کے قابل ذکر اسباب کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے باوجود اس کی درآمد جاری رہی جو ہماری پٹرول وغیرہ کی بچت کا 52 فیصد ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک میں پٹرول وغیرہ کے نرخوں میں 10 فیصد کے برعکس اس کی ڈیمانڈ میں 2 فیصد سے 3 فیصد اضافہ ہوا۔ جب بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو حکومتیں اس فنڈ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو سبسڈی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی قانون سازی کے ذریعے فیڈرل اسٹیبیلائزئشن فنڈ کے قیام سے اس مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

فرنس آئل کی پیداوار کو بہتر طریقے سے ریگولرائز کر کے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے ہنگم اضافے کا مسئلہ بڑی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔

دنیا میں فرنس آئل کی مانگ میں کمی آ رہی ہے اور پاکستانی ریفائنریز کو وہاں اپنا فرنس آئل کم قیمت پر فروخت کرنا پڑ رہا ہے کیوں نہ پاکستانی ریفائنریز وہی ڈسکاونٹ اپنے ملک میں دیں، اس طرح زیادہ فروخت کے باعث ریفائنریز کی اسٹوریج گنجائش بھی بڑھے گی۔

درآمد ی مایع قدرتی گیس(LNG) پر پاکستان کا بڑھتا ہوا انحصار ملک کے توانائی کے شعبے میں توانائی کے عدم تحفظ اور سخت مالی جدوجہد کو ہوا دے رہا ہے۔

مقامی قدرتی گیس نے تاریخی طور پر پاکستان کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، تاہم اس کے تیزی سے کم ہوتے حجم کو پالیسی ساز مایع قدرتی گیس ایل این جی کی درآمد سے پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان ایل این جی کی طلب میں اضافے کے بہت سے معیارات بشمول بڑھتی ہوئی طلب، مختلف اقتصادی شعبوں پر مشتمل ایک متنوع گیس صارفین اور جامع و فروغ پذیرگیس پائپ لائن نیٹ ورکس پر پورا اترتا ہے۔ تاہم، ملک کی بنیادی توانائی کی فراہمی میں قدرتی مایع گیس کے کردار کو بڑھانے کے منصوبے اقتصادی اور توانائی کے تحفظ کی تباہی میں بدل چکے ہیں۔

ایل این جی کے فراہم کنندگان معاہدے میں طے شدہ حجم کی فراہمی میں بار بار ناکام رہے، جس کے باعث ملک کو ایندھن یا بجلی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے مقامی صنعتی یونٹوں اور کمپنیوں کی پیداوار براہ راست متاثر ہوئی۔ دوسری جانب ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ہماری توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔

گزشتہ حکومت نے بجلی کے شعبہ میں 25 سو ارب روپے اور گیس کے شعبہ میں 1500 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑا، اس پوری مدت میں ملک میں ایک میگاواٹ بجلی کا اضافہ نہ ہوسکا، کوویڈ کے موقع پر پاکستان کو ایل این جی اور توانائی کے طویل المیعاد معاہدوں کا نادر موقع ملا تھا۔

اس وقت ایل این جی بہت ہی سستی مل رہی تھی مگر اس کو نالائقی کہیں یا فرنس آئل لابیز کا اثر و رسوخ، یہ پیشکش ٹھکرا دی گئی۔

اس طرح کے فیصلوں سے گردشی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا، موجودہ حکومت توانائی کے شعبہ میں گردشی قرضہ میں کمی کے لیے اقدامات کررہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ میکرو اور مائیکرو اکنامک استحکام اور پاور کے شعبہ میں نقصانات کا خاتمہ بھی ترجیح ہے۔

موجودہ معاشی حالات میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت اور حکومتی اداروں کو اپنے روزمرہ اخراجات میں کمی کر کے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینا ہو گا انھیں ریلیف کے نام پر تکلیف دینا سراسر زیادتی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے والے اکثر ممالک فیڈرل اسٹیبالائزیشن فنڈ قائم کرتے ہیں، جس میں ان مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کی صورت میں تھوڑے سے زیادہ نرخ پر عوام کو بیچ کر پیسے رکھے جاتے ہیں۔

دوسری جانب نئے وفاقی بجٹ کو ملکی صنعت کاروں کی طرف سے کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ان کے خیال میں ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے اچھا بجٹ پیش کیا ہے، محصولات کا ہدف معقول ہے جب کہ تعلیم کے لیے 80 بلین روپے اور صحت کے لیے 22 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔

امید ہے کہ ادائیگیوں کا توازن نہیں بگڑے گا جب کہ پاکستان کا امپورٹ بل ایکسپورٹ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ملنے والی رقوم کے بعد بہت زیادہ نہیں بڑھے گا۔ بجٹ میں زراعت کے لیے قرضے 1.8 ٹریلین روپے سے بڑھا کر دو ٹریلین روپے سے بھی زیادہ کر دیے گئے ہیں، جس پر زرعی شعبے سے وابستہ افراد خوش ہیں، کیونکہ یہ بجٹ زرعی شعبے کے لیے بہت مثبت ثابت ہو سکتا ہے، اگر صوبائی حکومتیں بھی اس حوالے سے اقدامات کریں تو بہتری آ سکتی ہے۔

اس طرح کے اشارے دیے گئے ہیں کہ حکومت بیجوں کی درآمد پر سبسڈی دے گی، اگر ہائبرڈ بیج پر سبسڈی دی جاتی ہے، تو اس سے زراعت کے شعبے کو بہت ترقی مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے دیہی ترقی کے حوالے سے بھی کارخانے لگانے کی بات کی ہے۔ اس سے عام کارکن ہنر مند بنیں گے اور ان کو روزگار ملے گا۔

اگر بے روزگار نوجوانوں کے لیے قرضے آسان شرائط پر یقینی بنائے جائیں، تو اس سے بھی زراعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور وہاں زیادہ تر زمین ان کے والدین کے نام پر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انھیں بینک قرضے نہیں دیتے۔ اس حوالے سے حکومت نے قرضوں کا اعلان کیا ہے۔

یہ سہولت ان نوجوانوں تک بھی بڑھائی جائے اور قرضوں کی شرائط مناسب رکھی جائیں، تو زراعت میں بہت زیادہ بہتری آ سکتی ہے۔

بلاشبہ پی ڈی ایم حکومت نے مشکل حالات میں بھی کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، سستا اور مفت آٹا پروگرام شروع کیا گیا اور بی آئی ایس پی کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا، موجودہ حکومت نے سفارتی تعلقات کو بھی بہترکیا ہے۔

موجودہ حکومت پاکستان سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو شرائط طے ہوئی ہیں ان پر عمل ہو، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مسلسل رابطہ ہے، یہ رابطے مختلف سطحوں پر برقرار ہیں، بات چیت چل رہی ہے اور امید ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں کامیاب ہوں گے اور اسٹاف سطح کا معاہدہ ہوجائے گا۔

سابق حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے لیے جو شرائط قبول کی تھیں وہ معیاری نہیں تھیں، اس وقت کے سیکریٹری خزانہ نے بھی اس کی مخالفت کی تھی، لیکن سابقہ حکومت نے واہ واہ کے لیے پاپولر فیصلے کیے، جس کا ملک اور ریاست کو نقصان پہنچا۔

موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ برآمدات بڑھانا ہماری فوری ضرورت ہے، جب بھی ہماری جی ڈی پی کی نمو میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے، اس سلسلہ میں برآمدی شعبہ کو مراعات دی گئی ہے اور مزید مراعات بھی دی جائیں گی۔

دانشمندانہ معاشی پالیسی اور گڈ گورننس ہی ملک کو بحرانوں اور معیشت پر منڈلاتے ہوئے خطرات سے نکالنے میں مدد دے سکتی ہے۔

موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں انرجی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے قومی سلامتی اور انرجی سیکیورٹی دونوں ہماری بقا کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس سلسلے میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک جامع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں