سمندری طوفان اور موسمیاتی تبدیلیاں

پاکستان کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح قدرتی آفات سے نمٹ سکے


Editorial June 14, 2023
پاکستان کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح قدرتی آفات سے نمٹ سکے (فوٹو : فائل)

بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان '' بائپر جوائے'' کے پیش نظر حساس علاقوں سے تقریبا 80 ہزار لوگوں کے انخلا کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔

شہری انتظامیہ، نیوی، پاک آرمی اور رینجرز پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں بنائی گئی ہیں، کیونکہ اس وقت سے سب سے زیادہ اہم سمندری طوفان کی زد میں آنے کے خطرات والے علاقوں سے لوگوں کا انخلا ہے، دوسری جانب کمشنر کراچی نے شہریوں کے ساحل سمندر پر جانے، ماہی گیری، کشتی رانی، تیراکی اور نہانے پر طوفان کے خاتمے تک کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

درحقیقت موسمیاتی تبدیلی تیزی سے سمندر کی کیمسٹری کو تبدیل کر رہی ہے، پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں پر اس نوعیت کے سمندری طوفان بہت کم آئے ہیں جن کا سامنا امریکا اور جاپان کو رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن اگر صنعتی ترقی کے باعث فضائی آلودگی کو کم اور جنگلات میں اضافہ کیا جائے تو سمندری طوفان اور دیگر ایسی آفات کے تسلسل اور اُن کی شدت کو کم کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔

سمندر کی سطح میں اضافہ ، سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ، دھاروں کی تبدیلی اور موسمی اتار چڑھاؤ میں اضافہ۔ ان عوامل کی بنیاد پر ناقابل تلافی نقصان کا امکان موجود ہے۔

تاہم، ساحلی ماحولیاتی نظام کو بحال کرنا، زمینی آلودگی کو کم کرنا، CO2 کے اخراج کو کم کرنا، سمندری تناؤ کو کم کرنا، تاریخی مقامات کی نگرانی میں اضافہ اور قانونی حکمت عملی تیار کرنا زیر آب ثقافتی ورثے کے مقامات کی تباہی کو کم کرسکتا ہے۔

سمندر کی صحت اور ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اضافی خطرات سے بچا جائے اور یہ کہ ہمارے سمندری ماحولیاتی نظام کا انتظام سوچ سمجھ کر کیا جائے۔

یہ بھی واضح ہے کہ اضافی انسانی سرگرمیوں سے فوری دباؤ کو کم کر کے، ہم سمندری انواع اور ماحولیاتی نظام کی لچک کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس طرح ، ہم سمندر کی صحت اور اس کے '' مدافعتی نظام '' میں ان گنت چھوٹی بیماریوں کو ختم یا کم کر کے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ جن سے اس کا شکار ہوتا ہے۔

سمندری انواع کی کثرت کو بحال کرنا، مینگرووز، سمندری گھاس کے میدان، مرجان، کیلپ کے جنگلات، ماہی گیری، تمام سمندری زندگی، سمندر کو وہ خدمات فراہم کرنے میں مدد کرے گی جن پر تمام زندگی کا انحصار ہے۔

یہ سسٹم 72 گھنٹوں تک شمال کی سمت بڑھنے کی پیش گوئی ہے، جس کے بعد اس کے مشرق کی جانب مُڑنے کا امکان ہے جب کہ کچھ اثرات مغرب کی جانب منتقل ہونے کا امکان اب بھی موجود ہے، تاہم سندھ کی ساحلی پٹی کا بڑا حصہ تاحال اس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری ایڈوائزری میں اس طوفان کے ممکنہ اثرات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، :اس طوفان کے جنوب مشرقی سندھ کے ساحل تک پہنچنے پر ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر اور عمرکوٹ اضلاع میں 13 سے 17 جون کے دوران تیز ہوائیں چلنے اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔

13 اور 14 جون سے 16 جون تک کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار، میرپورخاص اضلاع میں تیز ہوائیں اور آندھی/گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔ تیز ہوائیں کمزور، کچے مکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

حکومت کی جانب سے ماہی گیروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کھلے سمندر میں نہ جائیں جب تک کہ یہ سسٹم 17 جون تک ختم نہ ہو جائے، کیونکہ بحیرہ عرب کی صورت حال مزید شدت اختیار کرسکتی ہے اور ساحل سمندر کے نزدیک اونچی لہریں بھی آسکتی ہیں۔

حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے موسمی حالات میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ملک میں کہیں معمول سے ہٹ کر بارشیں برس رہی ہیں تو کہیں ایسی ژالہ باری ہوتی رہی ہے کہ جس نے فصلوں اور پھلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔

اسی طرح سیلاب، برف باری، لینڈ سلائیڈنگ ، کلاؤڈ برسٹ، شہری علاقوں میں غیر معمولی بارشیں اور گلیشیئر ٹوٹنے کے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہے۔ مئی کے مہینے میں موسم نے اپنی روایت کے برعکس سردی کی چادر اوڑھ لی تھی اور ملک کے مختلف حصوں میں کافی زیادہ بارشیں دیکھی گئیں۔

پاکستان میں کچھ عرصے سے موسمی حالات کافی غیر یقینی کے شکار نظر آتے ہیں اور کئی مرتبہ محکمہ موسمیات کے پیش گوئیوں کے برعکس موسمی حالات کا ظاہر ہونا بھی اب ایک طرح سے معمول بنتا جا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ پاکستان میں اب تقریبا ہر موسم ہی شدید ہوتا جا رہا ہے۔ گرمی ہو تو بہت زیادہ ہوتی ہے اور سردی بھی انتہائی سطح تک پہنچ جاتی ہے، یعنی ہر موسم ریکارڈ بریکنگ کنڈیشنز لاتا ہے۔

دراصل موسموں کی ترتیب تھی، وہ بھی تیزی سے بدل رہی ہے، موسم بہار تو اب نام کا ہی رہ گیا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی دیکھا گیا کہ مارچ ہی سے ہیٹ ویو شروع ہو گئی، پھر ان دنوں مئی اور جون، جن میں عموماً گرمی زیادہ ہوتی ہے، یہ مہینے مغربی ہواؤں کے نظام کی وجہ سے زیادہ سرد ہو گئے۔

اس بار پاکستان میں موسم گرما موسم بہار کے بغیر ہی داخل ہو گیا ہے، بہار کا موسم پاکستان میں ختم ہو گیا۔ دنیا میں موسم کا لا نینا پیٹرن (La nine) تین چار برس سے چل رہا تھا۔ اس پیٹرن کے دوران مون سون کی بارشیں معمول یا معمول سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں جیسا کہ پچھلے برس ہم نے دیکھا۔ اس کے بعد فروری سے مئی تک کا دورانیہ نیوٹرل پیٹرن کا تھا۔

اب جون سے لا نینا کے برعکس اثرات والا النینو پیٹرن (El Niño) شروع ہو رہا ہے۔ اس میں مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق یا اس سے کم ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس برس مون سون کی وجہ سے سیلاب کا زیادہ خدشہ نہیں ہے، گو ابھی تک ہیٹ ویو نہیں آئی، ہو سکتا ہے کہ جون یا جولائی میں ایک دو لہریں آئیں۔ محکمہ موسمیات نے ابھی ایسی کوئی پیش گوئی نہیں کی ہے ۔

دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کی رفتار تیز ہوتی جارہی ہے، عالمی درجہ حرارت اور سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اس لیے گرمی کی اٹھنے والی لہروں، خشک سالیوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں اور جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ جیسے واقعات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ یہ حالات کسانوں کے لیے اناج اگانے اور بھوک کے شکار لوگوں تک خوراک پہنچانے کو مشکل بنا رہے ہیں۔

سائنسی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ زمین پر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی تغیرات زیادہ تواتر کے ساتھ اور زیادہ شدید ہوتے جائیں گے۔ بارشوں کی کمی یا زیادتی اور شدید گرمی مویشیوں کو ہلاک اور فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ گزرے برس اگست کے آخر میں پاکستان میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے تباہ کن سیلاب آئے جن سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز سمیت تمام ذرایع سے عوام کو احتیاطی تدابیر بتائی جائیں۔ ہائی رسک علاقوں کی نشاندہی کرکے لوگوں کو وہاں سے فوری نکالا جائے، نالوں اور چوک پوائنٹ کو فوری صاف کیا جائے، پمپنگ اسٹیشن مکمل فعال رکھے جائیں، کمزور عمارتوں کو خالی کروایا جائے، ڈی واٹرنگ مشین اور پمپنگ مشینوں کو شہر کے مختلف مقامات پر رکھا جائے۔

عوام موسمیاتی حالات سے آگاہ رہیں اور ساحل پر جانے سے گریزکریں۔ صوبائی حکومت نے صائب اقدامات اٹھائے ہیں،اب یہ عوام پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی مکمل تعاون کریں اور بے احتیاطی اور لاپرواہی سے گریزکریں۔

سمندری طوفان ہو 'مون سون کی بارشیں ہوں 'زلزلے ہوں یا دریائی سیلاب ' نسل انسانی ہزاروں لاکھوں برس سے ان قدرتی آفات کا سامنا کرتی چلی آ رہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے ان قدرتی آفات سے انسانوں اور دیگر جانداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے خاصی انتظامات کر لیے ہیں ' بلاشبہ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن ان کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور انسانوں کو ہلاکت سے بچایا بھی جا سکتا ہے ۔

پاکستان کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح قدرتی آفات سے نمٹ سکے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری حکومتوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان اداروں اور محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جن کی ذمے داری اور فرض ہی سیلاب اور بارشوں وغیرہ سے نمٹنا ہے۔

فائربریگیڈ انگریز کے زمانے میں آج کے مقابلے میں زیادہ فعال تھا 'اسی طرح بلدیاتی ادارے بھی زیادہ فعال تھے ' محکمہ انسداد بے رحمی جانوراں ہو یا مون سون اور دیگر موسموں میں مچھرمار سپرے کرنا 'گلیوں اور نالیوں کی صفائی باقاعدگی سے کرنا 'یہ سب کام بلدیہ کے ادارے کرتے تھے۔

آج بلدیاتی ادارے تو موجود ہیں ' ان کے افسر اور ملازمین بھی موجود ہیں'کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں بھی وصول کی جا رہی ہیں لیکن کام ندارد ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں