بجلی کی غربت
انفرااسٹرکچر سے مراد گرڈ اسٹیشن، تار،کھمبے اور میٹر وغیرہ شامل ہیں
سندھ کی آبادی گزشتہ ماہ مکمل ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق 54,858,575 تک پہنچ گئی ہے مگر اس آبادی کا 54 فیصد حصہ اب بھی بجلی کی نعمت سے محروم ہے، یوں ملک کے دوسرے بڑے صوبہ کی آبادی کی اکثریت بجلی نہ ہونے کی بناء پر ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔
صوبائی وزیر برائے توانائی امتیاز شیخ نے سندھ اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے ہزاروں دیہاتوں میں ابھی تک بجلی فراہم نہیں ہوسکی ہے۔
امتیاز شیخ نے اراکین اسمبلی کو آگاہ کیا کہ صوبہ کی اکثریتی آبادی کو بجلی فراہم نہ کرنے کی وجوہات میں انفرا اسٹرکچر کی کمی ہے۔
انفرااسٹرکچر سے مراد گرڈ اسٹیشن، تار،کھمبے اور میٹر وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے ان گاؤں کی نشاندہی کی ہے جو اب تک بجلی کی نعمت سے محروم ہیں۔ عالمی بینک نے ابھی اس بارے میں ایک اسٹڈی کی ہے۔
اب سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر سندھ ریگولیشن آف الیکٹرک پاور سروس بلSindh Regulation of Electric Power Service Bill منظورکیا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے ساتھ اب سندھ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی SEPRA کا قیام عمل میں آئے گا۔ یہ ادارہ وفاق میں بنام نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے کام کرے گا۔
سیپرا کے قیام کا مقصد بجلی کی تقسیم کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت سیپرا بجلی فراہم کرنے والی سروس کو لائسنس کے اجرائ، لائسنس کی معطلی یا منسوخی کا فریضہ انجام دے گا۔ سیپرا کو بجلی کی سپلائی اور الیکٹرک پاور سروس کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ سیپرا صوبہ میں بجلی کی بغیرکسی رکاوٹ کے فراہمی اور اس کے ٹیرف کا بھی تعین کرے گا۔
برصغیر میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے پھر 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برطانوی ہند حکومت نے ہندوستان میں جدید انتظامی عدالتی نظام نافذ کیا، تعلیم کا جدید نظام شروع کیا گیا۔ انگریز حکومت نے کلکتہ سے دہلی تک ریلوے لائن تعمیرکی، یوں ریلوے چلنے سے ہندوستانی سماج میں بنیادی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔
برطانوی حکومت نے کلکتہ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ ایک برطانوی کمپنی Kil Burn & Co. نے 24جنوری 1879ء کو کلکتہ کی ایک سڑک پر بجلی کے بلب روشن کیے تھے۔ 1881ء میں کلکتہ میں گھروں کو بجلی فراہم کی جانے لگی۔
انگریز حکومت کی جانب سے کلکتہ کے بعد بمبئی میں 22 جولائی 1905ء سے بجلی گھروں کو بجلی فراہم کی جانے لگی، بعد ازاں دہلی کو بجلی مہیا کی گئی۔
جب ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد 1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو پاکستان میں 60MW بجلی تیار ہوتی تھی۔ کراچی میں 1913ء میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے قیام سے بجلی کی باقاعدہ فراہمی شروع ہوئی۔ حکومت نے 1970ء میں ملک کا سب سے پہلا ایٹمی بجلی گھر کراچی میں تعمیرکیا۔
ملک کے پہلے آمر جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1958ء میں ایک قانون کے تحت واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (WAPDA ) کا محکمہ قائم کیا۔ واپڈا کے فرائض میں ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ملک بھر میں بجلی فراہم کرنا تھا۔
(سوائے کراچی) پھر واپڈا کے تحت مختلف شہروں میں واپڈا کے ذریعہ نگراں بجلی کی فراہمی کی کمپنیاں قائم کی گئیں، یوں حیدرآباد، سکھر الیکٹرک کمپنی قائم ہوئی۔
ملک میں بجلی کی فراہمی کی پیداوار اور بجلی کی فراہمی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سندھ کے علاقہ گڈو میں 640 میگاواٹ کا تھرمل پاور اسٹیشن قائم کیا گیا۔ گڈو تھرمل پاور اور گیس فائر پلانٹ میں 1.762 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے مگر یہ بجلی پنجاب ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو فراہم کی جاتی ہے۔
میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں چین سے سی پیک کا معاہدہ ہوا۔ سندھ کے ریگستانی علاقہ تھر میں سیکڑوں برسوں سے کوئلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ چین نے سی پیک کے منصوبہ کے تحت ذخائر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ تھر میں تعمیر کیا، یوں اب کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ کی پیداوار شروع ہوئی۔
تھر کول پلانٹ سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق تھر کے ایک پلانٹ سے 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے، مگر یہ بجلی تھر میں فراہم نہیں کی جارہی۔ تھر کی آبادی کے 5 فیصد حصہ کو بجلی ملتی ہے۔
حکومت سندھ نے 2017ء میں وعدہ کیا تھا کہ تھر کے مختلف علاقوں میں نیشنل گرڈ کے بجائے سولر سسٹم سے بجلی فراہم کی جائے گی مگر اس وعدہ پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ کراچی کے قریب جھمپیر میں ونڈ مل پارک قائم کیا گیا ہے۔
اس پارک میں 100 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے مگر جھمپیر اور ٹھٹھہ ڈویژن کو یہ بجلی فراہم نہیں کی جاتی۔ ایک دفعہ پھر آئین میں 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا۔
اس قانون کے تحت اب قومی مالیاتی ایوارڈ NFC کے ذریعہ صوبوں کی آمدنی میں صد فی صد اضافہ ہوا۔ اب صوبوں کو بجلی پیداوار کرنے اور بجلی کی تقسیم کے اختیارات بھی مل گئے۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت نے نجی شعبہ کو بجلی پیدا کرنے، کارخانے قائم کرنے کی اجازت دی۔ یوں ملک میں بجلی انتہائی مہنگی ہوگئی۔
برسرِاقتدار آنے والی حکومتوں نے بجلی کی پیداوار پر توجہ نہ دی جس کے نتیجہ میں ملک میں لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ہر گاؤں میں بجلی کی فراہمی کے منصوبے شروع کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ کراچی میں کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ پر کام مکمل ہوگیا ہے۔
بجلی کی کمی سے زرعی شعبہ شدید متاثر ہوا۔ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے سستی بجلی انتہائی ضروری ہے۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندرونِ سندھ کارخانے بھی نہیں لگ سکے جس کے نتیجہ میں غربت کی شرح بڑھی، ہزاروں افراد کو اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر کراچی اور حیدرآباد کی طرف رخ کرنا پڑا، جس سے نئے تضادات پیدا ہوئے۔
سندھ میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد مزید بڑھ گئی۔ سندھ کا مستقبل صنعتی ترقی میں مضمر ہے مگر صنعت کاری کے لیے سستی بجلی ضروری ہے۔ سندھ کا موجودہ بجٹ اس بارے میں خاموش ہے۔