گرینڈ ڈائیلاگ ناگزیر
پاکستان کا سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی اور معاشی ڈھانچہ زوال پزیری کا شکار ہے
پاکستان کا سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی اور معاشی ڈھانچہ زوال پزیری کا شکار ہے۔ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اپنے لیے ترقی کے نئے موثر امکانات کو پیدا کرنا ہے تو موجودہ نظام میں بڑی تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔
کیونکہ سیاست کی درستگی اور جمہوری معاملات کو اختیارکیے بغیر ہم کبھی معاشی ترقی کے امکانات کا فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔ روائتی اور پرانے فرسودہ خیالات، سوچ ، فکر اور ڈھانچوں کی بنیاد پر کوئی بڑی نوعیت کی تبدیلی کا عمل بھی ممکن نہیں ۔
جمہوری معاشروں میں انقلابات سے زیادہ اصلاحات کی بنیاد پر آگے بڑھا جاتا ہے اور ایسی اصلاحات جو قومی تقاضو ں کے مطابق بھی ہوں اور اس میں دنیا کے تجربات سے سیکھ کر جدیدیت کی بنیاد بھی ہو تو ہم نئے سیاسی اور معاشی امکانات کو پیدا کرسکتے ہیں ۔اس وقت قومی سطح پر سیاسی اور جمہوری نظام نہ صرف سیاسی جمود کا شکار ہے بلکہ جمہوری راستے اور جمہوری روایات بھی دم توڑ رہی ہیں ۔
جو بھی دنیا میں جمہوری معاشرو ں کی ترقی کے اشاریے موجود ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر ہمارا جمہوری نظام ابھی بھی کمزور ہے یا ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے ۔ ہم نے جمہوریت کے مقابلے میں شخصیات اور اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد کو مضبوط کیا ہے ۔
جمہوریت کی جو ساکھ یا اس کی ڈلیوری کے پہلو کمزور ہوئے ہیں اس کی وجہ جہاں خارجی مسائل ہیں وہیں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے جڑے داخلی مسائل بھی سرفہرست ہیں۔ کیونکہ ہم نے یہاں سیاسی جماعتوں کو مضبوط نہیں کیا اور سیاسی جماعتوں کی عدم فعالیت کی وجہ سے جمہوری نظام حقیقی معنوں میں اپنے ثمرات عوام کو دینے میں ہی ناکام ثابت رہا ہے۔
اسی وجہ سے ہمارا جمہوری نظام عوامی سطح پر اپنی ساکھ کو قائم نہیں رکھ سکا اور لوگ ہماری جمہوریت کے تناظر میں ہی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھا رہے ہیں ۔ اگر آج یہاں جمہوریت کمزور ہے تو اس کی وجہ کوئی ایک فریق نہیں بلکہ ہم سب ہی انفرادی یا اجتماعی طور پر اس کے ذمے دار ہیں ۔
سیاست اور جمہوریت راستے نکالنے کا نام ہے اور جو بھی مسائل یا تنازعات ہوتے ہیں ان کا حل تلاش کرکے آگے بڑھنے اور اپنے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی نئے امکانات کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔
مگر ہم نئے امکانات کی بجائے جو پہلے سے موجود امکانات یا مواقع ہوتے ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانے کی بجائے معاملات کو اور زیادہ خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔سیاست اور جمہوریت میں سیاسی دشمنی یا ایک دوسر ے کے لیے سیاسی راستے بند کرنے کا بڑا فائدہ ان ہی قوتوں کو ہوتا ہے جو غیر سیاسی ہوتی ہیں ۔
ماضی میں دو بڑی سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کی سخت حریف ہی نہیں تھیں بلکہ ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات لگاتی رہی ہیں ۔ ان ہی دو جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے 2006میں لندن میں بیٹھ کر ایک بڑا معاہدہ '' میثاق جمہوریت '' کے نام پر کیا تھا۔
اس میثاق جمہوریت کی اچھی باتیں بھی ہیں اور عملدرآمد کے نظام میں بڑے تضادات بھی نمایاں ہیں ۔آج بھی اگر ہم اپنے سیاسی بحران کو دیکھیں تو یہ محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس نے ایک بڑے ریاستی بحران کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایسے میں سارے سیاسی پنڈت اس نقطہ پر متفق ہیں کہ موجودہ بحران کا حل سوائے مذاکرات اور مفاہمت یا اتفاق رائے پر مبنی ایجنڈا ہی ہے۔ سب لوگ مذاکرات اور مفاہمت پر زور دے رہے ہیں۔
مذاکرات صرف سیاسی قوتوں تک ہی محدود نہیں ہونے چاہیے بلکہ تمام فریقین یا اسٹیک ہولڈرز بھی شامل ہوں۔ ہم سب کے پاس آگے بڑھنے کے لیے آئین ہی واحد کنجی ہے جو سب کو جوڑنے میں مدد دے سکتی ہے اور اسی بنیاد پر ایک دوسرے کے امور میں مداخلت سے گریز کرکے آگے بڑھنے میں ہی سب کا مفاد وابستہ ہے۔
مذاکرات کا ایجنڈا محض ایک دوسرے پر سیاسی برتری کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ریاستی مسائل کی بنیاد پر ہو اور یہ مل کر ایک بڑے ریاستی ، سیاسی ، معاشی ، انتظامی ، قانونی اور جمہوری فریم ورک کی نشاندہی کرے تاکہ ہم مثبت انداز میں اور قانونی یا آئینی سمیت جمہوری فریم ورک میں آگے بڑھ سکیں۔
جو لوگ میثاق معیشت کی بات کرتے ہیں ان کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میثاق معیشت کا تعلق بھی میثاق جمہوریت یا ملک کے سیاسی و جمہوری استحکام سے ہی ممکن ہے۔ ماضی میں جو میثاق جمہوریت ہوا وہ محض دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن تک محدود تھا ۔
لیکن جو ہمیںمیثاق جمہوریت کی ضرورت ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو جن میں بڑی جماعتوں کے ساتھ ساتھ علاقائی اور مذہبی جماعتیں بھی ہوں کو شامل کرنا ہوگا۔یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سب ہی فریق اپنی اپنی پہلے سے موجود سخت گیر پوزیشن سے نیچے آنے کے لیے تیار ہونگے اور وہ اس پر یقین رکھتے ہونگے کہ ''گرینڈڈائیلاگ '' ہی مسئلہ کا حل ہے ۔یہ گرینڈ ڈائیلاگ محض میثاق جمہوریت ہی نہیں بلکہ میثاق معیشت سمیت تمام اہم معاملات اور آئین و قانون کی حکمرانی سے جڑا ہونا چاہیے ۔
لیکن یہ گرینڈ ڈائیلاگ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام طاقت کے سیاسی اور غیر سیاسی مراکز اس نقطہ پر متفق ہونگے کے ہمیں خود سے آگے بڑھنے کے لیے کچھ نیا کرنا ہوگا یا کرکے دکھانا ہوگا۔یہ جو سیاست انا پرستی ، سیاسی دشمنی ، تنگ نظری ، تعصب ،نفرت اور شخصی پرستی کی بنیاد پر قائم ہے اس کی موجودگی میں بہتری کے امکانات کو پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے سب سے پہلا نقطہ سیاسی فریقین میں ان معاملات کو یقینی بنانے کے لیے حالات کو سازگار بنانا ہوتا ہے۔
کیونکہ ڈائیلاگ کا مقصد ہی سیاسی جمہود کو توڑنا اور دنیا کے تجربات سے ہی سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔
لیکن اس کے لیے جو بھی طاقت کے مراکز ہیں ان کو یہ کھل کر اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم سب سے مجموعی طور پر غلطیاں ہوئی ہیں ۔کیونکہ جب منطق دی جاتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر بطور ریاست یا دیگر فریقین اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے کیوں تیار نہیں۔ہمیں سیاست میں آگے بڑھنا ہے اور احتساب کے نام پر جو ڈر اور خوف کا کھیل یہاں کھیلا جارہا ہے وہ کل بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے ۔
سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ میں اگر ہم نے ایک دوسرے کا احتساب کرنا ہے اور احتساب بھی وہ جس میں خاص سیاسی طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ہے تو اس میں بھی کچھ نہیں ہوسکے گا۔یہ سوچ سیاست دانوں کے درمیان ڈائیلاگ کی اگر کسی سابق حکومت نے سیاسی غلطی کی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آج کا حکمران طبقہ بھی وہی کچھ کرے جو ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔
ہمیں اپنی اپنی سیاسی اناؤں اور خول پرستی سے باہر نکل کر ان معاملات کوOut of Box غور کرنا ہوگا۔ گرینڈ ڈائیلاگ کے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم مجموعی طور پر '' مکالمہ '' کے کلچر سے علیحدہ ہیں ۔ ہم سب کو ان موجودہ حالات میں سیاست اور معیشت سے جڑے مسائل کا نہ تو بہتر طور پر ادراک ہے اور نہ ہی ان کو حل کرنے کی کوئی خا ص منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔