آئی ایم ایف شرائط حقائق پوشیدہ کیوں

غفلت میں پڑے ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے


Editorial June 17, 2023
غفلت میں پڑے ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے۔ فوٹو: فائل

روس کے بعد آذربائیجان سے بھی اگلے ماہ رعایتی ایل این جی کے کارگوز پاکستان آنا شروع ہوجائیں گے۔

باکو میں وزیراعظم شہباز شریف اور آذربائیجان کے صدر الہام علیووف کی ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان توانائی، زراعت، ٹرانسپورٹ، دفاع سرمایہ کاری و تجارت سمیت دیگر شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔

بلاشبہ آذربائیجان کے تعاون کے نتیجے میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی، اس سے قبل روسی تیل کی درآمد سے آنے والے دنوں میں پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا امکان روشن ہوچکا ہے۔ موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے مشکل ترین معاشی و اقتصادی حالات میں خاصی حد تک متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) کا کہنا ہے کہ بجٹ منظوری سے قبل اسے بہتر بنانے کے لیے حکومت سے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، حکومت کی جانب سے بجٹ تجاویز میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس میں چھوٹ دینے کے معاملے پر آئی ایم ایف کے مشورے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے رویے کو ''پیشہ ورانہ نہیں'' قرار دیا۔

غفلت میں پڑے ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے، آئی ایم ایف کی شرائط بھی اس تلخ حقیقت کی ہی یاد دہانی ہیں۔ وہ وقت گزر چکا ہے جب آپ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھا سکتے تھے اور پھر شرح مبادلہ کے ساتھ بلائنڈ مین بف کھیل کر یہ دکھاوا کرسکتے تھے کہ اصل ریٹ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔

وجہ یہ ہے کہ اس بار ڈالر مارکیٹ سے غائب ہوچکے ہیں۔ نہ ہی آج ہم عالمی مالیاتی منڈیوں سے قرض لے سکتے ہیں کیونکہ اب 10 فیصد کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کے ساتھ معیشت کو نہیں چلا سکتے، نہ ہی ہم بڑے مالیاتی خسارے کو پورا کرسکتے ہیں اور نہ ہی بجلی اور ایندھن پر سبسڈی دے کر اس امید پر گردشی قرضوں میں اضافہ کرسکتے ہیں کہ ہمیں دوست ممالک سے بیل آؤٹ پیکیج مل جائے گا۔

اس بارے میں بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ممالک نئے قرض دینا تو دور کی بات پرانے قرضوں کو رول اوور کرنے کی درخواستوں کو بھی اب پہلے سے زیادہ نظر انداز کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی خاتون مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھیں پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے۔

جو گزشتہ برس آنے والے سیلابوں کی وجہ سے اقتصادی طور پر شدید متاثر ہوئے اور ان سیلابوں نے ملک کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کیا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے، ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے۔

ایک یہ کہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ سبسڈی مخصوص ہونا چاہیے۔ درحقیقت ہم اپنے نظام کی ساختی کمزوریوں اور عدم توازن پر گفتگو کرسکتے ہیں لیکن اس سے عالمی معاشی صورتحال اور آئی ایم ایف کی جانب سے معاشی اصلاحات پر زور دیے جانے کی وجہ کا احساس مزید پختہ ہوگا۔

دوسری صورت میں تو معیشت بالآخر ڈوب جائے گی۔ سیلاب کے بعد کی معاشی صورتحال کے پس منظر میں یہ مطالبہ نامناسب معلوم ہوتا ہے لیکن قلیل مدت میں بہت کم چیزیں ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں جب کہ وسط اور طویل مدت میں تو ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔سب سے مشکل کام زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے سے متعلق ہوگا جو بیرونی معاشی اثرات سے ہمیں بچاسکتا ہے اور ماضی میں یہ ہمارے لیے مشکلات کا باعث بن چکے ہیں۔

ہمیں اپنی درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری مقامی مارکیٹ بہت زیادہ منافع کماتی ہے اور مراعات کا موجودہ نظام برآمدات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ ہمیں ترقی کے نئے راستوں کو کھولنے کی ضرورت ہے جو علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں۔

آئی ایم ایف کا اصلاحاتی پیکیج ٹیرف کو کم کرنے اور خام مال کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے برآمدات پر مبنی ترقی کی بات کرتا ہے۔

بدقسمتی سے اس طرح درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ترقی کی نئی حکمتِ عملی میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں منافع سب سے زیادہ ہوگا اور یہ ہمیں خوراک میں خود کفیل بھی بنائے گا۔

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے مغربی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں پاکستان کسی ایسے خطرناک مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں اس کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنا پڑے۔ آئی ایم ایف دو چیزوں پر زور دیتا ہے ایک یہ کہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو ٹیکس ادا کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔

سبسڈیز کی منصفانہ تقسیم کرتے ہوئے ضرورت مند افراد کو سبسڈی دی جائے اور طبقہ امرا اور اشرافیہ کو سبسڈیز کا فائدہ نہ پہنچے۔ فنڈ پاکستان کے غریب طبقے کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام اگر، مگر اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔

سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے، وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔

سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس سے قبل یہی بات ہیلری کلنٹن بھی کہہ چکی ہیں، یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔

جب تک پاکستان کے حکمران طبقات ریاست کی جانب سے ملنے والی مالی مراعات یعنی ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی اور رعایات سے دستبردار ہونے کے لیے رضامندی نہیں ظاہر کریں گے تب تک حکومت کے سالانہ بے تحاشہ اخراجات میں کمی واقع نہیں ہو سکے گی اور نتیجے کے طور پر ہمیشہ رہنے والا بجٹ خسارہ جوں کا توں رہے گا۔

سچ کہا جائے تو آئی ایم ایف کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہا، وہ محض ٹیکس کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ماضی میں جب پاکستان کو اسی طرح کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو یکے بعد دیگرے آنے والی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے طے شدہ پالیسی پر ردعمل یہی آتا رہا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ میں اضافہ کر دیا جائے اور سارا بوجھ عوام، خاص طور پر غریبوں اور مقررہ آمدنی والے طبقات پر ڈال دیا جائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ ریاست سے سالانہ انیس ارب ڈالر سے زائد کی مراعات اور سہولیات کے مزے لوٹتی ہے۔ ان میں وہ سہولیات شامل ہیں جو پراپرٹی کے کاروبار سے جڑے سیٹھوں، لاڈلے صنعتی شعبے اور کارپوریٹ اداروں سمیت دوسرے اشرافی طبقات کو دی جاتی ہیں۔

آئی ایم ایف کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے روپے کی قدر کو مارکیٹ کی قوت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہلے ہی اس میں گراؤٹ لائی جا چکی تھی۔ اشرافیہ خاص طور پر سیاسی طبقے، بڑے زمینداروں اور کارپوریٹ صنعت کاروں نے ملک پر حکمرانی کی ہے اور ان طبقات نے برآمدات پر مبنی معیشت کی تشکیل کے لیے ٹیکس کے نظام کی تنظیم نو کی کوششوں اور تعلیم، سائنس اور اختراع کے میدان میں سرمایہ کاری کی ہمیشہ مزاحمت کی ہے۔

افغانستان سے امریکا کے انخلاء اور مغرب کی فوری سیکیورٹی ضرورت نہ ہونے کے باعث پاکستان کی اشرافیہ مایوسی کا شکار ہو چکی ہے اور اشرافیہ سے نیچے والے طبقات کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔

ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالیاتی مراعات کا سب سے بڑا حصہ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا رہا ہے جو ہر سال ایک اندازے کے مطابق 4.7 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات وصول کرنے والے لوگ ملک کا امیر ترین'ایک فیصد'طبقہ اشرافیہ رہا ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کا مالک ہے اور جاگیردار طبقہ جو کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے مگر تمام قابل کاشت زمین میں سے 22 فیصد کا مالک ہے۔

جب تک پاکستان کے حکمران طبقات ریاست کی جانب سے ملنے والی مالی مراعات یعنی ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی اور رعایات سے دستبردار ہونے کے لیے رضا مندی نہیں ظاہر کریں گے تب تک حکومت کے سالانہ بے تحاشہ اخراجات میں کمی واقع نہیں ہو سکے گی اور نتیجے کے طور پر ہمیشہ رہنے والا بجٹ خسارہ جوں کا توں رہے گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس وقت آئی ایم ایف کی تجاویز مان کر ڈیفالٹ سے بچنے اور خود تیار کی گئی حکمتِ عملی کی بنیاد پر معاشی اصلاحات لانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس کے بعد ہم آئی ایم ایف سے جان چھڑا سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں