پاکستانی سائنسداں نے زحل کے چاند پر حیات کے لیے ضروری فاسفورس دریافت کرلیا

جرمنی کی یونیورسٹی آف فِریئے اور بین الاقوامی ٹیم نے خلائی جہاز کیسینی کے ڈیٹا کو برسوں تک جائزہ لیا ہے


سہیل یوسف June 17, 2023
ڈاکٹرنوزیر خواجہ اور ان کے ساتھیوں نے زحل کے چاند اینسلیڈس پر فاسفورس دریافت کیا ہے۔ فوٹو کولاج: جہانگیر اختر علی

پاکستانی سائنسداں اس اہم ٹیم کا حصہ ہیں جس نے ہمارے نظامِ شمسی میں حیات کے لیے ایک ضروری عنصر دریافت کرلیا ہے۔

کائنات میں کسی زندگی کے آثار تلاش کرنے والی اس ٹیم میں ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو یونیورسٹی آف فِریئے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سیارہ زحل کے برفیلے چاند، اینسلیڈس پر فاسفورس دریافت کیا ہے جو حیات کے لیے انتہائی ضروری لیکن نایاب عنصر بھی ہے۔

جامعہ فِریئے سے وابستہ پروفیسر فرینک پوسٹبرگ بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ ہیں جنہوں نے کئی برس تک ناسا کے خلائی جہاز کیسینی کے ڈیٹا کا بغورجائزہ لے کر بتایا ہے کہ اینسلیڈس چاند کی گہرائی ایک وسیع سمندر موجود ہے جہاں فاسفیٹس کی شکل میں فاسفورس موجود ہے۔

یہ پڑھیں : یہ تحقیق بدھ 15 جون 2023 کو ممتاز سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہوئی ہے۔

پروفیسر فرینک پوسٹبرگ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ''ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اینسلیڈس کے سمندری پانی میں بڑی مقدارمیں فاسفیٹس موجود ہیں اور ہمارے ارضی کیمیائی تجربات بتاتے ہیں کہ آخر زمینی سمندر کے مقابلے میں اینسلیڈس کے بحر میں اس اہم مرکب سے کیوں مالامال ہے'' ۔

حیات کے چھ اہم اجزا ایک ہی جگہ موجود

فاسفورس ہماری زمین پر بھی ایک نایاب عنصر ہے جو مٹی کو زرخیز تو بناتا ہی ہے لیکن زندگی کی کتاب ڈی این اے اور اس سے وابستہ آراین اے کی تشکیل میں بنیادی ڈھانچے کا کردار ادا کرتا ہے، یہی وجہ ہے برفیلا اینسلیڈس حیات کے لیے ایک موزوں ترین امیدوار ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اپنی ای میل میں ایکسپریس کو بتایا کہ ''اینسلیڈس پر فاسفیٹ کی دریافت کے بعد وہاں زندگی کے لیے انتہائی ضروری چھ اہم عناصر کی تعداد پوری ہوچکی ہے جن میں کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن، فاسفورس اور سلفر شامل ہیں''۔

ہم جانتے ہیں کہ فاسفورس حیات کے لیے انتہائی بنیادی اینٹ کی طرح ہے جو ڈی این اے کے علاوہ بھی حیات کے لیے بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے مزید کہا کہ ''اس (فاسفورس کی) دریافت کے بعد زحل کا چاند زمین سے ماورا زندگی کی تلاش کے لیے ایک اہم مقام بن چکا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید آلات و ٹیکنالوجی سے لیس نئے خلائی مشن اس جانب بھیجے جائیں تاکہ ہم حقیقی طور پر جان سکیں کہ آیا اس کا سمندر میں حیات کے لیے کتنا اور کس قدر موزوں ہے''۔

کیسینی خلائی جہاز

صرف 500 کلومیٹر وسیع انسلیڈس ، سیارہ زحل کا چھٹا بڑا چاند ہے۔ اس کی تسخیر کا سہرا ناسا کے شاندار خلائی مشن، کیسینی کے سر جاتا ہے جو 2004ء میں حلقوں والے خوبصورت زحل پر پہنچا تھا۔

کیسینی نے کل 453,048 تصاویر لیں جو اس سیارے اور چاندوں کی تھیں اس نے سیارے کے درجنوں چاندوں کے 162 چکر کاٹے جو منصوبے کے تحت تھے۔ اسی خلائی جہاز نے مزید چھ چاندوں کی دریافت میں ہماری مدد کی۔ سب سے بڑھ کر 635 جی بی ڈیٹا بھیجا جس پرآج بھی غور جاری ہے۔

اس ڈیٹا اور معلومات کی روشنی میں ہم زمین والوں نے ایک دو نہیں بلکہ 3948 تحقیقی مقالے تحریر کئے۔ پھر 2017ء میں اسے جان بوجھ کر زحل کی فضا میں دھکیل کر آخری سفر پر روانہ کیا گیا جہاں یہ تباہ ہوگیا۔ لیکن یاد رہے کہ کیسینی کا ڈیٹا مزید کئی برس تک سائنسدانوں کو تحقیق اور دریافت میں مصروف رکھے گا۔

کیسینی پر لگے 'کاسمک ڈسٹ اینالائزر' یا سی ڈی اے نے 2015ء بتادیا تھا کہ اینسلیڈس محض برف کا گولہ نہیں بلکہ اس کے نیچے ایک وسیع سمندر ہے۔ پھر چاند کے سمندر کے فرش پر چمنی نما وینٹ ہیں جن سے خارج ہونے والے برفیلے ذرات پھوار کی طرح اوپر جاتے ہیں۔

چاند کی برفیلی چادر جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی ہے۔ برفیلے ذرات کچھ گیسوں کے ساتھ وہاں سے باہر آرہے ہیں اور کیسینی پر نصب سی ڈی آلے کے طیف پیما (اسپیکٹرومیٹر) نے ان کی تفصیلات جمع کیں۔

اس ڈیٹا کے طویل مطالعے کے بعد ڈاکٹر فرینک، نوزیر خواجہ اور دیگر ماہرین نے احتیاط سے دیکھا کہ بعض ذرات میں فاسفیٹس کے اشارے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب اینسلیڈس پر فاسفورس کی دریافت کا باضابطہ اعلان کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر نوزیر خواجہ فلکی حیاتیات (ایسٹروبیالوجی) کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل اینسلیڈس پر حیاتیات کے لیے موزوں ایک سالمہ بھی دریافت کرچکے ہیں۔ ان کے تحقیق مقالہ جات، نیچر اور منتھلی نوٹسس آف دی رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔

وزیر آباد میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے پنجاب یونیورسٹی سے خلائی سائنس و فلکیات میں ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی اور جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے ارضی علوم میں ڈاکٹریٹ کے بعد اسی جامعہ کے ارضیاتی تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوئے۔

واضح رہے کہ برلن میں واقع یونیورسٹی آف فِریئے میں فلکی حیاتیات کے شعبے کے قیام میں ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اہم اور بنیادی کردار بھی ادا کیا ہے۔ اب وہ ناسا کے یوروپا اسپیس کلپر مشن پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان کی خلائی ایجنسی (جاکسا) کے ڈیسٹنی پلس مشن پر بھی تحقیق امور سے وابستہ ہیں۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر حیاتیات کے تجربات میں بھی ڈاکٹر نوزیر پیش پیش ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں