وعدہ پورا کریں
جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 14 فیصد کا اضافہ ہونے کی خبر ہے قوم کی جان ہوگی تو بچائی جائے گی
جب کوئی انسان کسی بات کا وعدہ کرتا ہے تو اسے ثابت قدم رہ کر اس وعدے کی تکمیل کرنی چاہیے ،عجیب باتیں ہمیں پرنٹ میڈیا کے حوالے سے پڑھنے کو ملتی ہیں ذہن ہے کہ بپھرے ہوئے سمندر کی طرح شور مچاتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ابھی تو بڑھی ہے مگر اگلے سال ختم ہو جائے گی۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الیکشن اکتوبر میں ہو جاتے ہیں تو پھر یہ فیصلہ تو آنے والی حکومت کرے گی، دیکھیے آنے والی حکومت کس کی بنتی ہے کیونکہ نئی حکومت تو یہ کہہ کر جان چھڑا لے گی کہ مہنگائی اور مسائل تو ہمیں پچھلی حکومت سے ملے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس کو ملتی ہے کیونکہ اس دفعہ تو حکومت پی ڈی ایم کی ہے.
یہ بات دوسری ہے کہ جب مسائل کی بات ہوتی ہے تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ ہم تو اتحادی ہیں مگر تمام جماعتوں کے نمایندے وزارت سے منسلک ہیں مگر مسائل کے حوالے سے ہم اتحادی ہیں، یہ سوچنے والی بات ہے۔
بنگلہ دیش نے پاکستان کو معیشت کے ہر شعبے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے اب معیشت تو جب ہی بہتر ہو سکتی ہے جب یہ سیاسی جھگڑے ختم ہوں گے۔ اکتوبر میں الیکشن کی امید ہے ظاہر ہے اگلا بجٹ تو نئی آنے والی حکومت ہی دے گی اب دیکھنا ہے کہ اس بجٹ پر کیا عمل ہوتا ہے ادھر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ متبادل ذرائع سے بجلی کے منصوبے عنقریب شروع کریں گے۔
کے الیکٹرک کا معاہدہ غالباً 20 جولائی 2023 تک ہے ماضی میں ڈاکٹر قدیر خان مرحوم (رب مغفرت کرے) نے ویڈیو اور اخبارات میں بیان دیا تھا کہ حکومت میرا ساتھ دے میں بجلی فی یونٹ 4 روپے بنا کر دے سکتا ہوں حالیہ بیان ثمر مبارک نے دیا ہے کہ مجھے موقع دیں تو میں اس ملک کو بہت ہی سستی بجلی بنا کر دے سکتا ہوں۔
ڈاکٹر قدیر مرحوم تو اب دنیا میں نہیں مگر معروف سائنس دان ثمر مبارک سے محترم وزیر اعظم رابطہ کریں ان سے ہر قسم کا تعاون کیا جائے تاکہ قوم کو سستی بجلی مل سکے اس پر وزیر اعظم صاحب خصوصی توجہ دیں۔ مزے کی بات دیکھیں کہ 75 سال کے بعد بھی ہمارے پاس نہ بجلی ہے نہ گیس اور نہ کوئی تعلیمی نظام کیا غیر تعلیم یافتہ لوگ صرف شربت، فالودہ، دہی بڑے، پکوڑے بیچ کر گزارا کریں گے۔
جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 14 فیصد کا اضافہ ہونے کی خبر ہے قوم کی جان ہوگی تو بچائی جائے گی یہاں تو مسائل کی وجہ سے جان بھی بے جان ہوتی جا رہی ہے، سوچوں کے محور میں سب مصروف ہیں ''پانی کے اترنے میں ابھی وقت لگے گا، حالات کے سنورنے میں ابھی وقت لگے گا' آپ بیرون ملک چلے جائیں آپ کو کہیں بھی یہ لکھا کسی دکان پر نہیں ملے گا۔
خالص دودھ، خالص گھی، خالص شہد، خالص آٹا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں ایمانداری سے چیز خریدنے کی تلقین کی جاتی ہے ہر جگہ مکاری جھوٹ فریب ملاوٹ کیوں نظر آرہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پرسان حال کوئی نہیں جب کہ ہماری کابینہ سب سے بڑی کابینہ ہے تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ کابینہ دن رات عوامی مسائل پر کام کر رہی ہے اور اگر کر رہی ہے تو نظر کیوں نہیں آتا اس لیے کہ دنیا کا سب سے بڑا موڑ پاکستان میں ہے جس کا نام نازک موڑ ہے اس موڑ سے پاکستان 70 سال سے گزر رہاہے لیکن حیرت ہے کہ یہ موڑ ختم ہی نہیں ہوتا۔
ادھر گیس کی قیمتیں بھی بڑھنے والی ہیں گیس کی سپلائی عوامی طور پر نہ ہونے پر یہ حال ہے شکر کرے قوم کہ گیس طریقے سے ملتی ہی نہیں ہے اگر طریقے سے ملتی تو سوچیں کہ قوم کا بنتا کیا ہر کام باکمال ہو رہا ہے ہماری سیاسی قیادت مہم جوئی پر شاید یقین نہیں کرتی اگر کرتی تو آج قوم اتنی بدحال نہ ہوتی۔
قارئین بھی سوچتے ہوں گے کہ روز روز نئی باتیں آتی ہیں مگر کسی پر عمل نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی حافظے کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں بس سب سیاسی حضرات بقا کی جنگ میں مصروف ہیں ،کچھ سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ ہم پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور رہیں گے مسائل کے یہ ذمے دار نہیں ہیں کسی بھی پی ڈی ایم سے وابستہ سیاسی شخصیت نے مسائل حل کرنے مہنگائی کے حوالے سے بات کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔ پی ڈی ایم سے وابستہ سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی مایوس ہیں کہ آنے والے الیکشن میں یہی سیاسی کارکن ووٹر کے پاس جائیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے صحافیوں کو یقین دلایا ہے کہ صحافیوں کو ہیلتھ انشورنس کارڈ دیں گے وہ لاہور پریس کلب کے پروگرام ''میٹ دی پریس'' میں اظہار خیال کر رہی تھیں ، محترمہ، آپ نے یہ پریس کانفرنس لاہور میں کی آپ برائے مہربانی پاکستان کے چاروں صوبوں کے پریس کلب کے صحافیوں کے لیے بھی یہ نرم گوشہ رکھیں ہر مخالفت سے برملا ہو کر ویسے بھی آپ سلجھی ہوئی خاتون ہیں ماضی میں راقم کی ایک ملاقات آپ سے ہوئی تھی اگر آپ صحافیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں تو اپنے سلجھے ہوئے مزاج کے تحت کریں۔ کوئٹہ پریس کلب پشاور پریس کلب، سندھ پریس کلب، کراچی پریس کلب (جو انٹرنیشنل طور پر بھی مانا جاتا ہے) کے صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے۔
چاروں صوبوں کے پریس کلب کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچیںاور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہیلتھ انشورنس OPD کے ساتھ دیں اور تمام صوبوں کے پریس کلب کو یہ مراعات دیں یہ انسانی ذہن کا ایک قانون ہے کہ وہ برابری کی سطح چاہتا ہے اگر آپ بقیہ تین صوبوں کے صحافیوں کو میڈیکل انشورنس سے مستفید نہ کرسکیں تو یقینی طور مایوسی پھیلے گی ۔تمام صوبوں کے صحافیوں کو یہ مراعات دیں کہ صحافی تو صحافی ہوتے ہیں مگر جب آپ تمام صحافیوں کو محبت اور خوش اخلاقی سے انصاف کے ترازو میں تولیں گی تو یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ آپ کی بات کو اس لیے توجہ سے سنے گا کہ آپ نے ان سے میڈیکل کے حوالے سے حق و انصاف کی دہلیز پر نیک قدم رکھا۔مریم اورنگزیب سے ایک گزارش اور کروں گا کہ جو صحافی مستند ABC بڑے اخبارات سے منسلک ہیں اور کسی پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں مگر آپ انشورنس کی سہولت انھیں بھی دیں کہ وہ صحافی حضرات بھی اپنے کام کے ماہر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔
آپ نے دو ہفتے میں اس کارڈ کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہیں، گزارش ہے کہ یہ سہولت آپ OPD کے تحت دلوائیں جس میں مختلف ٹیسٹ، الٹراساؤنڈ، ایکسرے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یقیناً یہ فیصلہ آپ پاکستان کے چاروں صوبوں کے پریس کلب کے صحافیوں کے لیے کریں گی، مجھے امید ہے کہ آپ صحافیوں کو ہیلتھ انشورنس کارڈ برابری کی بنیاد پر دلوائیں گی۔