نئے دور کا آغاز
حکومت کو چاہیے کہ روس سے تیل خریدنے کے سلسلے کو ایک لائحہ عمل کی شکل دے اور اسے جاری رکھنے کی کوشش کرے
پاکستان میں روسی تیل کی آمد یقیناً ایک تاریخ ساز واقعہ ہے، تاہم اس میں شک نہیں کہ روس سے ہمارے تعلقات کبھی یکساں نہیں رہے کبھی نرم اور کبھی گرم رہے ہیں۔
سرد جنگ کے زمانے میں ہمارے مغربی ممالک سے بہتر تعلقات کی وجہ سے روس سے تعلقات کشیدگی کی انتہا تک پہنچ چکے تھے۔ ہم نے امریکی دباؤ میں آ کر اسے اپنے ہاں فضائی اڈے بھی قائم کرنے دے دیے تھے۔
ایک ہوائی اڈہ خیبر پختونخوا میں بھی قائم تھا جہاں سے امریکی جہاز روس کی حدود میں داخل ہو کر اس کی جاسوسی کرتے تھے، روس اس بات پر ہم سے سخت ناراض تھا۔ اس ناراضگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس بھارت کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا اور ہمیں اپنا دشمن سمجھتا رہا۔ اس سے ہمیں عالمی سطح پر بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے کہ اس وقت روس ایک عالمی طاقت تھا۔
دنیا کے بیشتر ممالک اس کے حامی تھے چنانچہ جب اقوام متحدہ میں پہلی بار مسئلہ کشمیر پیش ہوا تو روس نے بھارت کے حق میں اور ہمارے خلاف اپنا ویٹو استعمال کیا، اس طرح کشمیر کا مسئلہ جو اس وقت تازہ تازہ تھا حل نہ ہو سکا اور پھر مسلسل روسی ویٹو کی وجہ سے یہ مسئلہ کھٹائی میں پڑگیا اور اب تو مغربی ممالک نے بھی بھارت کی طرف داری شروع کردی ہے۔
چند سال قبل چینی حکومت نے ہمارے حق میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز بلند کی تھی، اس وقت روس نے ذرا ہماری مخالفت نہیں کی مگر مغربی ممالک کے بھارت کے حق میں ہونے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ روس کی ناراضگی سے ہمیں یہ بھی نقصان ہوا کہ 1971 میں اس نے کھل کر بھارت کی فوجی امداد کی اور بنگلہ دیش کے قیام کو ممکن بنا دیا۔ گوکہ اس وقت امریکا ہمارے حق میں تھا مگر وہ بھی پاکستان کو دولخت ہونے سے نہ بچا سکا۔
روس سے ہماری مخاصمت کا خاتمہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ہوا۔ بھٹو حکومت کی کامیاب پالیسی کے نتیجے میں روس کراچی میں پاکستان کا پہلا اور واحد اسٹیل مل لگانے کو تیار ہوا اور یہ اسٹیل مل آج بھی زندہ حقیقت ہے مگر ہماری حکومتوں کی غفلتوں کی وجہ سے آج یہ ایک غیر فائدہ مند ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا بوجھ بن گیا ہے۔ کاش کہ اسے ڈھنگ سے چلایا جاتا تو یہ مل پاکستان کی صنعتی اور معاشی ترقی کو چار چاند لگانے میں کردار ادا کر سکتی تھی۔بھارت نے روس سے اپنے گہرے تعلقات قائم کر کے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
روس نے اسے ہر قسم کے ہلکے اور بھاری ہتھیار دیے ہیں۔ کئی اقسام کے جنگی جہاز بھی فراہم کیے ہیں، حال ہی میں بھارت نے روس کی مدد سے ایک طاقتور میزائل تیارکیا ہے جو '' برہموس'' کہلاتا ہے۔ روس نے بھارت کے جوہری پروگرام کو پروان چڑھانے اور پھر ایٹمی قوت بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
نائن الیون کے بعد بھارت نے روس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک سے بھی اپنے تعلقات کو وسعت دینا شروع کی جس سے روس سے اس کے تعلقات میں کچھ فرق پڑگیا تھا اس کا فائدہ پاکستان کو ہوا تھا اسی دوران سابق وزیر اعظم عمران خان نے روس کا دورہ بھی کیا تھا مگر یہ دورہ پاکستان کے لیے مصیبت بن گیا تھا کیونکہ یہ دورہ ٹھیک اس دن ہوا تھا جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ مغربی ممالک نے اس دورے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا۔ چنانچہ اس نے پاکستان کے مغربی ممالک خصوصاً امریکا سے تعلقات میں کافی رکاوٹیں پیدا کردی تھیں۔
امریکی اس دورے سے اتنے تپے ہوئے تھے کہ جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے امریکا کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو ان سے عمران خان کے روسی دورے پر وضاحت طلب کی گئی تھی۔ جس کا بلاول بھٹو نے بڑی حکمت سے جواب دیا تھا جس سے امریکا کی غلط فہمی دور ہوگئی تھی۔
عمران خان نے روس کے دورے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کے روس سے تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ عمران خان نے روسی حکومت سے پاکستان کو تیل فراہم کرنے کی بھی بات کی تھی، اگر پی ٹی آئی حکومت برقرار رہتی تو روس سے سستے تیل کی درآمد ممکن ہو جاتی اور یوں پاکستان کو مہنگے تیل کی خرید سے چھٹکارا مل جاتا۔ اس سے پاکستان کے غریب عوام کو بہت فائدہ ہوتا اور پاکستان کی معاشی حالت کے سدھرنے میں بھی بہت مدد ملتی۔
سابقہ حکومت نے یہ دعویٰ تو کیا تھا مگر اس ضمن میں روس سے کسی معاہدے کے کوئی آثار موجود نہیں تھے یعنی کہ یہ باتیں صرف ہوائی تھیں اور محض عوام کو خوش کرنے اور شہباز حکومت کو غریب کش ثابت کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں، اگر سابقہ حکومت واقعی غریب پرور ہوتی تو ہرگز آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض نہ لیتی اور پھر اپنی حکومت کے خاتمے کے آثار دیکھ کر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ توڑتی۔ موجودہ پی ڈی ایم حکومت اس وقت آئی ایم ایف سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے مگر اسے ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اس رکاوٹ میں بھارتی ہاتھ کے علاوہ کہا جا رہا ہے کہ یہودی لابی کا بھی ہاتھ ہے۔
بہرحال امریکی حکومت بہت باخبر ہے وہ اپنے دوست اور دشمن کی خوب تمیز رکھتی ہے۔ امریکی حکومتی ترجمان کے اس بیان نے پاکستان کے بدخواہوں کے ضرور حوصلے پست کر دیے ہوں گے کہ امریکا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ روسی تیل کی پاکستان آمد سے جہاں حکومت نے سکون کا سانس لیا ہے وہاں عوام بھی اس پیش رفت سے خوش ہوئے کہ اب انھیں ضرور مہنگے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل سے نجات مل سکے گی۔ ابھی روس سے پہلا جہاز تیل لے کر آیا ہے اس کے بعد ایک اور جہاز اس سے زیادہ تیل لے کر کراچی آنیوالا ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ پاکستان نے اس تیل کی قیمت ڈالروں کے بجائے چینی یوآن میں ادا کی ہے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ پاکستان میں اس وقت ڈالروں کی کمی ہے چنانچہ یوآن کو ڈالر کے متبادل استعمال کرنے سے عالمی سطح پر ڈالر کی حاکمیت کو دھچکا پہنچے گا اور اس سے امریکی اجارہ داری بھی مسدود ہوگی۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر غریب ممالک ڈالر کے لین دین سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان نے روسی تیل کی قیمت ڈالر کے بجائے یوآن میں ادا کرکے نہ صرف خود کو ڈالر سے نجات حاصل کرنے کے لیے نیا راستہ دریافت کرلیا ہے بلکہ اس سے اب دوسرے غریب ممالک بھی ڈالروں کی قلت کے مسئلے سے بخیر و خوبی نمٹ سکیں گے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے اس صورت حال میں روسی سستا تیل ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ روس سے تیل خریدنے کے سلسلے کو ایک لائحہ عمل کی شکل دے اور اسے جاری رکھنے کی کوشش کرے۔ روسی وزیر خارجہ نے روسی تیل کی پاکستان آمد کو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ اس سے یقینا دونوں ممالک میں سرمایہ کاری، اقتصادی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔