مغرب کی پاکستان کیخلاف سازش
فوج و قوم کے درمیان دراڑ ڈال کر وہ یہ جنگ جیت جائے گی تو یہ اس کی بھول ہے
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عام لوگوں کو مدتوں بعد سمجھ میں آتی ہیں لیکن مفکرین اور دانش مند ان باتوں کو عرصہ پہلے سمجھ چکے ہوتے ہیں اور عوام میں اس کی نشاندہی بھی کرتے رہتے ہیں۔
حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر اسرار احمد اور عبدالستار ایدھی کی کہی گئی کچھ باتیں موجودہ ملکی سیاسی منظر نامہ میں نمایاں ہوتی جارہی ہیں ، بس غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔یاد رکھتے جائیں ! جب سابق پاکستانی وزیراعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے کے بعد ملک میں آتے ہی کہا تھا کہ ،میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔
اگلے دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی متنازعہ صورت بدل کر اسے بھارتی حصہ قرار دیا ، جس کے جواب میں اس وقت کے وزیر اعظم قوم کو ایک منٹ خاموش کھڑا رہنے کی تلقین کرنے کے سوا سخت ردعمل کا اظہار کرنہ سکے ۔ اس وقت کی اپوزیشن نے الزام لگایا کہ انھوں نے کشمیر کا سوداکیا ہے ۔ پاکستان کو چین اور روس کے مزید قریب جانے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
امریکا کو افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ختم نہیں ہوئی ہے ،اس لیے وہ وقتی طور پر پاکستان پر مہربان بنا ہوا ہے۔ اب یہ بات راز نہیں کہ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے چین کو ناراض کیا ۔ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کو چین کے ساتھ سی پیک شروع کرنے کی سزا دی گئی، اب بھی امریکا کو یہ خوف طاری ہے کہ ان کی موجودگی میں پاکستان کو چین سے دور کرنا مشکل ہوگا۔ پوری قوت کے ساتھ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ذریعے بلیک میل کیا جارہا ہے ۔
غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی چیئرمین پاک فوج کو اپنا کہتا ہے تو دوسری سانس میں اس کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں ، اس بات پر سے بھی پردہ اٹھ چکا ہے کہ ان کی جانب سے امریکی سازش کا بیان جھوٹ تھا جس کے بعدان کی پارٹی نے ایک امریکی فرم سے اپنی لابنگ کے لیے معاہدہ کیا ،امریکا سے معافی مانگی، 9مئی کو ریاست کے خلاف بغٖاوت کے بعد انھوں نے امریکی مدد کی خواہش کا اظہار کیا۔
غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہ محسوس کیا گیا کہ پروجیکٹ لپیٹا جارہا ہے تو امریکیوں نے پوری قوت کے ساتھ چیخ و پکار شروع کردی کیوں ؟۔یہی بات سمجھنے کی ہے ۔ جب کہ 9 مئی نائن الیون سے بڑا حادثہ ہے لیکن مغربی دنیااس پرخاموش ہے ۔ کیوں ؟ ، حالانکہ امریکی کلیے کے مطابق تو 9 مئی کے ذمے داروں کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے تھا جیسا امریکیوں نے نائن الیون کے ذمے داروں اور سہولت کاروں کے ساتھ گوانتاناموبے میں کیا۔
امریکا کے قائم کردہ گوانتاموبے، ابو غریب اور بگرام کی جیلوں میں فوجیوں کے مظالم اور ان کی نام نہاد عدالتوں کے خلاف کسی عدالت میں اپیل نہیں ہوسکتی تھی جب کہ پاکستان میں جو خصوصی عدالتوں کی سزا ہوگی تو اس کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔
یہ اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ پارٹی چیئرمین نے پی ٹی آئی کے 25 نام نہاد شہدا کے نام پر ساڑھے 5 لاکھ امریکی ڈالرز اینٹھے ہیں اور حکومت کی جانب سے اس خدشہ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ فارن فنڈنگ بھی 9 مئی کی طرح انتشار اور فساد پھیلانے کے لیے استعمال ہوگی۔
یہاں فیاض چوہان کی پریس کانفرنس بڑی اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ'' زوم میٹنگ میں ترجمانوں کو کہا جاتا تھا کہ فوج مخالف بیانیہ تیار کیا جائے، یکم مئی کی ریلی پریکٹس کے طور پر رکھی گئی کہ عسکری دفاتر کی طرف رخ کریں، 6 مئی کو عمران خان کے حکم پر کچہری چوک پر ریلی رکھی گئی۔
فیاض چوہان کا یہ بھی کہنا تھاکہ 14 مئی کو زوم میٹنگ میں بیرونی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، 70 امریکی کانگریس ارکان کا لابی کرنے کا معلوم ہوا تو دھچکا لگا، فوج اور پاکستان سے محبت آج نہیں ہمیشہ سے تھی اور ہے۔
ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے نو مئی واقعات سے متعلق امریکی کانگریس کی جانب سے بھیجئے گئے خط کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کے بھیجے گئے خط میں حقائق درست نہیں، پاکستان میں تمام شہریوں کے حقوق اور املاک کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ نو مئی کے واقعات پر پاکستان میں تمام اقدامات آئین اور قانون کے مطابق ہورہے ہیں۔
پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (PAKPAC) کی کوششوں کے نتیجے میں 60 سے زائد امریکی کانگریس کے ارکان نے 18 مئی کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔کانگریس اراکین نے انٹونی بلنکن پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کی ترجیح کا معاملہ بھی پاکستانی حکام کے ساتھ اٹھائیں۔
یہاں یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کیپیٹل ہل میں جو سزائیں دی گئیں اگر وہ جائز ہیں تو یہاں بھی جائز ہیں۔ امریکا میں 2021 میں کیپیٹل ہل (امریکی ایوان نمائندگان) پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے حملے کے مقدمے میں حملہ آوروں کے سرغنہ اسٹیورٹ رہوڈز کو 18 سال قیدکی سزا سنائی گئی ہے۔
یہ بات اب زوروں سے کہی جارہی ہے کہ سابق وزیراعظم پر بالکل ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلے گا، وہی سارے جلاؤ گھیراؤ کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ اس کے ثبوت بھی موجود ہیںوہ گرفتاری سے پہلے سب کچھ طے کرکے گئے تھے، یہ توجیہہ بنتی ہی نہیں کہ وہ تو جیل میں تھے۔
اپنے ایک ویڈیو لنک خطاب میں انھوں نے ایک بار پھر فوجی تنصیبات پر پارٹی کارکنوں کے حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ' 'جس طرح مجھے کمانڈو ایکشن کر کے گرفتار کیا، اس پر ردِعمل اگر فوجی نشان والی عمارتوں کے سامنے نہ آتا تو اور کہاں آتا؟'' یاد رہے کہ انھیں فوج نے نہیں بلکہ رینجرز کے اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا ۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں بہت کچھ عیاں ہوچکاہے اور آیندہ مزید بہت ساری باتیں قوم پر ظاہر ہونے کے آثار ہیں کہ 9مئی کے واقعات محض سیاسی نہیں ہیں بلکہ سیاسی لبادہ میں اس کے تانے بانے مغربی دنیا سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دشمن سمجھ بیٹھا ہے کہ 9مئی کی سازش کی ناکامی کے بعد اب وہ نام نہاد انسانی حقوق کی آڑ میں جھوٹ پر جھوٹ بول کر پاک فوج کو بدنام کیا جائے گا اور فوج و قوم کے درمیان دراڑ ڈال کر وہ یہ جنگ جیت جائے گی تو یہ اس کی بھول ہے ۔ پاکستانی قوم نے بھر پور طور پرپاک فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کرکے دشمن کی اس مذموم سازش کو زمین بوس کردیا ہے ۔