اقوام متحدہ فرسودہ ہو چکا ہے

آج کی دنیا میں دیکھا جائے تو بہت سے مسائل کی جڑ اقوام متحدہ کی ناکام پالیسیاں ہیں


جمیل مرغز June 18, 2023
[email protected]

سابقہ کالم میں اقوام متحدہ میں اصلاحات کا ذکر ہو رہا تھا 'جس میں ہم اس مسئلے کے تکنیکی پہلوئوں کا تذکرہ کر رہے تھے لیکن اصل مسئلہ سیاسی ہے' بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ کی 1940 کی دہائی کا ڈھانچا موجودہ دنیا کے مسائل حل کرنے کے قابل ہے یا اس میں کوئی تبدیلی ہونی چاہیے؟

آج کی دنیا میں دیکھا جائے تو بہت سے مسائل کی جڑ اقوام متحدہ کی ناکام پالیسیاں ہیں 'اقوام متحدہ پر امریکا اور اس کیاتحادیوں کا قبضہ ہے 'جس ملک پر حملہ کرنے میں امریکا کی دلچسپی ہو تو اس کو سلامتی کونسل سے اجازت مل جاتی ہے 'جس ملک کے خلاف پابندیاں لگانی ہوں تو سلامتی کونسل اجازت دے دیتی ہے۔اب یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بلکہ پورے اقوام متحدہ کے ادارے میں اصلاحات کرکے اس کو پوری دنیا کا نمایندہ ادارہ بنایا جائے۔

Group-4(ہندوستان 'جاپان'برازیل اور جرمنی) کی سلامتی کونسل میں مستقل ممبران کی تعداد میں توسیع کے بارے میں تجاویز کو بہت سے ممالک کی حمایت حاصل ہو رہی تھی '8جون2005کو G-4 ممالک کے ایک وفد نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ایک ملاقات میں ان کو بتایا کہ اگر ان کی تجاویز کو جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا تو ان کو150ممالک کی حمایت حاصل ہوگی 'یہ تعدادتجاویز کی منظوری کے لیے درکار 128 (دو تہائی اکثریت) ووٹوں سے بھی زیادہ ہے۔

جب افریقی ممالک نے سلامتی کونسل میں دو مستقل نشستوں کے بارے میں اپنی قرار داد جولائی 2005میں پیش کی تو G-4ممالک کی تجاویز کی منظوری میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا'اب ان ممالک نے افریقی ممالک سے رابطے شروع کیے 'G-4ممالک کی کوشش تھی کہ وہ افریقی ممالک کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ مستقل ممبر شپ تو مانگیں لیکن ان نئے ممبران کے لیے ویٹو کا حق ابھی نہ مانگیں'اگر افریقی ممالک یہ تجویز مان لیتے تو پھر G-4ممالک اور افریقی ممالک سلامتی کونسل کے ممبران میں توسیع کے لیے ایک مشترکہ قرارداد جنرل اسمبلی میں پیش کر سکتے تھے۔

جنوبی افریقہ اور نائیجیریا ہیں'یہ دونوں ممالک ویٹو پاور نہ مانگنے کے مسئلے پر اتفاق رائے کے لیے G-4ممالک سے مذاکرات کے لیے تیار تھے 'اس پیش رفت سے G-4ممالک کی تجاویز کی منظوری کے امکانات روشن نظر آرہے تھے 'اس ساری صورت حال اور ہونے والی پیش رفت کو سلامتی کونسل کے مستقل ممبران میں اضافے کے مخالف کافی کلب (پاکستان اور اٹلی وغیرہ)(UfC)کے ممبر ممالک بڑی بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔

ادھر افریقی اور G-4 ممالک کی بڑھتی ہوئی انڈر اسٹینڈنگ نے اس بات کے امکانات پیدا کیے کہ ان دونوں کی طرف سے سلامتی کونسل میں نشستوں کی تعداد بڑھانے اور مستقل ممبروں کی تعداد بڑھانے کے متعلق ایک مشترکہ قرارداد پیش کی جاسکتی ہے 'اس امکان نے امریکا اور چین کو چوکنا کردیا'امریکا G-4ممالک کی اس تجویز کا مخالف تھا کہ سلامتی کونسل میں مستقل ممبران کی تعداد 5سے بڑھاکر 10یا11یعنی تقریباً دگنی کردی جائے 'چین اس وجہ سے اس تجویز کی مخالفت کر رہا تھا کہ وہ اپنے پرانے حریف جاپان کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کا مخالف تھا۔

اگست2005میں ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں دنیا کے مختلف حصوں کے ممالک میں لابی کرکے کوشش کریں گے کہ G-4کی قرارداد کسی حالت میں جنرل اسمبلی سے منظور نہ ہو۔افریقی ممالک میں بھی کچھ ممالک ایسے تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں پر افریقہ کے کوٹے سے نائیجیریا یا جنوبی افریقہ منتخب ہوں 'ان ممالک میں مصر سر فہرست تھا 'ان ممالک نے بڑی کامیابی سے یہ مہم چلائی کہ افریقی ممالک مستقل ممبرشپ ملنے کی صورت میں ویٹو کے حق سے دستبردار نہ ہوں'اس طرح افریقی ممالک اور G-4 ممالک میں سمجھوتا نہ ہوسکااور مشترکہ قرارداد بھی پیش نہ کی جا سکی۔

اب G-4ممالک کے سامنے اپنی تجاویز کی کامیابی کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح سے افریقی ممالک کے بلاک میں کوئی سمجھوتہ ہوجائے 'جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ افریقی ممالک میں سب سے بڑا تنازعہ یہ ہے کہ اگر افریقی ممالک کی یہ تجویز مان لی گئی کہ ان کو سلامتی کونسل میں دو مستقل نشستیں دی جائیں تو کو ن سے دو ممالک سلامتی کونسل میں افریقہ کی نمائندگی کریں گے 'مصر کی قیادت میں کچھ ممالک نائیجیریا اور جنوبی افریقہ کی ان نشستوں پر دعوے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

نمائندگی کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے یہ کسی دو ممالک کو مستقل دی جائے یا روٹیشن کے حساب سے اس کا فیصلہ کیا جائے 'اس کے لیےG-4کے ممالک اب افریقی ممالک کے درمیان کسی سمجھوتے کی کوشش کررہے ہیں اگر یہ سمجھوتہ ہوگیا تو پھر افریقی ممالک کی اکثریت نئے مستقل ممبران کے لیے فی الحال ویٹو پر اصرار نہیں کرے گی۔

یوں سلامتی کونسل میں 6نئے مستقل ارکان کے اضافے کے لیے قرارداد آسانی سے پاس کراسکتے ہیں'ان میں نئے 4مستقل ارکان G-4کے ہندوستان 'جاپان 'برازیل اور جرمنی ہوں گے اور دو مستقل ارکان بر اعظم افریقہ سے ہوں گے 'اگر یہ دونوں گروپ کسی فارمولے پر متفق ہوگئے تو امریکا اور چین جیسے ممالک کے لیے بھی جنرل اسمبلی میں اس قرارداد کی منظوری روکنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان بھی اصلاحات کی مخالفت کرکے تاریخ کی رفتار کو روکنا چاہتا ہے 'ہندوستان بہت تیزی کے ساتھ دنیا میں اہم مقام حاصل کرتا جا رہا ہے۔

پاکستان56 ممالک پر مشتمل اسلامی دنیا کا اہم ملک ہے' اگر ان ممالک کو متفق کیا جائے تو سلامتی کونسل میں ان کو بھی ایک مستقل نشست مل سکتی ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے اور ہر قسم کے جھگڑے ختم کرے ۔ عوام کو سہولیات دی جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت بھی 24 کروڑ عوام کے ملک کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔بس ذرا اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو صحیح راستے پر لانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔