ملٹری کورٹس کے خلاف درخواستیں

پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا


مزمل سہروردی June 20, 2023
[email protected]

9 مئی کے ملزمان کے ٹرائل ملٹری کورٹس میں کرنے کے خلاف تحریک انصاف اور اس کے حامی وکلا سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا۔ تحریک انصاف وکلا کی مدد سے اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل روک سکے، اسی لیے ایک وکلا تحریک چلانے کی بھی کوشش ہو رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اعتزا زاحسن سمیت تحریک انصا ف کی اس حوالے سے پٹیشن سپریم کورٹ میں سنی جائے گی؟ اور اس پر کیا فیصلہ ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر حکم امتناعی دے دے گی ؟ کیا سپریم کورٹ یہ کہہ دے گی کہ جب تک اس پٹیشن کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ٹرائل نہ کیا جائے؟ اس طرح سب ٹرائل رک جائیں گے۔

کیا سپریم کورٹ پٹیشن تو سننے کا آغاز کردے گی لیکن ٹرائل نہیں روکے گی ؟ ایسا ہوا تو اس کا تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جواب اور پھر جواب الجواب ، کیس بھی سنا جاتا رہے گا اور سزائیں بھی ہو جائیں گی۔

اس پر شاید حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہ یہی چاہے گی کہ ایسی تمام درخواستیں پہلی پیشی پر ہی خارج کر دی جائیں تا کہ کوئی تنازعہ نہ رہے لیکن حکم امتناعی نہیں دیا جاتا تو پھر بھی کام چلے گا۔

پاکستان کے عدالتی نظام میں جلد اور فوری انصاف ممکن نہیں ہے، کیس کئی سال چلتے ہیں۔ ملزمان بچ جاتے ہیں، اپیلوں میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارا نظام انصاف فعال نہیں ہے۔

چند سیاسی مقدمات سن کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نظام انصاف چل رہا ہے۔ حالانکہ نظام انصاف چل رہا ہے نہ انصاف مل رہا ۔ عدلیہ کی ساری توجہ سیاسی کیسز پر ہے۔ عام آدمی کو جلد اور فوری انصاف دینے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ اول تو انصاف دیا ہی نہیں جاتااور اگر دیا جاتا تو پھر غیر معمولی انصاف دیا جاتا ہے، جس پر پھر سوال اٹھتا ہے۔

نو مئی کے سانحہ کے بعد بھی ہماری عدلیہ نے اس سانحہ کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ نو مئی کے جن ملزمان کے مقدمات ملٹری کورٹس میں نہیں گئے، انھیں سول عدالتوں سے رہائی مل گئی ۔

تفتیشی اداروں کو ملزمان کا ریمانڈ لینے میں مشکلات پیش آئی ہیں بلکہ جن افراد کی جناح ہاؤس موجودگی پر کوئی ابہام نہیں ہے، انھیں بھی ڈسچارج کیا گیا ہے۔ جس کے بعد یہ جواز مضبوط ہو گیا کہ ان ملزمان کو ملٹری کورٹس کے سوا کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔

آج تحریک انصاف کو سویلینز کے ملٹری کورٹس پر ٹرائل پر سخت اعتراض ہے، لیکن کیا کوئی تحریک انصاف اور اس کی قیادت سے سوال کر سکتا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیوں ہوئے؟ اگر ان کے دور اقتدار میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل جائز تھے تو آج ناجائز کیسے ہیں۔

کیا تحریک انصاف اور اس کی قیادت یہ سوچ رکھتی ہے کہ باقی سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل جائز ہیں، صرف ان کے ناجائز ہیں، یہ کیا منطق، دلیل اور سوچ ہے۔

پاکستان میں سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کوئی نئی بات نہیں ہے، جو سویلینز ملٹری تنصیبات کے حوالے سے جرم کرے ،اسے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جاتا ہے۔ اب تک سیکڑوں سویلینز کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جا چکا ہے۔ نو مئی کے لیے کوئی نئی ملٹری کورٹس نہیں بنا ئی جا رہی ہیں۔

تا ہم تحریک انصاف مقدمہ ایسے ہی پیش کر رہی ہے کہ جیسے یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ماضی میں سیکڑوں سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو چکا ہے، ان کی دفعہ کوئی پٹیشن نہیں ہوئی۔نظام عدل کو کوئی خطرہ نہیں ہوا۔

ما ضی میں جب دہشت گردی بڑھ گئی تھی تو آئین میں ترمیم کر کے خصوصی ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں۔یہ ایک خاص مدت کے لیے بنائی گئی تھیں، اس لیے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ جیسے ہی وہ مدت ختم ہو گئی، وہ ملٹری کورٹس بھی ختم ہو گئیں۔ دہشت گردوں کے مقدمات اس آئینی ترمیم کے بغیر ملٹری کورٹس میں اس لیے نہیں چل سکتے تھے کیونکہ انھوں نے کسی ملٹری تنصیب پر کوئی حملہ نہیں کیا ہوا تھا۔

انھوں نے بازاروں سڑکوں پر خود کش حملے کیے ہوئے تھے۔ اس لیے ان کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت تھی۔ اب جب نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے ہیں۔ تو اس کے لیے کسی نئی ترمیم کی ضرورت نہیں۔ آرمی ایکٹ کے تحت پہلے سے موجود ملٹری کورٹس کا دائرہ اختیار موجود ہے۔

پاکستان کا نظام عدل ملک میں جلد اور فوری انصاف کی فراہمی میں ناکام رہا ہے ۔ جب آئین میں ترمیم کر کے ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں تو یہی امید کی تھی کہ اس دوران ہمارا نظام انصاف فوری اصلاحات کرلے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کئی سالوں سے مقدمات کو جلد نبٹانے کے لیے کوئی اصلاحات نہیں کی گئی ہیں۔

تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا کوئی حل نہیں ہے۔ مقدمات میں التوا کے رحجان کو ختم کرنے کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ بلکہ پہلے تو ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی تاخیر کی بات تھی، اب تو سپریم کورٹ میں زیر التو مقدمات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک میں جرائم کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام رائے یہی ہے کہ کچھ نہیں ہوتا۔ ضمانت کے بعد عوام کی مقدمہ میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ جب کئی کئی سالوں بعد اعلیٰ عدالتیں اپیل کا فیصلہ کرتی ہیں تو حالات ہی بدل چکے ہوتے ہیں۔

بہر حال اس وقت ملک کے نظام انصاف کی جو صورتحا ل ہے، اس میں نو مئی کے ملزمان کو سزا دینا ممکن ہی نہیں۔ اگر ایک بچی زینب کے ملزم کو سزا دینے لیے اس وقت کے چیف جسٹس ایکشن لے سکتے ہیں اور چند دن میں مقدمہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے تو نو مئی کے لیے بھی ایسی ہدایا ت جاری کی جا سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

جس کا مطلب ہے کہ نو مئی کے واقعات کو کوئی خاص اہم نہیں سمجھا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ملٹری کورٹس کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا، یہی موجودہ صورتحا ل ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ عدلیہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کو روکے گی، وہاں ٹرائل ہوںگے، جتنی مرضی درخواستیں دے دی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں