کراچی کا مینڈیٹ
آثار یہی بتا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجائے گاکیونکہ پیپلز پارٹی سندھ پر حکمران تھی
کراچی کے میئر کے انتخاب کا نتیجہ یہ ہی ہونا تھا جو ہمیں پیپلزپارٹی کی جیت کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے۔
آثار یہی بتا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجائے گاکیونکہ پیپلز پارٹی سندھ پر حکمران تھی جب کہ وفاق میں اتحادی ہے ، انتظامی اداروں کا جھکاؤ بھی عموماً برسراقتدار پارٹی کی طرف ہوتا ہے ، اسی لیے پیپلز پارٹی کی قیادت مسلسل کہہ رہی تھی کہ جیت ہماری ہی ہوگی ۔ جمہوریت نمبر گیم سے جڑا نظام ہے ۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے بعد انتخابی نتائج کی بنیاد پر دونوں جماعتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 192 بنتی تھی ، اسی کی بنیاد پر حافظ نعیم الرحمن مئیر کا الیکشن جیتنے کا دعویٰ کرتے تھے اور بظاہر نمبر بھی ان کے ہی زیادہ تھے لیکن حافظ نعیم صاحب اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کے لوگوں کے ووٹ سے محروم ہوکر میئر کراچی کا الیکشن ہار گئے۔
جہاں جمہوریت کی حکمرانی کا تصور کمزور ہو تو وہاں ہمیں مختلف نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی اتحاد 173افراد پر مشتمل تھا ، جب نتیجہ نکلا تو حکمران اتحاد کے ووٹ تو پورے تھے لیکن جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کے تیس سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آئے ، یوںنتیجہ وہی نکلنا تھا جو جوڑ توڑکی سیاست میں نکلتا ہے ۔
پیپلزپارٹی کو تاریخ میں پہلی بار کراچی کے مئیر کی جیت مبارک ہو مگر یہ جیت کئی طرح کے سوالا ت بھی چھوڑ گئی ہے۔ سیاسی اور جمہوری سطح پر پیپلزپارٹی کی قیادت سے یہ سوالات ہمیشہ پوچھے جاتے رہیں گے ۔کیونکہ اس جیت سے جمہوریت ، مقامی حکمرانی کی خود مختاری اور مضبوطی کی بات کمزور ہوئی ہے اور جوڑ توڑ کی سیاست کی جیت ہوگئی ہے۔
کراچی کے مقامی حکومت کا ایوان 366ارکان پر مشتمل ہے، میئر کے انتخاب کے دن32پی ٹی آئی کے ارکان کی عدم موجودگی ، غیر حاضری یا ووٹ نہ ڈالنے کا عمل جمہوری اقدار کے منافی ہے ، بہتر تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ ایوان میں موجود ہوتے اور وہ ووٹ نہ ڈالتے تو بات سمجھ میں آسکتی تھی مگر ان کی عدم موجودگی اور یہ الزام کہ ان 32 ارکان کو کہیں رکھاکیا گیا تھا، معاملات کو مشکوک بناتا ہے۔
جمہوری سیاست میں جو بھی پارٹی مینڈیٹ کے ساتھ انتخاب جیتتی ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے حمایت یافتہ فرد کو ہی ووٹ ڈالے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ پارٹی پالیسی کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اس حوالے سے بات کرنی چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے میئر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے مرتضی وہاب 13ووٹوں کے فرق سے جیتے ہیں جب کہ کراچی میں موجود 25ٹاون میں سے 13پر پیپلزپارٹی جب کہ 09پر جماعت اسلامی اور 03پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی ہے ۔اس لیے کراچی کے میئر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کی جیت کے باوجود 12ٹاون میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی برتری ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ جیسے ہی یہ نظام آگے بڑھے گا تو ہمیں پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں مزید ٹکراؤ نظر آئے گا ۔ ووٹوں کی تعداد میں جماعت اسلامی او رپی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے میئر کے انتخاب میں جیت کے لیے 184ووٹوں کی ضرورت تھی مگر پیپلز پارٹی کی کمال ہوشیاری سے کی گئی ترمیم کی مدد سے اسے ٹوٹل حاصل کردہ ووٹ کی جیت تک محدود رکھا گیا۔ کیونکہ پیپلزپارٹی او ران کے اتحادیوں کے پاس 184ارکان کی حمایت حاصل نہ تھی ۔
پیپلزپارٹی کا یہ نقطہ نظر کہ پی ٹی آئی کے 32ارکان کو غائب کرنا ، اغوا کرنا ہمارے ایجنڈے کا حصہ نہیں اور اگر انھوں نے ووٹ نہیں ڈالا تو اس کی ذمے داری پی ٹی آئی کی قیادت پر عائد ہوتی ہے ، یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ارکان کو غائب نہیں گیا تھا تو یہ ارکان ایوان میں آنے کے لیے کیونکر تیار نہیں ہوئے، اس کا جواب دونوں متحارب گروپوں کی قیادت کو ضرور دینا چاہیے۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ان 32ارکان کو پیپلزپارٹی نے مینج کرلیا ہو تاکہ ان کی جیت یقینی ہوسکے ۔ان 32ارکان کو سامنے آنا چاہیے تھا اوربتانا چاہیے تھا کہ انھوں نے کیونکر پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالا تاکہ یہ طے ہوسکے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور نہ ہی ان کو غائب کیا گیا ۔ اس لیے جب تک یہ ارکان سامنے آکر اپنا بیان نہیں دیتے تو اس ایشو پر الزامات کی سیاست ہوتی رہے گی۔اس لیے پیپلز پارٹی کی جیت کے باوجود یہ کھیل اب نئی سیاسی اور قانونی محاذ آرائی کی نذر ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ یہ نئی لڑائی کیا نیا رنگ دکھاتی ہے ۔
دراصل پیپلزپارٹی کی خواہش تھی کہ اس کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو کہ پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ محض اندرون سندھ تک محدود ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی جو آج کل اسٹیبلیشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے، وہ اس داغ کو دھونا چاہتی ہے تاکہ اگلے الیکشن میں وہ پورے سندھ پر حکمرانی کرسکے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے مقامی حکومتوں کے انتخاب کے بائیکاٹ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سارے کھیل کی سمجھ آتی ہے کہ اس کھیل کے تانے بانے پہلے ہی سے سجائے گئے تھے تاکہ پیپلزپارٹی کو پورے سندھ کی حکمرانی کے کھیل میں برتری دی جاسکے ۔یہاں جماعت اسلامی اورپی ٹی آئی کو بالخصوص حافظ نعیم الرحمن کو بھی داد دینی ہوگی کہ انھوں مشکل حالات میں اچھا رزلٹ دیا ہے ۔
ہمارے سندھ کے دانشور دوستوں کو اس بات کا تو گلہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے سندھیوں کے خلاف بات کی ہے مگر وہ پیپلزپارٹی کی جیت پر سوال نہیں اٹھاتے۔ کیا جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے بعد پیپلزپارٹی کی جیت حیران کن نہیں ہے؟ اس پر سوال کرنا تو بنتا ہے۔
کیونکہ اس جس طریقے سے انتخاب ہوا ہے ،اس پر واویلا تو ہونا ہی تھا ۔کیونکہ کراچی کے مقامی انتخابات کے تناظر میں حلقہ بندیوں ، انتخابی دھاندلی ، نتائج میں ردوبدل اور قانون سازی یا ترامیم کے حوالے سے پہلے ہی الزامات کی سیاست ہورہی تھی ۔
مقامی حکومتوں کے انتخاب کے بارے میں تین سوال ہمیشہ اہم رہیں گے ۔ اول لوگ براہ راست میئر کے انتخاب میں ووٹ ڈالیں تاکہ چور دروازوں سے یا ارکان کی خرید وفروخت کی بنیاد پر میئر کے انتخاب کو روکا جاسکے ۔جب تک میئر کے انتخابات براہ راست نہیں ہوںگے ، اس وقت تک الزامات اور محاذ آرائی کی سیاست جاری رہے گی۔
دوئم جو بھی میئر کا امیدوار ہو اس پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ پہلے یونین کونسل کا انتخاب لڑے اورجیت کر وہ میئر کے انتخاب میں حصہ لے۔ سوئم ، شو آف ہینڈز کے بجائے خفیہ رائے شماری ہو تاکہ لوگ بغیر کسی ڈر اور خو ف کے ووٹ ڈال سکیں ۔اسی طرح جب تک ہم عوامی مینڈیٹ اور سیاسی جماعتوں کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گیجمہوری نظام سمیت مقامی حکومتوں کا نظام بھی کمزور ہوگا۔
کراچی جیسے بڑے شہر کو ایک خود مختار اور مضبوط مقامی حکومت کا نظام درکار ہے۔ 1973کے آئین کے تحت 140-Aکو بنیاد بنا کر اس نظام کو سیاسی، انتظامی او رمالی خودمختاری دیے بغیر بڑے شہروں کے حکمرانی کے نظام میں بہتری اور شفافیت کا نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سب سے بڑی مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کی رکاوٹ بھی صوبائی حکومتیں ہیں۔
صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کا نظام تو تشکیل دے دیتی ہیں اور اس پر اپنا سیاسی قبضہ بھی جائز و ناجائز حاصل کرلیتی ہیں مگر ان ہی مقامی حکومتوں کو مکمل سیاسی ،انتظامی او رمالی سطح کے اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں۔ صوبائی حکومتیں عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت کی قائل ہیں اور سارے اختیارات صوبائی سطح پر رکھ کر مقامی حکومتوں کے نظام کو کمزور بنانا ان ہی کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔