اسد عمر اور پی ٹی آئی

اسد عمر نے اپنے انٹرویو میں تحریک انصاف کے لیے ایک ہی راستہ تجویز کیا ہے


مزمل سہروردی June 21, 2023
[email protected]

اسد عمر نے آخر کار پی ٹی آئی قائد کے خلاف ایک چارج شیٹ پیش کر دی ہے۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین نے اسد عمر کے خلاف ایک چارج شیٹ جاری کر دی ہے۔

اسد عمر نے اپنے انٹرویو میں تحریک انصاف کے لیے ایک ہی راستہ تجویز کیا ہے کہ پارٹی چیئرمین اپنی مرضی سے خود ہی مائنس ہو جائیں، انھیں زبردستی مائنس نہ کیا جائے بلکہ وہ ملک اور پارٹی کے مفاد میں خود ہی مائنس ہو جائیں۔

اس تجویز کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں علم ہے کہ پارٹی چیئرمین اس پر نہیں مانیں گے تا ہم اس وقت تحریک انصاف میں جو لوگ بچ گئے ہیں، وہ مستقبل کے لیے یہی ایک راستہ سمجھتے ہیں۔ ورنہ ہم مزید بند گلی میں پھنس جائیں گے، بند گلی سے نکلنا ہے تو ایسا فیصلہ کرنا ہوگا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے اسد عمر کی چارج شیٹ میں مائنس ہونے کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن باقی جو باتیں کی گئی ہیں، ان کا بھر پور جواب دیا گیا ہے۔

اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ سابق وزیراعظم مائنس ہونے والی بات کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے یا پھر وہ اس آپشن کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، شاید اسی لیے مائنس ہونے والی بات پر کوئی واضح موقف نہیں دینا چاہتے۔ لیکن اگر آپشن کھلا رکھنا مقصود ہوتا تو اسد عمر کے انٹرویو کا جواب دینا بھی ضروری نہیں تھا، خاموشی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔

اس لیے میری رائے میں وہ اس پر بات کرنے پر بھی تیار نہیں، ان کے نزدیک جس نے جانا ہے چلا جائے۔ لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اسد عمر نے واضح موقف لیا ہے کہ فوج ان کے لیے ایک جذباتی معاملہ ہے۔ وہ فوج کے خلاف کسی بیانیے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ ان کی رائے میں نو مئی کو جو کچھ ہوا، وہ ایک دن میں نہیں ہوا، اس کے لیے رائے عامہ ہموار کی گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ ان کے مطابق وہ نو مئی سے پہلے بھی اختلاف کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

ان کا اختلاف ریکارڈ پر تھا۔ لیکن پی ٹی آئی نے جو جواب جاری کیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ اگر اسد عمر کو پارٹی چیئرمین یا تحریک انصاف کے فیصلوں سے اختلاف تھا اور وہ ان پر عملدرآمد کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے تو اسی وقت پارٹی عہدے سے الگ ہو جاتے۔

یعنی انھیں کہا گیا کہ اگر تب اختلاف تھا تو پارٹی میں بیٹھے کیوں رہے ، تب ہی چھوڑ دینا تھا۔ اس میں واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ اب ان کا تحریک انصاف میں رہنے کا کوئی جواز نہیںبنتا تو پھر وہ اب بھی کیوں تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ اس جواب سے انھیں یہی مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر اختلاف ہے تو گھر جاؤ، تحریک انصاف میں بیٹھے رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر میں سادہ زبان میں سمجھا ہوں ، پارٹی سربراہ نے اسد عمر کو یہ کہا ہے نکل جاؤ، بیٹھے کیوں ہو۔

اسد عمر کے تمام تر اختلاف پر جو بیان جاری کیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ان کے بیان میں ابہام اور کنفیوژن واضح ہے۔ اسد عمر کا یہ دعویٰ کہ وہ چیئرمین کی اسٹرٹیجی پر اختلاف کے باعث سیکریٹری جنرل کے عہدے سے الگ ہوئے ہیں، وہ حقیقت سے متصادم دکھائی دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بیان سے اسد عمر کو نرم الفاظ میں پارٹی سے نکال ہی دیا گیا ہے۔ اگر اس بات میں کوئی ابہام باقی رہ گیا تھا تو پارٹی سربراہ نے ختم کر دیا ہے۔ پارٹی چھوڑ دینا یا عہدے چھوڑ دینا پارٹی سربراہ کے نزدیک ایک برابر ہے۔

خود اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ عہدہ چھوڑنے سے پہلے انھوں نے چیئرمین کو ایک پیغام بھیجا تھا لیکن انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح جنھوں نے پارٹی چھوڑی ہے ،ان میں سے بھی بیشتر نے پیغام بھیجا انھیں بھی کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ اس لیے آپ نے عہدے چھوڑے، پارٹی چھوڑی سب برابر ہے۔ پرویز خٹک کے لیے بھی واضح پیغام ہے، ان کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں۔

اسد عمر نے کہا ہے کہ وہ اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہی لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی باتوں کا جس طرح جواب جاری کیا گیا ہے، اس سے تو واضح ہے کہ انھیں کوئی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، ہر وہ شخص جس کے بارے میں پارٹی چیئرمین کو شک بھی ہے کہ وہ انھیں مائنس کر کے کوئی جگہ لے سکتا ہے، وہ اس کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔

اسد عمر اگر اگلے انتخاب میں جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اور پارٹی سربراہ پارلیمنٹ میں نہیں ہوںگے تو اسد عمر پارلیمنٹ میں ایک کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پارٹی سربراہ اسد عمر کو ایسا کوئی بھی کردار ادا کرنے کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کی سیاسی کتاب میں اب اسد عمر کی کوئی گنجائش نہیں، ان کے پاس کوئی راستہ نہیںہے، انھیں بس سے اتار دیا گیا ہے۔ لیکن وہ بس سے چمٹے ہوئے ہیں، شاید وہ خود کو بند گلی میں محسوس کر رہے ہیں، ان کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔

اسد عمر اور پارٹی چیئرمین کے درمیان بیک وقت محبت اور نفرت کا رشتہ رہا ہے۔ 2018میں انھیں وزیر خزانہ بنایا گیا لیکن چند ماہ کے بعد انھیں ہتک آمیز طریقہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی چیئرمین کافی عرصہ پہلے اسد عمر پر ریڈ لائن لگا چکے تھے اور اسد عمر اس ریڈ لائن کو جانتے ہیں۔

اس انٹر ویو اور جواب سے پہلے ہی میڈیا میں خبریں آگئی تھیں کہ عدالت میں ان کے اور پارٹی چیئرمین کے درمیان اتفاقی ہیلو ہائے ہوئی، اس میں سرد مہری سب نے دیکھی تھی۔ بہرحال ماضی میں جو ہوا، اسے الگ کرکے موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو اب یہی واضح نظر آتا ہے کہ ان کی تحریک انصاف میں کوئی ضرورت نہیں رہی۔اس سیاسی حقیقت کو سمجھنا لینا ہی اچھی بات ہے ، انھیں یا تو پی ٹی آئی سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کرنا چاہیے یا سیاست سے کنارہ کشی کر لینی چاہیے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ انٹرویو نہ دیتے تو شاید مزید وقت گزر جاتا۔ میں سمجھتا ہوں فیصلہ ہوچکا ہے، صرف اعلان باقی تھا۔ اسد عمر کو شاید کوئی ابہام تھا، جو دور ہو گیا ہے۔ یا اسد عمر نے انٹرویو دیا ہی اس لیے ہے کہ علیحدگی ہو جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں