وزیراعظم شہباز شریف فرانس پہنچ گئے، جہاں ان کی'' نیوگلوبل فنانشل پیکٹ'' کے حوالے سے 22 اور 23 جون کو پیرس میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پیرس ایئر پورٹ پر پاکستانی سفیر، اعلی فرانسیسی حکام اور پاکستانی سفارتی حکام نے وزیرِ اعظم کا پر تپاک استقبال کیا۔فرانسیسی صدر ایمانؤل میکرون کی دعوت پر وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف فرانس کو دورہ کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم اپنے دورہ فرانس کے دوران گلوبل فنانسنگ پیکٹ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے، فرانس کی میزبانی میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں 50 سے زائد ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں۔
وفاقی وزراء شیری رحمان، سردار ایاز صادق، مریم اورنگزیب اور معاون خصوصی طارق فاطمی وزیراعظم کے ہمراہ اعلی سطحی وفد مین شریک ہیں۔ دورے کے دوران وزیراعظم فرانسیسی صدر کی جانب سے دئیے جانے والے عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔ وزیرِ اعظم اپنے دورے کے دوران مختلف ممالک کے سربراہان سے دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔
قبل ازیں وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیو سے کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ملاقات کی درخواست کر رکھی ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب سے اس بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
وزیراعظم شہبازشریف اس سے قبل ساڑھے چھ ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی مینجنگ ڈائریکٹر پر فون سے بات چیت کے علاوہ انہیں تین خطوط بھی لکھ چکے ہیں۔
فرانس میں ہونے والی '' نیوگلوبل فنانشل پیکٹ'' کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلیوں ،توانائی،صحت عامہ اور اقتصادی مشکلات کا شکار خاص طور پر قرضوں میں ڈوبے ہوئے ممالک کی بحالی پرغور کے علاوہ ان کی قلیل مدتی مشکلات پر قابو پانے میں مددکا جائزہ لیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کیلیے برطانیہ سے مدد مانگ لی
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو ملنے والے عالمی قرضوں کی مالیت بڑی حد تک کم ہوکر بمشکل 8.4 ارب ڈالر رہ گئی ہے جو گزشتہ سال ملنے والی قرضوں کے مقابلے میں 37 فیصد کم ہے۔ایسا آئی ایم ایف کی طرف سے پروگرام بحال نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد دوسرے ممالک اور عالمی ادارے بھی امداد نہیں دے رہے۔
حکومت پاکستان نے رواں مالی سال کے دوران بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلیے 19.1 ارب ڈالر قرضے ملنے کا تخمینہ لگایا تھا لیکن اسے صرف 5.5 ارب ڈالر قرضے مل سکے۔اس کا سب سے برا اثر پاکستان کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑا ہے جوگھٹ کر صرف ساڑھے تین ارب ڈالر رہ گئے ہیں اور صرف ایک ماہ کی درآمدات کیلیے کافی ہیں۔رواں مالی سال کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو سب سے زیادہ قرضہ دیا جو 2 ارب ڈالر تھا۔
ورلڈ بینک نے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر دیئے جبکہ اس سے 2.6 ارب ڈالر ملنے کی امید تھی۔پاکستان کوRISE-II اور PACE-II پروگراموں کے تحت ملنے والی ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی امداد بھی نہیں مل سکی۔البتہ ایشین انفرااسٹرکچر بینک کی طرف سے پاکستان کو55 کروڑ 30 لاکھ ڈالر امداد مل گئی جو متوقع امداد 54 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کے اجرا میں غیرمعمولی تاخیر ہورہی ہے، وزیراعظم
اسلامی ترقیاتی بینک نے تیل خریداری کیلئے 16کروڑ10 لاکھ ڈالر دیے۔حکومت نے سعودی عرب سے بھی 97 کروڑ ڈالر ملنے کا اندازہ لگایا تھا اور توقع تھی کہ ادھار تیل کی مد میں یہ رقم بڑھ کر ایک ارب 10 کروڑ تک جاسکتی ہے۔چین سے ملنے والی امداد کا تخمینہ چار کروڑ80 لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا لیکن اس نے 12 کروڑ 80 لاکھ ڈالر دیئے۔
عالمی کریڈٹ ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان کی ریٹنگ میں کمی کے بعد عالمی اداروں سے امداد کا حصول مزید مشکل ہوتا جار ہا ہے۔اس وجہ سے یوروبانڈز کے اجراء کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہے۔پاکستان کو رواں مالی سال کے دوران صرف 90 کروڑ ڈالر کمرشل قرضے ملے ہیں۔
پاکستان کو آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر قرضہ ملا ہے حالانکہ حکومت کو اس سے 3.5 ارب ڈالر ملنے کی امید تھی۔30 جون تک آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہوا تو باقی رقم لیپس ہوجائے گی۔وزارت خزانہ کو نیا پاکستان سرٹیفکیٹس سے بھی 1.63ارب ڈالر ملنے کی امید تھی لیکن ان سے صرف 74 کروڑ30 لاکھ ڈالر مل سکے ہیں۔