جیو پالیٹیکس آئی ایم ایف اور ہم

پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، ہم آئی ایم ایف کی ہر بات کو قبول نہیں کریں گے



خلیل جبران سے منسوب قول کہیں پڑھا تھا ؛ اس نے کہا اور میں نے مان لیا، اس نے دوبارہ کہا تو مجھے شک ہوا، اس نے بار بار اصرار کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ صحیح نہیں کہہ رہا۔ یہ قول ہمیں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات پر یاد آیا۔

ہمیں پہلے ہی شک تھا کہ آئی ایم ایف اتنا معصوم نہیں جتنا ہم سمجھتے تھے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے دبنگ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہ انھوں نے لگی لپٹی بغیر اصل بات سے پردہ اٹھا دیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے آئی ایم ایف کے دل کا چور پکڑ کر رکھ دیا ؛ وہ چاہتے ہیں کہ ہم پہلے سری لنکا بن جائیں اور اس کے بعد ہی وہ ہمارے ساتھ مذاکرات کریں گے۔

پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، ہم آئی ایم ایف کی ہر بات کو قبول نہیں کریں گے۔ ہماری چھوٹی سی ٹیکس چھوٹ بھی ان کو نقصان پہنچا رہی ہے! اس سے ایک روز قبل وزیر مملکت برائے خزانہ نے البتہ لگی لپٹی سمیت کہا کہ آئی ایم ایف نے ہمارے بجٹ پر' تنقید' نہیں کی بلکہ ' تحفظات ' کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ معاشی نمو کو آ گے بڑھانے کے لیے سانس لینے کی کچھ گنجائش چاہتے ہیں! اس طرزِ اظہار سے سیاسی اور ٹیکنو کریٹ کا فرق واضح ہے۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے سارے ڈنک سامنے آنے پر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے دل کی بات کہہ ڈالی جب کہ وزیر مملکت تمام تر سفارتی اور ٹیکنو کریٹک آداب کے ساتھ سانس لینے کی گنجائش کے لیے ملتمس ہوئیں۔

البتہ ایک اور سکہ بند سیاستدان نے بھی اسحاق ڈار کی نہ صرف ہاں میںہاں ملائی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر للکارا ، یادش بخیر سینیٹر رضا ربانی بولے؛ پہلی بار ہے کہ عالمی سامراجی ایجنسی کسی ملک کا بجٹ دیکھے۔ ان کا الٹا گلہ یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر حکمت عملیاں بنائی گئیں۔ڈنکے کی چوٹ پر سچ کہنے کی عادت ہماری بھی ہے مگر کیا کریں مد مقابل کوئی جابر سلطان یا طاقتور ہو تو ہماری' طبعی رواداری ' غالب آ جاتی ہے۔

ہم بھی کافی عرصے سے یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف نے کیا مذاق بنا رکھا ہے؟ ہم کوئی اس کے غلام ہیں جو سانس آہستہ لینے کے لیے بھی ان سے اجازت لیں۔ ہمارا ملک ہماری مرضی! جس کو جی چاہے ٹیکس استثنیٰ دیں، چھوٹ دیں یا چھوڑ دیں۔ تمہارا کام ہے قرض دینا، قرض دو۔ چلو اچھا ہوا کہ تکلفاً دو چار سوالات پوچھ لیے، وضاحتیں مانگ لیں۔

رسم دنیا ہے دستور بھی ہے کہ مہاجن ادھار دیتے ہوئے کچھ پوچھ گچھ اور شرطیں شرائط بھی سامنے رکھ دیتا ہے، ادھار لینے والا مروتاً مان بھی لیتا ہے۔ ہم نے بھی آئی ایم ایف کی ہر بار اسی طرح عزت کی، اس نے بھی ہر بار ہمارا مان رکھا لیکن اس بار جیو پالیٹکس نے سب الٹا پلٹا کر دیا۔ ہم یہی کلمہ حق کئی ماہ سے کہنا چاہ رہے تھے لیکن آئی ایم ایف کا کوئی کار پرداز ہماری دسترس میں نہیں آیا۔خود ہم نے جا کر آئی ایم ایف کے کسی کارپرداز کوڈھونڈنے کا کشٹ اس لیے نہیں اٹھایا کہ کسی پرائے ادارے کے منہ لگنااچھا نہیں لگتا ۔

اسحاق ڈار نے ہمارے دل کی بات کہہ کر ہمیں شانت کر دیا ورنہ ہم نہ جانے کب تک ان کہی کا عذاب اٹھائے پھرتے۔ غضب خدا کا، آئی ایم ایف کی خاطر اپنی اشرافیہ یعنی ایلیٹ کو مشکل میں ڈال دیں۔ مانا کہ ماضی میں پاور سیکٹر میں بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے پاور پالیسی کے تالاب میں لمبے لمبے منافع کی ڈبکیاں لگائیں۔ اس سے اگر چند لوگوں کا بھلا ہو گیا تو کیا ہوا۔

اس ملک میں کسی کا بھلا کرنا کیا جرم ہے؟ کچھ بدخواہ جانے بوجھے بغیر الزام لگا دیتے ہیں کہ سرکلر ڈیٹ ایک بار پھر ساڑھے تین ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ مان لیا لیکن کیا بجلی ترسیل کمپنیوں میں پچیس تیس سالوں کے دوران بیشتر بھرتی کیے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو منع کر دیں، فارغ کر دیں؟ ڈسکوز کے بورڈز پر اپنے فائز کیے ہوئے لوگوں کی چھٹی کر دیں! آئی ایم ایف ہر بار سرکلر ڈیٹ کی کہانی لے کر بیٹھ جاتا ہے ، اصرار کرتا ہے اصلاحات کرو، نج کاری کرو۔ حد ہے بھئی ، اقتدار میں اختیار اور اپنے ہم خیال لوگوں کو نوازنے کا حق بھی نہ ہوتو ایسے اقتدار کا کیا کرے کوئی۔ یہی کج بحثی آئی ایم ایف نے گیس کے لیے بھی لگا رکھی ہے۔

سرکلر ڈیٹ ختم کرو، نج کاری کرو اور عالمی منڈی سے مہنگی قیمت پر خریدی گیس کی پوری قیمت وصول کرو۔ایک اور ضد پکڑ رکھی ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھاؤ۔ نیٹ تو ہم بڑھا لیں لیکن ہم نے ڈینگی کے خطرے پیس نظر نیٹ سنبھال رکھا ہے ۔ رہی ریٹیل ، رئیل اسٹیٹ اور زراعت پر ٹیکس لگانے کی بات ، صاحبو خدا لگتی کہو کہ دولت محفوظ کرنے کے جو دو چار ٹھکانے بچے ہیں ، اب آئی ایم ایف کی ضد کی خاطر کیا اپنی الیٹ کو ان سے بھی محروم کر دیں اور ٹیکس سے زیر بار کریں۔

توبہ توبہ۔ ایک اور ایمنسٹی دے دی تو کونسی قیامت آ گئی ۔ پہلے ہی فیٹف نے کھاتے پیتے لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں ۔ بھلا زمانہ تھا جتنا سرمایہ چاہو باہر بھیجو جتنا چاہو واپس منگوا لو، پوچھ گچھ کا ڈر نہ تقاضا ، قانونی تحفظ کی چھتری ہمہ وقت دستیاب۔ اب ایک معمولی سی ایمنسٹی دی ہے تو ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ اسی طرح کچھ ٹیکس چھوٹ کیا دے دی انھیں تکلیف ہو گئی۔

ٹیکس اکٹھا کرنا ہے ناں، ہمیں پتہ ہے کہاں کہاں سے کرنا ہے۔پہلے بھی تو آٹھ ہزار ارب روپے کے لگ بھگ اکٹھا کیا ہے ۔ عوام ، انڈسٹری اور امپورٹس کی یلغار ہے ناں! کچھ دوست ممالک بھی ہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔