عید کو مسئلہ نہ بنائیے

عید خوشیوں کا تہوار ہے لیکن ہمارے خودساختہ مسائل کی وجہ سے یہ پریشانی کا باعث بن جاتی ہے


آلائشوں کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگائیے۔ (فوٹو: فائل)

سمندر پار بسنے والوں لوگوں کےلیے عید خوشیوں کا سامان ہوتی ہے، کیونکہ عید قریب آتے ہی سپر مارکیٹس آفرز کا اعلان کرتی ہیں، سیرگاہوں کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے، ہر طرف خوشیوں کا سماں ہوتا ہے۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عید ایک بڑے طبقے کےلیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ عید قریب آتے ہی یہ خبریں آنا شروع ہوجاتی ہیں ''باپ نے بچوں کےلیے عید کے کپڑوں کی خواہش پوری نہ کرسکنے کی وجہ سے خودکشی کرلی'' وغیرہ وغیرہ۔


صاحب استطاعت لوگ قربانی کے جانور کی نمود و نمائش شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے سفید پوش لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ تاجر حضرات عید پر عوام کےلیے سہولت پیدا کرنے کے بجائے لوٹ مار کا بازار گرم کردیتے ہیں، جیسے اس عید کے بعد قیامت آجائے گی اور یہ آخری موقع ہو منافع کمانے کا۔ حکومت مہنگائی کنٹرول نہ کرکے اور عوام ضروری و غیر ضروری خریداری کرکے ان کا بھرپور ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔


عوام عید کے موقع پر اس طرح خریداری کرتے نظر آتے ہیں جیسے مہنگائی کسی اور ملک کے لوگوں کےلیے ہو۔ بازاروں میں ہوشربا مہنگائی کے باوجود بے پناہ رش ہوتا ہے اور پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ ہفتوں قبل قصاب کی بکنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر عید کے دن ہم دین کا بنیادی علم نہ ہونے کی وجہ سے اناڑی قصابوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔


قربانی کے بعد عید کے گوشت کی تقسیم بھی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ سالم بکرا فریج کی نذر کردیتے ہیں۔ کہیں جعلی فقیروں کو گوشت بانٹ دیا جاتا ہے تو کہیں پر باس کو خوش کرنے کےلیے قربانی کو استعمال کیا جاتا ہے اور گلی، محلے کے سفید پوش راہ تکتے رہ جاتے ہیں۔


گلی محلوں میں قربانی کرنے کی وجہ سے ہم نہ صرف طبی مسائل سے دوچار ہورہے ہیں، بلکہ ہماری لاپرواہی کی وجہ پرندے بھی جہازوں سے ٹکراتے ہیں، جس سے نہ صرف جانی بلکہ مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اور، اور، اور ... ہمارے خودساختہ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ بات سمجھ لیں کہ عید ہر سال آتی ہے اور آتی رہے گی۔ اس لیے عید کو مسئلہ نہ بنائیں۔ عید ہمارے لیے خوشیوں کا تہوار ہے اور خوشیوں کا تہوار ہی رہنا چاہیے، نہ کہ ہم اسے اپنی جہالت کی بھینٹ چڑھا دیں۔ عید کے موقع پر اگر کوئی باپ اپنے بچوں کو نئے کپڑے لے کر نہیں دے سکتا تو خودکشی کرنے کے بجائے بچوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ عید کے موقع پر نئے کپڑے پہننا مسئلہ نہیں، اگر نئے کپڑے نہیں ہیں تو پرانے کپڑوں کی دھلائی کرکے پہنا جاسکتا ہے، ہاں حرام کی کمائی سے نئے کپڑے خریدنا مسئلہ ہے۔


البتہ ہمیں اپنی معاشی حالت کی بہتری کےلیے پوری ایمانداری سے محنت ضرور کرنا چاہیے۔ اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرنا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر آپ ایک بہترین مستری بھی ہیں تو شاید ہی آپ کا کوئی دن فارغ ہو۔ آپ اچھا سموسہ بنا سکتے ہیں تو صبح سے شام تک آپ کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملے گی۔ اس لیے اپنی صلاحیتوں کو پالش کیجیے تاکہ آپ اپنے اہل خانہ کو ایک اچھی زندگی مہیا کرسکیں۔


عید کے موقع پر اگر قربانی نہیں کرسکتے تو عید پر قربانی کرنے والے پڑوسی، رشتے داروں کی جانب سے گوشت کا انتظار کرنے کے بجائے عید سے قبل گوشت خرید کر اپنے بچوں کو گوشت کھلانے کا انتظام کیجیے۔


ہم سب کو معلوم ہے عید کے موقع پر ظالم تاجر عوام کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر ظلم کی حد تک منافع کماتے ہیں۔ تو ہم کوشش کرکے عید سے پہلے خریداری کرلیں، نہ کہ چاند رات کو مظلوم بنیں۔


اگر ہمیں اللہ رب العزت نے صاحب استطاعت بنایا ہے تو عید کے موقع پر اناڑی قصائیوں کے ہاتھوں لٹنے کے بجائے خود قربانی کریں، اگر نہیں آتی تو سیکھ لیں یا پھر مناسب وقت پر قصائی کا بندوبست کرلیں۔


اور آخر میں حکومت وقت سے گزارش کہ ہر سال عید کے موقع پر طیاروں سے پرندوں کے ٹکرانے کے واقعات ہوتے ہیں۔ براہِ کرم ترقی یافتہ ممالک سے سیکھتے ہوئے قربانی کو سرکاری مذبح خانے تک محدود کردیں، نجی طور پر قربانی کو بند کردیا جائے۔ جسے قربانی کرنی ہے وہ عرب ممالک کی طرح سرکاری مذبح خانہ میں جانور لے کر آئے اور مناسب فیس ادا کرنے کے بعد ماہر قصاب، جانوروں کے ڈاکٹر کے زیر نگرانی ذبح کروانے کے بعد گوشت گھر لے جائے اور سرکاری سطح پر آلائشوں کو مناسب جگہ پر ٹھکانے لگادیا جائے۔


اور اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو کم ازکم نجی کمپنیوں کو قربانی کا ٹھیکہ دے اور وہ قربانی کی سہولت مہیا کریں۔ ہر کسی کو، ہر جگہ، گلی، محلوں میں قربانی کرنے کی اجازت نہ ہو اور جب تک حکومت ایسا نہیں کرسکتی عوام ہی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی کو کھلی جگہ پر کریں اور آلائشوں کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگائیں۔ عید کو مسئلہ نہ بنائیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں