روس یوکرین جنگ پھیلنے کے خدشات

جنگ چاہے اقتدار حاصل کرنے لیے ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی،جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا


Editorial June 23, 2023
جنگ چاہے اقتدار حاصل کرنے لیے ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی،جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ فوٹو: فائل

روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر نیٹو تنظیم نے یوکرین تنازعے کو طول دینے کی کوشش کی تو وہ اس سے لڑنے کو تیار ہے۔

یہ بات پاکستان کے میڈیا نے روسی خبررساں ادارے کے حوالے سے بتائی ہے۔میڈیا کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اگلے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہم ایک مرتبہ پھر نیٹو کے چیف سٹولٹن برگ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اگر یوکرین تنازعہ کو طول دینا چاہتے ہیں یا لڑنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں ۔

روسی وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم یوکرین کے ارد گرد کی صورتحال میں نیٹو کے مقاصد اور کردار سے بخوبی آگاہ ہیں، ہم ان کا مقابلہ کرنے اور نیٹو سے بھی جنگ کے لیے تیار ہیں۔ادھر روسی خبررساں ادارے کے حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ امریکی محکمہ دفاع ( پینٹاگان)کی ڈپٹی پریس سیکریٹری سبرینا سنگھ نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ یوکرینی حملوں کے بعد روسی جوابی کارروائیاں بہت سخت ہوں گی جن کا سامنا یوکرین کے لیے کٹھن ہوگا کیونکہ روس اب نئی حکمت عملی کے ساتھ یہ جنگ لڑنے جارہا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس جنگ میں مزید شدت آنے والی ہے' اس بات کو جاننے میں وقت لگے گاکہ آیا یوکرین کے پاس روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اب اس میدان جنگ میں نقصانات ہونے والے ہیں جن کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

ان بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یوکرین صرف جنگ کا میدان ہے جب کہ اس جنگ کے اصل فریق روس اور نیٹو ہے۔

امریکا چونکہ نیٹو کا سب سے طاقتور ملک ہے اور وہی درحقیقت اس تنظیم کا سربراہ ہے' اس تنظیم کے چیف جب روس مخالف بیان دیں گے تو ظاہر ہے کہ پھر روس بھی جواب دینے پر مجبور ہو گا ' یہ بھی واضح نظر آتا ہے کہ امریکا اور نیٹو ممالک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ روس کے نئے حملے یوکرین میں بے پناہ تباہی پھیلائیں گے لیکن اس کے باوجود جنگ بند کرنے کے حوالے سے پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔امریکا محض یوکرین میں ہی مسائل پیدا نہیں کر رہا بلکہ چین کو بھی کسی نہ کسی معاملے میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ کو آمر کہا 'عالمی میڈیا کے مطابق اس بیان پر امریکا اور چین میں ایک بار پھر تلخی ہو گئی ہے۔ادھر امریکی وزیر خارجہ کے دو روزہ چین کے دورے میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری کی برف پگھلنے لگی تھی لیکن صدر جوبائیڈن کے ایک بیان کی وجہ سے تلخیاں دوبارہ سر اْٹھانے لگیں۔

صدر بائیڈن نے شمالی کیلیفورنیا میں پارٹی کے لیے فنڈ جمع کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رواں برس فروری میں چین کے جاسوسی غباروں کو مار گرانے کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ کو آمر کہہ دیا۔امریکی صدر نے کہا کہ جب امریکی فوج نے چین کے جاسوسی غبارے مار گرائے تو شی جن پنگ غصے میں آگئے۔

یہ آمروں کے لیے بہت بڑی شرمندگی ہوتی ہے کہ جب انھیں پتا بھی نہیں چلتا کہ ان کا منصوبہ کیسے فلاپ ہوگیا۔صدر شی جن پنگ کو آمر سے تشبیہ دینے پر چین نے امریکی صدربائیڈن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ بیان انتہائی مضحکہ خیز اور غیر ذمے دارانہ ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ امریکی صدر کا بیان حقائق کے برعکس، سیاسی وقار کے منافی اور سفارتی پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ امریکی صدر کے بیان نے نئی صورت حال پیدا کردی ہے جس سے دونوں ممالک کے صدور کی رواں برس کے آخر میں ہونے والی ملاقات خطرے میں پڑگئی ہے۔

امریکا اور نیٹو ایک ہی ایجنڈے پر چلتے ہیں' روس اور یوکرین کے درمیان جنگ تاحال جاری ہے اور اس جنگ کو بند کرانے کے لیے جو کوششیںکی گئی ہیں، وہ بے نتیجہ رہی ہیں۔

مئی کے آخری ہفتے میں امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے اتحادی ممالک کے گروپ رامسٹین سے ورچوئل میٹنگ کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ روس فوجی مہم جوئی کے ذریعے یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا، یوکرین جنگ طویل ہوسکتی ہے لیکن روس اس جنگ میں فاتح نہیں ہوگا کیونکہ روس یہ جنگ جیتنے والا بالکل بھی نہیں ہے۔

جنرل مارک ملی نے مزید بتایا کہ یوکرین بھی جلد فتح یاب نہیں ہوسکے گا اور یہ جنگ کافی خونریز اور طویل ہوسکتی ہے کیونکہ فریقین مذاکرات پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ امریکی جنرل نے یہ بھی کہا کہ روس کے اصل سٹرٹیجک مقاصد میں سے ایک یوکرین میں حکومت کا تختہ الٹنا ہے جسے وہ فوجی مہمات کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا۔ لاکھوں فوج کی موجودگی کے باوجود روس کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا۔

کچھ عرصہ پہلے یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ڈپٹی سربراہ نے ایک بڑا ذومعنی بیان دیا تھا ۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ صدرپوٹن محسوس کر رہے ہیں کہ ہم ان کے قریب پہنچ رہے ہیں لیکن انھیں ڈر ہے کہ ان کو اپنے ہی لوگ قتل کردیں گے۔

اس پر روس نے سخت ردعمل دیا تھا۔ روس کے صدارتی محل کریملین کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہماری سیکیورٹی سروسز جانتی ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ڈپٹی سربراہ کا انٹرویو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یوکرین میں آپریشن کا آغاز کرنا روس کا حق تھا۔

روس اوریوکرین کے درمیان جاری جنگ خاصی پیچیدہ ہوچکی ہے،جنگ میں دوسرے فریق بھی شامل ہوچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ تاحال جاری ہے حالانکہ روس دفاعی اور معاشی اعتبار سے یوکرین سے کہیں زیادہ طاقتور ہے لیکن امریکا اور مغربی ممالک کی مدد و تعاون سے یوکرین جنگ جاری رکھے ہوئے ہے،روس خاصے دباؤ کا شکار نظر آتا ہے جب کہ یہ جنگ عالمی امن کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔

اس کے اثرات روس یا یوکرین پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں، عالمی معیشت کی بنیادیں بھی ہل رہی ہیں ۔ روس، یوکرین جنگ انتہائی تباہ کن شکل اس لیے اختیار کررہی ہے کہ صرف دو فریق جنگ نہیں کر رہے بلکہ اس میں بہت سی عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کو لے کر کود پڑی ہیں۔

جنگ صرف تباہی وبربادی کا نام ہے، جنگ میں اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ جنگ چاہے اقتدار حاصل کرنے لیے ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی،جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جنگ بے رحم ہوتی ہے۔

چاہے اس کی مثال امریکا اور سوویت یونین کی لی جائے، ویت نام اور امریکا کی، الجیریا اور فرانس کی یا پھر پہلی عالمی جنگ کی یا دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی، جس نے جاپان کے شہروں کو ایٹم زدہ بنایا تھا اور جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ روس تقریباً دو سال سے یوکرین کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے جو اب تک جاری ہے۔

اب اس بات کے خدشات بھی ابھرنے لگے ہیں، اگر تنازعے نے مزید طول کھینچا تو کہیں عالمی طاقتوں کی یہ کشمکش ایک نئی عالمی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے۔یورپی ممالک امریکا اور نیٹو یوکرین کو سامان حرب اور جدید فوجی ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ کر رہی ہیں۔جس کی وجہ سے جنگ طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔

روس کا موقف ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات صرف ایک '' نئے عالمی نظام '' کے تحت ہی ممکن ہو سکتے ہیں اور یہ ' نیو گلوبل آرڈر ' امریکی برتری کے بغیر قائم کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ ایک 'نیا عالمی نظام ' ایسا ہونا چاہیے، جس میں عالمی سطح پر کسی ایک سپر پاور کا غلبہ نہ ہو۔ اس جنگ سے متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے اور دسیوں لاکھ بے گناہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور اس تباہی کا کیا ہی ذکر کریں جو تمام توقعات سے تجاوز کر چکی ہے۔

حالات و واقعات سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ امریکا اور مغربی یورپ ایک منصوبہ بندی کے تحت روس اور چین کو محدود رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

امریکا اور مغربی یورپ کے اس اتحاد میں نیٹو تنظیم سے باہر کے بھی چند ایسے امیر ممالک بھی شامل ہیں جو عالمی تجارت میں روس اور چین کے مقابل ہیں 'یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس خاصے معاشی دباؤ کا شکار ہے' امریکا اور نیٹوکی یہ بھی کوشش ہے کہ چین کو بھی کسی تنازع میں الجھایا جائے لیکن چین ابھی تک جنگ سے بچتا چلا آ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں